ایران نے حملے میں 300 سے زیادہ ڈرونز اور میزائل استعمال کیے۔ اسرائیل اور اتحادیوں نے بیشتر کو جدید دفاعی نظاموں سے مار گرایا۔ دونوں فریقوں کو حملہ کرنے اور حملہ روکنے پر کثیر اخراجات برداشت کرنے پڑے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل حملہ کرتا ہے تو ایران کے پاس جوابی کارروائی کے لیے ہزاروں ڈورنز اور میزائلوں کا ذخیرہ موجود ہے۔ |
اگرچہ اسرائیل نے یہ نہیں بتایا کہ ایران کے ڈرونز اور میزائل گرانے پر اٹھنے والے اخراجات کتنے تھے، لیکن متعدد تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ایران نے اپنے حملے میں آٹھ سے دس کروڑ ڈالر مالیت کے ڈرونز اور میزائل استعمال کیے تھے جبکہ انہیں مار گرانے پر اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے اخراجات کا تخمینہ ایک ارب ڈالر تک جا پہنچتا ہے۔
اگر اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو ایران کے حالیہ ڈرونز اور میزائل حملے کے خلاف جوابی کارروائی نہ کرنے کے عالمی دباؤ کو نظرانداز کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ماہرین کے مطابق یہ ایران کے پرانے اور فرسودہ طیاروں اور ہتھیاروں سے لیس فضائیہ کے لیے ایک کڑا امتحان ہو گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایرانی فضائیہ کی قوت اور حربی صلاحیت کے پیش نظر اسرائیل کو ایران کے اندر اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے بہت کم دشواری کا سامنا ہو گا جس کے پاس فرسودہ طیارے اور اپنا تیار کردہ دفاعی نظام ہے جو زیادہ تر روسی ماڈلز پر مبنی ہے۔
ایران نے حال ہی میں اسرائیل پر میزائلوں اور ڈرونز سے جو حملہ کیا تھا، اس میں تہران نے یہ خیال رکھا تھا کہ اس کے میزائلوں اور ڈرونز سے کم سے کم نقصان ہو۔
اسرائیل کے ایک سابق فضائی دفاع کے سربراہ زویکا ہیمووچ کا کہنا ہے کہ ایران ٹیکٹیکل بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز کے شعبے میں ایک بڑی قوت کی حیثیت رکھتا ہے۔
ایران کا فضائی دفاعی نظام بڑے پیمانے پر روسی ایس 200 اور ایس 300 طیارہ شکن میزائل سسٹمز کے گرد گھومتا ہے یا اس میں مقامی سطح پر تیار کردہ میزائل شامل ہیں، یا پھر وہ پرانے امریکی اور روسی جنگی طیارے ہیں جن میں سے اکثر کا تعلق شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کی 1970 کی دہائی سے ہے۔
ہیمووچ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی فضائیہ جدید ہے اور اس کے لیے ایران کے فضائی دفاع سے نمٹنا چیلنج نہیں ہو گا۔
لندن میں رائل یونائیٹڈ اسٹرٹیجک انسٹی ٹیوٹ کے ریسرچ فیلو سدھارتھ کوشا کہتے ہیں کہ اسرائیلی ایف۔35 جیسے طیارے ایران کے فضائی دفاعی نیٹ ورک سے بچ کر نکل سکتے ہیں، لیکن ان کے ذریعے صرف چھوٹے ہتھیار ہی لے جائے جا سکتے ہیں۔ بڑے ہتھیاروں کے لیے اسے ایف۔16 کی ضرورت پڑے گی جو ریڈار کی پکڑ میں آسکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو جوابی کارروائی کرنے سے پہلے ایران کے مزید حملوں کا خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہونا پڑے گا اور اسے یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ ایران کے مزید کتنے حملے ناکام بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
دفاعی ماہرین کہتے ہیں کہ اسرائیل کو یہ ذہن میں رکھنا ہو گا کہ ایران آئندہ کے حملوں میں اپنے میزائلوں اور ڈرونز میں سے مزید خطرناک ہتھیاروں کا انتخاب کر سکتا ہے جس کے پاس ایک اندازے کے مطابق کم ازکم ساڑھے تین ہزار میزائلوں اور ڈرونز کا ذخیرہ موجود ہے جن کی تعداد مزید کئی ہزار تک ہو سکتی ہے۔
اسرائیل کو جوابی کارروائی کے بعد ایران کے مزید حملے روکنے کے لیے اپنے جدید دفاعی نظام استعمال کرنے پڑیں گے، لیکن اس کے گولہ بارود کی بھی ایک قیمت ہے اور وہ کافی مہنگے آتے ہیں۔
ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ اسرائیل یہ بھی دھیان میں رکھے گا کہ لبنان میں ایرانی حمایت یافتہ طاقت ور پراکسی حزب اللہ موجود ہے جس کے پاس ہزاروں میزائلوں کا ذخیرہ ہے۔ ایران انہیں بھی اسرائیل پر حملوں کا اشارہ دے سکتا ہے۔
اس صورت حال کے پیش نظر بدھ کے روز امریکی صدر جو بائیڈن نے کانگریس پر زور دیا تھا کہ وہ اسرائیل کے فضائی دفاع کو تقویت دینے کے لیے ایک امدادی بل کی منظوری دے۔
اسرائیل کی فضائی دفاعی ٹاسک فورس کے سربراہ بریگیڈیر جنرل ڈورون گیویش نے کہا ہے کہ اسرائیل، ایران یا اس کی پراکسیزکی جانب سے کوئی اور ممکنہ حملہ روکنے کے لیے اپنے ہتھیاروں کے ذخیرے بھرنے کے لیے دن رات کام کر رہا ہے۔
اسرائیل کو ایران کے حملے روکنے کے لیے تہہ در تہہ دفاعی حصار کی ضرورت ہے تاکہ ایک دفاعی نظام سے بچ کر نکلنے والا میزائل دوسرے نظام کی نظر میں آ سکے۔
بریگیڈیر جنرل گیویش نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے باوجود ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے پاس اپنے اتحادیوں کی جانب سے اور خاص طور پر امریکہ کی جانب سے ضروری سپلائی موجود ہے۔
اسرائیل کی فضائیہ کے ایک ریٹائرڈ جنرل اور ملٹری انٹیلی جینس کے سربراہ اموس یادلن کہتے ہیں کہ اسرائیل حملوں کو پسپا کیے بغیراور خطرے کو ختم کیے بغیر نہیں بیٹھے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایران ہی ایسا واحد فریق نہیں ہے جو جانتا ہےکہ اسرائیل پر کس طرح حملہ کرنا ہے۔ لیکن اسرائیل کے پاس بھی حملے کے بہت سے آپشنز موجود ہیں۔ ایسا نہیں ہو گا کہ ایران حملے کرتا رہے اور اسرائیل صرف اپنا دفاع کرتا رہے۔
(اس آرٹیکل کے لیے کچھ معلومات رائٹرز سے لی گئیں ہیں)