تحریک عدم اعتماد اور ق لیگ کی خواہش

تحریک عدم اعتماد اور ق لیگ کی خواہش

کالم نگار (محمد شہزاد بھٹی)موجودہ وزیراعظم عمران خان کے ساڑھے تین سال کی کارکردگی کی اگر بات کی جائے تو وہ انتہائی مایوس کن ہے جس کو جواز بنا کر ہی اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا۔ تحریک عدم اعتماد کی ریکوزیشن قومی اسمبلی میں جمع ہونے کے بعد سے دوسروں کو نہ گھبرانے کا مشورہ دینے والے وزیراعظم عمران خان خود اتنے گھبرا گئے ہیں کہ وہ اپوزیشن کو بار بار دھمکیاں دینے اور وارننگ دینے پر اتر آئے ہیں ان کا یہ رویہ انہیں وزیراعظم ہونے کے ناطے کسی صورت زیب نہیں دیتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اب وزیراعظم عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی طرف ایسے دیکھ رہے ہیں جیسے پیمپر خراب ہونے کے بعد بچہ اپنی ماں کی طرف دیکھتا ہے۔ موجودہ حکومت کی مایوس کن کاركردگی کی وجہ سے عوام تو پہلے نالاں تھی ہی اس سے مگر اب حکومت کے اپنی جماعت کے لوگ اور اپنے اتحادی بھی بیزار ہو چکے ہیں، کچھ تو راہ فرار اختیار کر چکے ہیں اور کچھ ابھی وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہے ہیں انہیں میں سے ایک ق لیگ بھی ہے۔ پوری دنیا کے اندر کہیں بھی آپ نے ایسا تماشہ نہیں دیکھا ہو گا جیسا کہ پاکستان میں دیکھنے کو ملا ہے۔ ق لیگ کی طرف سے حکومت اور اپوزیشن کو دونوں کو یہ کہا جا رہا ہے کہ پنجاب کا وزیراعلی بنا دو ورنہ ہم آپ کا ساتھ نہیں دیں گے یہ تماشہ صرف پاکستان میں ہے جسے ہم جمہوریت کا نام دیتے ہیں۔ ق لیگ اتنی بڑی سیاسی جماعت ہے کہ اگر ہم ایک سو روپے کے مرغ چنے اور دس روغنی نان منگوائیں تو پوری ق لیگ کے ناشتہ کرنے کے بعد بھی تین نان بچ جاتے ہیں اور انہیں بارہ کروڑ آبادی والے صوبہ پنجاب کی وزارت اعلی چاہیے۔ اگر چھ سموسے، ایک پلیٹ فروٹ چاٹ، آدھا جگ شربت ہو تو رمضان المبارک میں پوری ق لیگ کی افطاری کے بعد بھی ایک سموسہ بچ جائے گا مگر ان کی خواہش ہے کہ انہیں پنجاب کی وزارت اعلی چاہیے۔ اگر ہاف پاؤنڈ کیک ہی منگوا لیا جائے تو پوری ق لیگ کے کھانے کے بعد بھی کچھ کیک بچ جاتا ہے مگر انہیں پنجاب کا وزیراعلی بننا ہے۔ ق لیگ کے ٹوٹل افراد دو موٹر سائیکل پر سوار ہو سکتے ہیں مگر ان کی خواہش ہے کہ بارہ کروڑ والے صوبہ پنجاب پر حکمرانی کرنی ہے۔ ق لیگ کے ٹوٹل بندوں کے لئے اگر ڈیرھ لیٹر کوک کو کھولیں تو پوری ق لیگ کے پینے کے بعد بھی ڈیرھ گلاس بچ جاتا ہے۔ اگر ایک تانگہ یا رکشہ کرائے پر کرا لیا جائے تو ساری کی ساری ق لیگ اس تانگے یا رکشے پر ہی سوار ہو جائے۔ اگر ایک کلو دودھ میں پتی ڈال دی جائے تو ساری ق لیگ چائے کا ایک ایک کپ پی لے مگر پھر بھی ڈیرھ سے دو کپ چائے بچ جائے مگر انہوں نے پنجاب کی وزارت اعلی لینی ہے۔ اتنی بڑی ڈیمانڈ کرتے ہوئے پتا نہیں ق لیگ والوں کو کوئی شرم محسوس ہوئی یا نہیں یہ تو خیر وہی بہتر بتا سکتے ہیں، ویسے ق لیگ کی پنجاب کی وزارت اعلی کی ڈیمانڈ ہر صاحب عقل و دانش کو ذرا بھی اچھی نہیں لگی “نام دے چوہدری تے حرکتاں كمیاں والیاں” ہم اپنے بزرگوں سے سنتے آئے ہیں کہ کسی زمانے میں ایک ٹکے کی آٹھ ٹافیاں ملتی تھیں بس آج کے دور میں ق لیگ کی وزارت اعلی کی ڈیمانڈ سن کر وہی بات یاد آ گئی کیونکہ ہو سکتا ہے ق لیگ کے چوہدری برادران نے بھی شاید یہی بات مدنظر رکھ کر پانچ سیٹوں کی بنیاد پر پنجاب کی وزارت اعلی کی ڈیمانڈ کی ہو۔ اگر ایک عورت آٹھ بچوں کی ماں بننے کے بعد اپنے کسی آشنا سے یہ کہے کہ اسے سچا پیار نہیں ملا اس لئے اپنی جان کو بھگا کر اپنے ساتھ لے جاؤ تو اگر آشنا میں ذرا بھی عقل و شعور ہوا تو وہ ہزار بار سوچے گا کہ جو آٹھ بچوں کے بعد اپنے خاوند کی نہیں ہوئی وہ میرے ساتھ کیسے وفاداری کر سکتی ہے۔ یہ تو شکر ہے ق لیگ کے پاس پانچ سیٹیں ہیں سوچو، اگر ان کے پاس دس سیٹیں ہوتیں تو انہوں نے شاید امریکہ کی صدارت کی ڈیمانڈ کر دینی تھی۔ مجھے نہیں لگتا کہ پاکستان مسلم لیگ ن ایسی غلطی کرے گی کہ پنجاب میں اکثریت کے باوجود ق لیگ کی اس احمقانہ وزارت اعلی کی خواہش کو پورا کر کے وہ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارے گی۔ جہاں تک تحریک عدم کی بات ہے اگر تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو آج تک کوئی تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوئی جو مختلف وزیراعظموں کے خلاف مختلف اوقات میں پیش ہوئیں۔ اگر اس بار وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ کسی معجزے سے کم نہیں ہو گا اور ایک نئی تاریخ رقم ہو جائے گی لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہے اگر اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار رہے۔