فوج کی شمولیت کے باوجود 'ایس آئی ایف سی' کی افادیت پر سوال کیوں اُٹھ رہے ہیں؟

فوج کی شمولیت کے باوجود ‘ایس آئی ایف سی’ کی افادیت پر سوال کیوں اُٹھ رہے ہیں؟

پاکستان میں ایک حالیہ تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سرمایہ کاری کی سہولتوں کے لیے قائم کیے گئے اسپیشل انویسٹمنٹ فیسی لیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) کا مینڈیٹ اور اس کے مقاصد ملک کی ضروریات کا احاطہ کرتے نظر نہیں آتے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کا انحصار معیشت سے جڑے مسائل حل کرنے پر ہے۔

پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاروں کو سہولتیں فراہم کرنے کی غرض سے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی اتحادی حکومت نے رواں سال جون میں ایس آئی ایف سی قائم کی تھی۔

اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف مارکیٹ اکانومی (پرائم) کی جانب سے شائع ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں ایس آئی ایف سی کے قیام کا بنیادی مقصد بیرونی سرمایہ کاری کو سہولت فراہم کرنا ہے لیکن یہ کئی وجوہات کی بنا پر فی الحال کافی کم ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ان وجوہات میں سیاسی عدم استحکام سے لے کر سیکیورٹی چیلنجز اور پالیسیز میں بارہا تبدیلی جیسے عوامل شامل ہیں۔

اصلاحات کے بجائے نئے ادارے کا قیام؛ ‘پاکستان میں ایسی مثالیں بھری پڑی ہیں’

تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایس آئی ایف سی درحقیقت بورڈ آف انویسٹمنٹ کی ہی ایک نئی شکل ہے۔ بورڈ اس سے قبل پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری لانے اور اس کے لیے بہتر ماحول فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے اور ملک میں تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھی نہ لائی جاسکی ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اس کی بنیادی وجہ ملک کے غیر موزوں معاشی اور سیاسی حالات رہے ہیں۔

رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ ایس آئی ایف سی کا قیام در حقیقت بورڈ آف انویسٹمنٹ (بی او آئی) کی ناکامی کا ایک طرح سے اعتراف ہے۔

اگرچہ قانونی طور پر ایس آئی ایف سی بی او آئی کا ہی ذیلی ادارہ ہے لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ اس کے مینیجمنٹ آپریشن بی او آئی سے مختلف ہے۔بورڈ کی ناکامی نے فیصلہ سازوں کو اس میں اصلاحات کے نفاذ کا قائل نہیں کیا بلکہ اسی کام کو کرنے کے لیے ایک نیا ادارہ قائم کردیا گیا۔

ماہرین کے مطابق بی او آئی کی ناکامی کی وجوہات تلاش کرکے اسے دور کرنے کی کوشش تو نہیں کی گئی جب کہ ایس آئی ایف سی بھی اس معاملے میں اصل مسائل کو حل کرنے کے لیے طریقۂ کار بھی وضع نہیں کرسکا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومتی ضابطے، نوکر شاہی کی رکاوٹیں اور ادارہ جاتی اصلاحات نہ ہونے اور حکومتوں کی نااہلیوں کے باعث اس وقت ملک میں اقتصادی سرگرمیوں کو بڑھانے کے لیے ماحول سازگار نہیں ہے۔ اسی طرح حکومتی ضابطے پیچیدہ اور بوجھل ہیں جس سے نہ صرف کاروبار کے قیام میں تاخیر ہوتی ہے بلکہ متعلقہ اخراجات میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ملک میں کاروبار کرنے کے لیے متعدد اقدامات اور حکومتی ادارے سے منظوری لینی پڑتی ہے اور اس عمل میں تاخیر سے ملک میں انٹرپرینیورشپ کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔مثال کے طور پر برآمد کنندگان کو سامان باہر بھیجنے کے لیے تقریباً 13 ایجنسیوں سے نمٹنا پڑتا ہے جب کہ درآمد کنندگان کو سامان منگوانے کے لیے لگ بھگ 60 ایجنسیوں کو دستاویزات جمع کرانی پڑتی ہیں۔

ملک کے ٹیکس نظام سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ نظام انتہائی پیچیدہ ہے۔ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کے لیے اور ایف بی آر کے ساتھ کاروبار رجسٹرڈ کرنے کے لیے پیشہ ورانہ ٹیکس ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ انکم اور سیلز ٹیکس ریٹرن بھی فائل کرنے کے لیے بھی پیشہ ورافراد کی مہارت کی ضرورت ہے۔ ملک میں ان جیسے عوامی مسائل کے حل اور خدمات تک رسائی کے لیےڈیجیٹلائزیشن نہیں ہوئی ہے۔اس کے برعکس دنیا بھر کے ممالک نے کئی دہائیوں پہلے ہی عوامی خدمات کو ڈیجیٹلائزڈ کرلیا ہے۔

‘معاشی پالیسیوں میں تبدیلیوں نے غیر یقینی کی فضا کو تقویت دی’

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں معاشی پالیسیاں بڑی تیزی سے تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ ان تبدیلیوں سے ملک میں ایک غیر یقینی ماحول پیدا ہوتا ہے جس سے نہ صرف ملکی سرمایہ کاری بلکہ کاروبار کی توسیع اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی بھی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ دوسرا یہ کہ ایک جیسی پالیسیوں کی تکرار سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ اس سے کوئی مختلف نتائج نکلیں گے۔

پرائم کی شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا کہ شرح مبادلہ کی پالیسیوں، محصولات اور ٹیکسز میں متواتر تبدیلیوں نے ملک کے اقتصادی ماحول میں ایک غیر یقینی صورتِ حال پیدا کر رکھی ہے۔یہ پالیسیاں ماضی میں بار بار ناکام ہوئیں لیکن حکومت مختلف نتائج کی توقع رکھتے ہوئے اکثر ان ہی پالیسیوں کا سہارا لیتی رہتی ہے۔ ان پالیسیوں سے پیدا ہونے والا بگاڑ بہت زیادہ ہے اور اس سے لوگ اپنی سرگرمیاں غیر دستاویزی انداز میں جاری رکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے ایس آئی ایف سی کی صلاحیت کا انحصار ملک کے ساختی مسائل کے حل پر ہے۔ایس آئی ایف سی کا مینڈیٹ اور اس کے مقاصد ملکی ضروریات سے مطابقت نہیں رکھتے جب کہ اس سے مقامی تاجر برادری کو نکالنے سے پالیسیاں اور بھی غیر مؤثر ہو جائیں گی۔

اس رپورٹ کے مطابق حکومت نے بیوروکریسی کی طرف سے ڈالی جانے والی رکاوٹوں اور سرخ فیتے کا اعتراف کیا ہے لیکن ان مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی گئی۔

پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے رپورٹ میں بتایا کہ جب تک حکومت پالیسیوں میں تبدیلی اور انتظامی کنٹرول کے ذریعے پابندیاں نافذ کرنے کا استعمال جاری رکھے گی، ملک کا پالیسی ماحول غیر ساز گار ہی رہے گا۔ ان کے بقول ایس آئی ایف سی کی مینیجمنٹ میں مطلوبہ تجربہ اور مہارت کے حامل پیشہ ور افراد کی شمولیت نظر نہیں آتی۔سیاسی حکومتوں پر عوام کا اعتماد ہونے اور سیاسی استحکام کےفروغ کے لیے ضروری ہے کہ فیصلہ سازی اور عمل درآمد میں فوج کا استعمال کرنے کے بجائے سیاسی ملکیت پر زور دیا جائے۔

‘معاشی فیصلہ سازی میں فوج کا عمل دخل ملک کے استحکام کو خطرے میں ڈال سکتا ہے’

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فیصلہ سازی کے عمل میں فوج کی بڑھتی ہوئی شمولیت اور ماضی کی اس طرح کی مثالوں نے بھی عوام میں ناراضی پیدا کی ہے۔ مطلوبہ مہارت کے بغیر فوج کو معاشی فیصلہ سازی میں شامل کرنا نہ صرف ملک کے استحکام کو خطرے میں ڈالے گا بلکہ اقدامات کی ناکامی کا باعث بھی بنے گا۔

رپورٹ کے مطابق معاشی اقدامات کے نفاذ میں فوج کی مدد لینا اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے کہ حکومت نے ادارہ جاتی اصلاحات کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا ہے۔

‘معیشت کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی لائے بغیر بہتری کی توقع غلط ہے’

بورڈ آف انویسٹمنٹ کے سابق چیئرمین ہارون شریف کہتے ہیں کہ معیشت کے ڈھانچے میں تبدیلی لائے بغیر ہر اقدام ناکامی سے دوچار ہے۔

انہوں نے کہا کہ 40 سال سے ملک کے معاشی ڈھانچے میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جاسکی۔ ملک میں 25 لاکھ بچے ہر سال جاب مارکیٹ میں آرہے ہیں، ان کے لیےملازمتوں کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔

ہارون شریف کے مطابق ہمارا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس بیرونی کرنسی نہیں ہے، معاشی ساخت ایسی ہونی چاہیے کہ معیشت برآمدات اور ترسیلات زر بڑھا کر بیرونی کرنسی کی کمی پوری کرسکے۔اس کے علاوہ ملک میں تیسرا مسئلہ صنعتوں کی پیداوار بڑھانا جب کہ چوتھا مسئلہ ویلیو ایڈڈ پروڈکسٹس تیار کرنا ہے۔

ان کے بقول ایس آئی ایف سی کا ان مقاصد کے حصول میں مختلف اداروں کے درمیان رابطوں کے قیام کے لیےتو کردار ہوسکتا ہے۔لیکن جب تک معیشت کے پرانے ڈھانچے کو ہلایا نہیں جاتا اور ترجیحات تبدیل نہیں کی جاتیں، اس وقت تک تبدیلی ممکن نہیں ہے۔

ان کی رائے میں ایس آئی ایف سی مذکورہ ڈھانچےمیں کوئی تبدیلی کا باعث نہیں بن رہی۔

‘پہلے تین کمیشن ناکام ہوئے، یہ چوتھا ادارہ ہے’

ماہر معاشیات ڈاکٹر ایوب مہر بھی اس خصوصی کونسل کی کامیابی کی بہت کم امید دیکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ ادوار میں ملک میں کم از کم تین ہائی پاور کمیشن قائم کیے گئے تھے جن کا مقصد کاروبار میں آسانیوں کے معیارات حاصل کرنا تھا۔ لیکن نگراں سیٹ اپ کاروبار میں آسانیوں کے لیے کام کرنے والی کونسل کی افادیت پر سوالیہ نشان لگا دیتا ہے کیوں کہ مختلف اقدامات کے لیے آئینی ترامیم کی ضرورت ہوتی ہے اور نگراں سیٹ اپ میں تو پالیسی فیصلے بھی نہیں لیےجاسکتے، آئینی ترامیم تو دور کی بات ہے۔

ان کے بقول ایسے ماحول میں کونسل کے مقاصد میں کامیاب ہونے کی امید بہت کم ہے۔ لیکن ان کی خواہش ہے کہ یہ کونسل کامیابی سے ہمکنار ہو۔

ایس آئی ایف سی کیا ہے؟

اسپیشل انویسٹمنٹ فیسی لیٹیشن کونسل کی اعلیٰ ترین (ایپیکس) کمیٹی میں وزیر اعظم، چاروں وزرائے اعلیٰ اور چیف آف آرمی اسٹاف شامل ہیں۔

کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی میں وفاقی اورصوبائی کابینہ کے اراکین، بیوروکریسی کے بعض سینئر افسران اور فوج کا نمائندہ بھی شامل کیا گیا ہے۔ ایس آئی ایف سی کی تیسری کمیٹی عمل درآمد کمیٹی کہلاتی ہے جس میں وزیر اعظم کے خصوصی معاون اور فوج کا افسر موجود ہے۔

اس کونسل کے اغراض و مقاصد میں بعض شناخت شدہ شعبوں میں دوست ممالک سے سرمایہ کاری کو راغب کرنا بتایا گیا ہے جن میں دفاع، زراعت، معدنیات، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ٹیلی کمیونیکیشن اور توانائی کے شعبے شامل ہیں۔

اس مقصد کے لیے کونسل ‘سنگل ونڈو’ پلیٹ فارم کے طور پر کام کرے گی تاکہ ممکنہ سرمایہ کاروں کے لیے ملک میں کاروبار کرنے میں آسانی پیدا کی جاسکے۔فوج کی جانب سےاس مقصد کے لیےہر قسم کے تعاون کو یقینی بنانے کی بات کی گئی ہے۔

ایس آئی ایف سی کی ویب سائٹ کے مطابق کونسل کا وژن پاکستان کی معاشی بحالی میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ یہ کونسل ملک میں غیر ملکی اور ملکی ذرائع سے سرمایہ کاری کے حجم کو نمایاں طور پر بڑھانا چاہتی ہے تاکہ ملک میں میکرو اکنامک استحکام کا حصول، سماجی و اقتصادی خوشحالی اور دنیا کی دیگر اقوام کے درمیان پاکستان کے صحیح قد کا دوبارہ حصول ممکن بنایا جا سکے۔

ایس آئی ایف سی کے تحت کن منصوبوں پر کام ہو رہا ہے؟

اس خصوصی کونسل کے تحت چولستان میں 50 ہزار ایکڑ رقبے پر گندم، کینولا، باجرہ اور کپاس کی کاشت کا پروگرام ہے۔ پرائم کی رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق اس مقصد کے لیے 37 ارب 55 کروڑ روپے کی رقم درکار ہوگی اور اس پروگرام کا مقصد ملک سے غذائی قلت کے خاتمے کو یقینی بنانا، ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا کرنا اور درآمدی بل کم کرنا شامل ہے۔

اسی طرح لائیو اسٹاک کے سیکٹر میں 20 ہزار جانوروں کی استعداد کے کارپوریٹ ڈیری فارم قائم کیے جانے ہیں جس پر72 ارب روپے کا خرچہ آئے گا۔ اس کے علاوہ کارپوریٹ فیڈلاٹ فارم کا قیام کرکے اس میں 30 ہزار جانور رکھے جائیں گے جو مقامی ضروریات کو پورا کرنے اور برآمد کرنے کے لیے15 ہزار ٹن گوشت سالانہ فراہم کرسکے گا۔ اس پروجیکٹ پر 58 ارب کے اخراجات آنے ہیں۔ اسی طرح کے الگ منصوبے میں 10 ہزار اونٹوں پر مشتمل کیمل فارم بھی قائم کیا جائے گا جس پر لاگت کا تخمینہ 37 ارب 70 کروڑ روپے ہے اور یہ سالانہ 20 لاکھ لیٹر دودھ کے ساتھ 450 ٹن گوشت بھی فراہم کرنے کا ذریعہ بنے گا۔

مزید برآں ملک کے ساتھ شہروں میں ٹیکنالوجی زونز کے قیام عمل میں لانے کا منصوبہ بھی ہے۔ راولپنڈی سے کراچی اور گوادر تک 75 ہزار کلومیٹر فائبر نیٹ ورک کا قیام اور متحدہ عرب امارات کے تعاون سے کلاؤڈ انفرااسٹرکچر کے لیےسرمایہ کاری کو راغب کیا جائے گا۔ ملک میں اسمارٹ فونز کی تیاری کے لیے75 ہزار افراد کو ٹریننگ دینے کا منصوبہ بھی ہے تاکہ اسمارٹ موبائل فونز تیار کرکے انہیں خلیجی ممالک، افریقہ اور وسطی ایشیاٗ کی مارکیٹوں میں فروخت کیا جاسکے۔

اسی طرح کان کنی کے میدان میں بلوچستان کے ضلع چاغی میں تانبے اور سونے کے ذخائر، خضدار میں سیسے اور جست (زنک) کی تلاش کے لیےلائسنس کے اجراٗ کے علاوہ تھرپارکر میں کول فیلڈ کی اپ گریڈیشن، گلگت بلتستان میں مختلف دھاتوں کے لیے کان کنی اور مائننگ مشینری کی اسمبلنگ کے لیےپلانٹس کا قیام بھی اس منصوبے کے مقاصد میں شامل ہے۔

توانائی کے شعبے میں حکومت اس کونسل کے ذریعے 1320 میگاواٹ کےکوئلے سے چلنے والا پاور پلانٹ، دریائے پونچھ پر 132 میگاواٹ کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹ، دیامیر بھاشا پراجیکٹ، پنجاب میں سولر پاور پراجیکٹس اور 500 کلو واٹ کے ڈبل سرکٹ ٹرانسمیشن لائن کے قیام کے منصوبے مکمل کرنا چاہتی ہے۔

ان منصوبوں کی تکمیل کے لیے حکومت بیرونی سرمایہ کاروں، ٹیکس مراعات، درآمدی اشیا پر ڈیوٹی میں نرمی، منافع باہر منتقل کرنے، اسپیشل اکنامک زونز میں کام کرنے والوں کو دس سال تک انکم ٹیکس چھوٹ سمیت تنازعات کے حل کے لیے مختلف ضمانتیں وغیرہ دینے کو تیار دکھائی دیتی ہے۔