وہ کٹھن راستے جہاں سے ایرانی خوردنی تیل، پٹرول اور دیگر سستا سامان پاکستان کے شہروں تک پہنچتا ہے

وہ کٹھن راستے جہاں سے ایرانی خوردنی تیل، پٹرول اور دیگر سستا سامان پاکستان کے شہروں تک پہنچتا ہے

’ہم بچے تھے تب سے سُن رہے ہیں کہ سمگلنگ بند ہو گی اور ایران کے ساتھ باقاعدہ طور پر تجارت شروع کی جائے گی۔ یا تو اسے مکمل طور پر بند کر دیں یا پھر کوئی ایسی پالیسی بنائیں کہ یہ کام غیرقانونی نہ رہے۔‘

یہ کہنا ہے کراچی کے یوسف گوٹھ بازار میں بیٹھے دکاندار نقیب اللہ کا۔

سمگلنگ کہیں یا غیر رسمی تجارت، سچ تو یہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں جگہ جگہ ایرانی سامان کی خرید و فروخت ہو رہی ہے۔ اور جو سامان ایک وقت میں صرف بلوچستان کے سرحدی علاقوں تک محدود تھا وہ اب پاکستان کے مختلف شہروں کے بازاروں میں سستے داموں دستیاب ہے۔ چاہے وہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کا اتوار بازار ہو یا پھر راولپنڈی کا ننکاری بازار یا باجوڑ پلازہ، یا پھر کراچی کا یوسف گوٹھ، اس وقت تھوک کے حساب سے یہ سامان ایران سے پاکستان پہنچ رہا ہے۔

لیکن ان تمام تر تفصیلات میں جانے سے پہلے ذرا یہ جان لیتے ہیں کہ کہانی دراصل ہے کیا۔

یہ کہانی دراصل دو ملکوں کے درمیان غیر رسمی تجارت کی ہے۔ ایران اور پاکستان کو اس وقت ایک دوسرے کی اشد ضرورت ہے۔ امریکی پابندیوں کی وجہ سے ایران کو برآمدات میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے اور ایسے میں پاکستان سے سرحد جڑنے کے نتیجے میں وہ وہاں سے سامان کے بدلے سامان دے اور لے سکتا ہے۔ جبکہ مہنگائی اور ڈالر کے بڑھتے ریٹ کو دیکھتے ہوئے پاکستان کا انحصار اس وقت ایرانی سامان پر بڑھ رہا ہے۔

اس رپورٹ میں ہم دو ایسی مصنوعات یعنی پٹرول اور خوردنی تیل کی ایران سے پاکستان آمد اور پھر بلوچستان کے سرحدی علاقوں سے اس کی پاکستان کے مختلف شہروں تک ترسیل کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں گے۔

بلوچستان کے سرحدی علاقے اور ایرانی پٹرول

ایرانی تیل

اس کہانی کی شروعات بلوچستان کے سرحدی علاقوں سے ہوتی ہے جہاں پر سڑکیں سرے سے موجود ہی نہیں ہیں، اور کچے راستوں کے ذریعے روزانہ ہزاروں کی تعداد میں ڈرائیور ایرانی سرحد تک پٹرول کےکنستر لاتے اور لے جاتے ہیں۔

اس سامان کی آمد و رفت کو کچھ لوگ سمگلنگ کا اور کچھ غیر رسمی معیشت کا نام دیتے ہیں۔ غیر رسمی معیشت کہنے کے پیچھے یہاں کے مقامی افراد یہ وجہ بتاتے ہیں کہ صدیوں سے بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں رہنے والوں کی کمائی کا دارومدار ایرانی سامان کی تجارت پر رہا ہے۔

ماشکیل تک دو راستوں سے پہنچا جاسکتا ہے۔ یا تو کوئٹہ سے دالبندین کے راستے یا پھر گوادر پہنچنے کے بعد پنجگور کے راستے۔ اور دونوں راستوں کو چننے میں ایک بات مشترکہ ہے کہ ماشکیل تک جانے کا تقریباً پانچ گھنٹے کا راستے انتہائی خستہ اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔

بلوچستان کے جنوبی علاقوں میں سفر کرنے کے دوران اکثر بتایا جاتا ہے کہ جہاں تک پکی سڑک بنی ہوئی ہو اس کا مطلب ہے کہ یہاں تک پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی رسائی ہے۔ اور اگر سڑک کچّی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہاں یا تو حکام نہیں ہیں یا پھرسرمچار (بلوچ عسکریت پسند) موجود ہیں۔

ماشکیل جانے والی اسی کچّی سڑک پر سمگلنگ کے تین مختلف راستے ہیں جن کے ذریعے پٹرول کے علاوہ انسانی سمگلنگ بھی ہوتی ہے۔ اسی راستے پر مقامی ڈرائیور خاصی مہارت سے روز گاڑی ایک کونے سے دوسرے کونے تک لے جاتے ہیں۔

اس راستے پر پہنچنے کے بعد مجھے تاکید کی گئی کہ ایک کچی سڑک کے برابر چلتے رہنا ہے۔ کیونکہ تھوڑا سا بھی بھٹکنے پر آپ پٹرول کی سمگلنگ کے ٹریک پر چلنے کے بجائے انسانی سمگلنگ کے ٹریک پر چلنے لگیں گی جس کے بعد سرحد پر پہنچنے پر ایرانی حکام فائرنگ بھی کر سکتے ہیں۔

ماشکیل کے لیے صبح سویرے نکلنے کے دو گھنٹے کے بعد تک راستے میں کوئی بھی نظر نہیں آیا۔ اس کے بعد روشنی ہونے پر یکے بعد دیگرے کئی نیلے رنگ کے پِک اپ ٹرک نظر آئے۔ ان گاڑیوں کو عام زبان میں ’زمباد‘ کہا جاتا ہے جبکہ ایران میں ’زمیاد‘ کہا جاتا ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ لگا کہ شاید پورے راستے کوئی دکھے گا ہی نہیں یہ وہ وقت تھا جب ہم سوچ رہے تھے کہ اگر اس راستے پر گاڑی کا پہیہ پھٹ گیا تو کیا کریں گے؟

تقریباً چار گھنٹے سفر کرنے کے بعد ہمیں ایک خیمہ نظر آیا۔ اور اس جگہ پہنچ کر کچھ زندگی کے آثار نظر آئے۔ یہ خیمہ دراصل کھانے پینے کے سٹاپ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ یہاں پر بڑے بڑے ٹرک اور گاڑیاں آ کر رکتی ہیں جہاں پر ان کو ایرانی بسکٹ اور چائے دی جاتی ہے۔

مجھے بتایا گیا کہ اس جگہ کو بلوچی میں ’دُریگ‘ کہتے ہیں جس کا مطلب مٹی کا ڈیرہ بتایا گیا۔ اور یہاں پر آس پاس صرف مٹی ہی تھی جس میں یہی بڑے بڑے ٹرک چائے پینے کے بعد جیسے غائب ہو جاتے تھے۔

ماشکیل کی معاشی حالت یہ ہے کہ اگر ایک روز ایرانی بارڈر بند ہو جائے تو مقامی افراد میں نوبت فاقوں کی آ جاتی ہے۔ پٹرول اور ڈیزل پہنچانے والوں کی ایک روز کی دیہاڑی ماری جاتی ہے اور دوسرے روز بارڈر کھلنے پر زیادہ پیسے کمانے کے لیے دباؤ بڑھ جاتا ہے۔

’کمائی کا کوئی متبادل ذریعہ نہیں ہے‘

ایرانی تیل

آگے آنے والے راستے پر میری ملاقات ان لوگوں سے ہوئی جن کی زندگی کا دارومدار ایرانی پٹرول پر ہے، جن میں ایک 24 سالہ زمباد ڈرائیور بھی تھے۔ ملتے ساتھ ہی انھوں نے بتایا کہ کیسے ان کا ہر دوسرے روز ماشکیل سے کوئٹہ جانا ہوتا ہے۔ ’آپ دیکھ سکتے ہیں یہاں یہ روڈ ہے۔ آج مجھے ساتواں دن ہے اس راستے پر، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ماشکیل میں کچھ بھی نہیں ہے۔ نہ فیکٹری ہے، نہ کمانے کا کوئی اور ذریعہ ہے۔ ہمارے لیے بس یہی کام ہے۔‘

اس ڈرائیور نے بتایا کہ کیسے اگر حکومت چاہے تو ’ماشکیل میں فیکٹری یا کوئی اور ملازمت کا ذریعہ بنا سکتی ہے۔ اور جب تک نہیں بنے گا تب تک اس کام کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے۔‘

اسی طرح ایک 19 سالہ زمباد ڈرائیور نے بتایا کہ وہ یہ کام مجبوری میں کر رہے ہیں۔ ’ہم غریب لوگ ہیں۔ ادھر روڈ بھی نہیں ہے، ادھر کچھ بھی نہیں ہے۔ آپ ایک گھنٹہ نہیں بیٹھ سکیں گے یہاں پر۔ یہاں نہ بجلی ہے، نہ پانی ہے اور نہ ہی کمانے کا کوئی اور طریقہ ہے۔ دن میں کبھی تین ہزار روپے اور کبھی 10000 روپے کما لیتے ہیں۔‘

ماشکیل کے بازار پہنچنے پر مجھے اس بات پر حیرانی ہوئی کہ اس بازار میں کھانے پینے کی اشیا سے زیادہ بڑی تعداد ایرانی پٹرول اور ڈیزل کے کنٹینرز کی تھی۔

اور اسی جگہ مجھے لوگوں سے بات کرنے میں مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

ایرانی پٹرول کا کاروبار کرنے والے تاجروں نے مکمل طور پر بات کرنے سے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ ان کا کاروبار بند ہو جائے گا۔

ماشکیل سے واپسی پر میں نے دیکھا کہ کیسے اس پوری پٹی پر حکام بمشکل ہی نظر آتے ہیں۔ اور اگر وہ کسی زمباد کو روک بھی لیں تو بغیر کاغذ چیک کیے آگے جانے دیتے ہیں۔ اس علاقے میں حکام باقاعدہ طور پر چیک پوسٹ لگا کر نہیں کھڑے ہوتے بلکہ سرکاری ویگو یا پِک اپ گاڑیوں میں بیٹھتے ہوتے ہیں اور باری باری ایرانی تیل لے جانے والے زمباد ان کے پاس سے یا تو گزر جاتے ہیں یا کسی کو وہ روک کر سلام دعا کر لیتے ہیں۔ شامتِ اعمال کہ اس وقت ہم لوگ بھی ویگو میں ہی تھے جس کی وجہ سے لوگوں نے ہم سے بات کرنے سے صاف انکار کر دیا۔

پٹرول پاکستان میں کیسے داخل ہوتا ہے؟

ایرانی تیل

ماشکیل سے ایرانی سرحد کم و بیش 20 کلومیٹر دور ہے۔ اس سرحد سے پٹرول اور ڈیزل تین طریقوں سے پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔

فرنٹ لائن پر پٹرول لے جانے والے ڈرائیورز آتے ہیں۔ یہ ڈرائیورز مقامی افراد اور سرحدی علاقوں کے ہی رہنے والے ہوتے ہیں، اور ان کی عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی کیونکہ راستے میں کئی مقامات پر میں نے کم عمر لڑکوں کو بھی زمباد چلاتے ہوئے دیکھا۔

دوسرے نمبر پر اس پٹرول کو جمع کرنے والے ڈپو آتے ہیں جہاں سے اس تیل کو مختلف مقامات تک پہنچایا جاتا ہے۔

اور پھر باری آتی ہے سرحدی علاقوں میں جگہ جگہ بنے پٹرول سٹیشنز کی جہاں پر یہ کم قیمت تیل بِکتا ہے۔

مثال کے طور پر ماشکیل سے واپسی پر دالبندین پر پٹرول کی منڈی آتی ہے جہاں پر سرحد سے آنے والا تمام تر تیل کنٹینرز میں رکھا جاتا ہے۔ جس کے بعد یہاں آنے والے ٹرک، پِک اپ اور بسوں کے ذریعے اسے آگے بھیجا جاتا ہے۔ آگے سے مراد کوئٹہ، حب اور کراچی۔ کراچی کے علاقے ناردرن بائی پاس، یوسف گوٹھ کے چند مقامات اور لیاری میں یہ پٹرول بکتا ہے۔

دالبندین کے اس ڈپو پر آنے والے پٹرول کی فلمنگ کرتے ہوئے ہماری ٹیم کو نہیں روکا گیا۔ اور اس ڈپو کے مالک نے بتایا کہ ’کیسے یہ کام چوری چھپےنہیں ہو رہا بلکہ تمام تر حکام کے سامنے سے ہوتا ہوا یہ تیل پاکستان کی حدود میں داخل ہوتا ہے۔‘

اب میں نے یہ سوچا کہ یہاں سے نکلتے ہوئے یہ پتا لگاؤں کہ ایرانی سرحد سے پٹرول ماشکیل تک تو آ جاتا ہے، لیکن یہاں سے پھر کہاں کہاں جاتا ہے۔

اقتصادی راہداری اور آمدنی کے محدود ذرائع

ایرانی تیل

فرنٹ لائن پر کام کرنے والے ڈرائیورز اور اس سستے تیل کی خرید و فروخت کرنے والے تاجروں سے بات کرنے کے لیے اب میں نے گوادر کا رُخ کیا۔

ماشکیل سے آنے والا تیل مختلف راستوں سے ہوتا ہوا گوادر پہنچتاہے۔ لیکن حیران کن طور پر معاشی اقتصادی راہداری سے منسوب ہونے کے باوجود گوادر کے رہائشی بھی اپنے لیے اسی تیل کو آمدنی کا واحد اور بنیادی ذریعہ سمجھتے ہیں۔

یہاں میری ملاقات پٹرول لے جانے والے ایک 27 سالہ ڈرائیور سے ہوئی جنھوں نے رینٹ اے کار کا کاروبار چھوڑ کر ایرانی سرحد سے تیل لانے اور لے جانے کا کام حال ہی میں شروع کیا ہے۔

’مہنگائی کا یہ حال ہے کہ کوئی بھی کام نہیں کر پارہے ہیں جس میں اچھے پیسے ملیں۔‘ یہ کہنا تھا اس ڈرائیور کا جنھوں نے اپنی شناخت چھپانے کو کہا۔ گوادر سے بھی جیونی کے راستے سرحد تک زمباد جاتے ہیں جس میں اگر کچھ ڈرائیور چاہیں تو اپنی ذاتی پِک اپ کو بھی تیل لانے لے جانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

میں نے اس گاڑی کے اندر بیٹھنے کا ارادہ کرتے ہوئے ان 27 سالہ شخص سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ انھوں نے تیل لانے اور لے جانے کا کام کیوں شروع کیا؟

’یہاں پر کسی اور کام میں پیسے نہیں ہیں۔ جہاں میں رینٹ اے کار چلا کر دن میں 3 ہزار روپے کماتا ہوں وہیں ایرانی تیل سے دن کے سات ہزار روپے کما لیتا ہوں۔ میں سے صرف دس جماعتیں پڑھی ہیں اور مجھے شروع سے پتا تھا کہ میں گاڑیوں کا کاروبار کروں گا۔‘

لیکن گھر والوں کی جانب سے بھی اس کام کو کرنے پر کوئی پابندی نہیں کیونکہ ان ڈرائیور نے بتایا کہ ان کے گھر والے علاقے کے معاشی حالات سے بخوبی واقف ہیں۔

’یہاں سرحد سے متصل علاقوں میں رہنے والے زیادہ تر لوگ ایران، عمان اور دیگر ممالک سے جڑے ہوتے ہیں۔ ایران کے صوبے سیستان و بلوچستان میں ہمارے رشتہ دار بھی ہیں۔ اس طرف کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوتا جبکہ ایران کی طرف خاصی ترقی ہے، پابندیوں کے باوجود کمائی کے ذرائع ہیں۔‘

’لیکن ان سب باتوں کے باوجود میں اپنے بھائیوں کو یہ کام نہیں کرنے دوں گا۔ کیونکہ یہ باقاعدہ مزدوری والا کام ہے۔ وہ چاہیں تو سرکاری ملازمت کر لیں۔‘

اس کے بعد میں ایک پٹرول سٹیشن پہنچی جہاں کے مالک کی کہانی بھی ان ڈرائیور سے زیادہ مختلف نہیں تھی۔

انھوں نے بتایا کہ ’میں نے بی اے کیا ہوا ہے۔ اور اس کے باوجود میں یہی کام کر رہا ہوں۔ میرا بھائی ابھی پڑھ رہا ہے اور ہم سب کو پتا ہے کہ گریجویشن کے بعد وہ بھی ایرانی پٹرول بیچنے کے کاروبار سے جُڑ جائے گا۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’پہلے اس کام میں منافع زیادہ تھا اور پیسے کم دینے پڑتے تھے۔ اب منافع بھی کم ہے اور پیسے زیادہ دینے پڑتے ہیں۔‘

جبکہ پٹرول سٹیشن کے مالک نے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ پٹرول لانے اور لے جانے میں انھیں گرفتاری کا خطرہ رہتا ہے۔

’تنگ تو کرتے ہیں۔ زیادہ تر ہمارے ناخدا کو کُنٹانی کے علاقے سے گوادر تک پٹرول اور ڈیزل لانے پر تنگ کیا جاتا ہے، اس سے پیسے مانگے جاتے ہیں۔ تو سسٹم ایسا ہے کہ اگر پیسوں کے ذریعے (معاملہ) حل ہوتا ہے تو وہیں حساب کر دیتے ہیں۔‘

کھانا پکانے کا ’نایاب‘ ایرانی تیل

ایرانی

اب یہ تو ایرانی پٹرول کی کہانی تھی۔ لیکن ایران سے بڑی تعداد میں کھانا پکانے کا تیل بھی سرحد کے راستے بلوچستان پہنچتا ہے۔ اور وہاں سے آگے لے جایا جاتا ہے۔

دو سال پہلے تک ایرانی سرحد سے آنے والا کھانا پکانے کا تیل گوادر کے ساحل پر کشتیوں کے ذریعے پیلےرنگ کے کنستروں میں پہنچایا جاتا تھا۔ لیکن حکام کی جانب سے سختیوں کے بعد اب اس کا متبادل راستہ تلاش کر لیا گیا ہے۔ گوادر سے ڈیڑھ سو کلومیٹر کے فاصلے پر کُنٹانی کا علاقہ آتا ہے۔ یہاں صبح سویرے سے لے کر شام تک پٹرول اور ڈیزل کے ساتھ ساتھ کشتیوں پر کھانا پکانے کا تیل بھی آتا ہے۔

گوادر پہنچنے کے بعد کھانا پکانے کے اس تیل کو پہلے سادہ تھیلے میں ڈالا جاتا تھا تاکہ کراچی اور یہاں تک کہ لاہور کے ریستوران میں یہ استعمال ہو سکے۔ لیکن اب اس تیل کو اپنی اصلی پیکجنگ کے ساتھ ہی کراچی، لاہور اور راولپنڈی بھیجا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایرانی تیل ’گلناز‘ اب سرحدی علاقوں سے ملک کے کونے کونے تک پہنچ جاتا ہے۔

جبکہ بلوچستان کا کوئی ایسا علاقہ نہیں ہے جہاں پر یہ تیل باآسانی دستیاب نہ ہو۔

کھانا پکانے کے اس تیل کا استعمال گوادر کی رہائیشی زیتون عبداللہ بھی کرتی ہیں۔

’میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے تب سے گھر میں ایرانی سامان ہی دیکھا ہے۔ ایک دور ایسا بھی تھا کہ کراچی میں مقیم رشتہ دار مجھ سے ایرانی پستے، آئل اور اچار منگواتے تھے۔ اور اب یہ دور ہے کہ یہ تمام تر سامان باآسانی کراچی میں مل جاتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’حال ہی میں، میں نے ٹی وی پر دیکھا کہ آٹے کی قیمتیں زیادہ ہونے پر اسلام آباد اور لاہور میں احتجاج ہو رہا تھا۔ لیکن ہم لوگ تو وہ بھی نہیں کر سکتے کیونکہ ہمارے پاس ایک ہی بارڈر اور ایک ہی مارکیٹ ہے اور اسی پر انحصار ہے۔ کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں کم از کم دیگر مارکیٹ ہیں جہاں پر سستا سامان مل سکتا ہے۔ ہمیں اسی سے کام چلانا ہے۔اسی مارکیٹ میں مزدور بھی آتا ہے اور امیر لوگ بھی۔ ہمیں اسی سے کام چلانا ہے، ہم بھوک سے مر نہیں سکتے۔‘

زیتون نے بتایا کہ کیسے کراچی اور لاہور میں ملنے کی وجہ سے یہ تیل اب ’نایاب‘ ہو گیا ہے۔ ’پہلے جہاں یہ تیل 60 یا 70 روپے تک کا مل جاتا تھا۔ وہیں اب اس کی قیمت 600 روپے تک پہنچ چکی ہے۔‘

اس کے ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ وہ اس سامان کو سمگلنگ کا نام نہیں دیں گی۔ ’براہِ راست کہہ بھی نہیں سکتی۔ سمگلنگ وہ ہی ہے جو چیز آپ چوری چھپے بھیج رہے ہوں۔ لیکن یہ تو حکام کو دیکھنا ہے اور ان کے علم میں ہے۔ یہ تو سرحدی علاقوں میں شروع سے آتا رہا ہے۔ اور اب جا کر پاکستان کے مختلف شہروں کو پتا چلا ہے کہ یہ کہاں سے آ رہا ہے۔ ہمارے گھر کے راشن کا واحد ذریعہ آپ کیسے ختم کر سکتے ہیں؟‘

کراچی کے ’بڑا روڈ‘ کا بڑا ایرانی سامان

ایرانی

گوادر سے ہوتا ہوا کھانا پکانے کا یہ تیل کراچی کے یوسف گوٹھ بس ٹرمنل پہنچتا ہے۔ اس ٹرمنل کے برابر ہی ’بڑا روڈ‘ نامی بازار ہے جہاں کی دکانوں پر یہ تیل بیچا جاتا ہے۔ یہاں ایک دکاندار نقیب اللہ نے بتایا کہ کیسے اس سامان کی قانونی حیثیت پر فیصلہ کرنا اب ضروری ہو چکا ہے۔

’ہم بچے تھے تب سے یہ بات چل رہی ہے کہ سمگلنگ بند ہو گی۔ پھر یہ شروع ہو جاتی ہے اور پھر سے لوگوں کی جیبیں بھرنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اگر بند کرنا ہے تو کر دیں تاکہ ہم کوئی اور کام شروع کریں۔ دنیا میں کوئی کام دھندا کم تو نہیں ہے۔ یا پورا ریلیف دیں یا بند کر دیں۔‘

تاہم انھوں نے کہا کہ یہ ہونا ممکن ہے۔ ’کیونکہ ایران پر پابندیوں کی وجہ سے اس کا دنیا بھر سے کاروبار چلتا ہی سمگلنگ کی بنیاد پر ہے۔‘

اب میرے ذہن میں یہ سوال آیا کہ اگر ایرانی سرحد سے سامان کراچی پہنچایا جاتا ہے تو کیا بدلے میں پاکستان سے بھی کوئی سامان ایران جاتا ہے؟

اس سوال کا جواب جاننے کے لیے میں نے کراچی کی مچھی میانی مارکیٹ کا رُخ کیا۔ مچھی میانی کراچی کی قدیم تجارتی بازاروں میں سے ایک ہے اور یہ بازار بھی برطانوی راج کے دوران اس علاقے کے ماہی گیروں کے لیے بنایا گیا تھا۔ یہاں میری ملاقات عاشق علی سے ہوئی۔ عاشق علی مصالحہ کا کاروبار کر رہے ہیں جس کی بنیاد آج سے پچاس سال پہلے ان کی والدہ نے رکھی تھی۔

’یہ مصالحہ کے پیکٹ دیکھ رہی ہیں آپ؟ یہ پورا پیکٹ ہم بناتے ہیں اور پھر یہ یہاں سے ایران جاتا ہے۔ وہاں اس کی بہت ڈیمانڈ ہے۔ پہلے میری والدہ یہاں بیٹھتی تھیں۔ پھر میرے والد اور بھائی نے کام سنبھالا اور اب ان سب کے جانے کے بعد اب میرے ذمے مصالحہ کا کام آیا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ یہاں پر ہر روز مختلف تاجر آ کر مصالحہ کی بوری لے جاتے ہیں جس میں کبھی 5 تو کبھی 10 کلو مصالحہ ہوتا ہے۔ اور پھر اسے پہلے تربت اور پھر مند کی سرحد سے ایران بھیج دیا جاتا ہے۔ ’یہاں آنے والوں میں ایرانی بلوچ زیادہ آتے ہیں۔ جو مصالحہ لے جاتے ہیں۔ یہی پاس میں پلنگ کی چادریں، چاول اور جینز کی پینٹ ملتی ہیں۔ وہ بھی کراچی سے ایران جاتی ہیں۔‘

کراچی کے صحافی سعید سربازی نے بتایا کہ آج بھی لیاری میں ایسے خاندان موجود ہیں جن کا ایران سے تجارتی اور خاندانی تعلق ہے۔ ’پاکستان میں بہت سے لوگ اس بات کو نہیں سجھتے لیکن یہ صدیوں پرانے رشتے ہیں جن کی پاسداری آج بھی کی جا رہی ہے۔ بلوچستان کی سرحد کے اس پار بھی بلوچ ہیں اور اس پار بھی اور وہ ایک دوسرے کے لیے مدد کا سامان پیدا کرتے رہتے ہیں۔‘

’غریب کو کیوں تنگ کرتے ہیں؟‘

ایرانی تیل

اس سفر پر میرا آخری سٹاپ راولپنڈی کا باجوڑ پلازہ بنا جہاں ایرانی سامان تھوک کے بھاؤ ملتا ہے۔ یہاں پر آتے ساتھ ہی مجھے کھانا پکانے کا تیل ملا جو اس سے پہلے میں گوادر اور کراچی میں دیکھ چکی تھی۔ یہاں پر آ کر پتا چلا کہ یہ ہول سیل کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے جہاں پر ایرانی کھانا پکانے کے تیل کے علاوہ چاکلیٹ اور ٹافیاں بھی ملتی ہیں۔ اسی طرح باجوڑ پلازہ کے نزدیک بنے ننکاری بازار اور پان گلی میں بھی ایرانی سامان ملتا ہے۔ یہ عام عوام کی مارکیٹ ہے جہاں پر لوگ ماہانہ 10 سے 12 ہزار روپے کی خریداری کر سکتے ہیں۔

باجوڑ پلازہ میں دکانداروں سے بات کرنے پر پتا چلا کہ ان کے مسائل بھی باقی شہروں کے عوام سے ملتے جلتے ہیں۔

ایک دکاندار نے بتایا کہ ’اکثر کسٹم والے تنگ کرتے ہیں۔ پچھلے دنوں بھی چھاپہ مار کر گئے ہیں۔ لیکن ان کا کام تو نہیں بنتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ چھاپے کے نتیجے میں جو دکاندار یہاں کام کرتے ہیں ان کی بھی دکان خراب ہوجاتی ہے۔ ’ہمارے پاس روز کسٹمرز آتے ہیں۔ خاص طور سے کشمیر کے علاقے ہو گئے یا ایبٹ آباد، مانسہرہ، پنجاب کے علاقوں تک یہ سامان جاتا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ان کے پاس زیادہ تر سامان میں شیمپو، برتن دھونے کا صابن، کیک، کوکنگ آئل، چاکلیٹ اور لسّی آتی ہے۔

’اگر انھیں بند کرنا ہے تو بارڈر سے بند کریں تاکہ مال بھی نہ آئے پھر غریبوں کو کیوں تنگ کرتے ہیں؟‘

سمگلنگ یا غیر رسمی تجارت؟

ایرانی تیل

اتفاق سے اسی رپورٹ کی فلمنگ کے دوران وزیرِ اعظم شہباز شریف اور ایرانی صدر سید ابراہیم رئیسی نے کیچ کی سرحد پر مند، پشین بارڈر مارکیٹ کا افتتاح کیا۔ مند پاکستانی بلوچستان کا حصہ ہے اور پشین ایرانی صوبے سیستان و بلوچستان کا۔ یہ خاصی حیران کن پیشرفت تھی کیونکہ اس سے پہلے اس پراجیکٹ پر 2009 میں بات کی گئی تھی جس کے بعد یہ پسِ منظر میں ہی رہا۔

حالیہ دنوں میں ایران اور سعودی عرب کے تعلقات میں بہتری آنا بھی قابلِ غور پیشرفت تھی۔ خاص طور سے جب خود پاکستان کے دفترِ خارجہ کے سابق ترجمان کہتے رہے ہیں کہ جب تک ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کشیدہ رہیں گے تب تک پاکستان ایرانی سرحد سے آنے والے سامان کو قانونی شکل نہیں دے سکے گا۔

اس وقت مکران ڈویژن کو 75 فیصد بجلی ایران سے ملتی ہے۔ وہاں کے مقامی افراد بتاتے ہیں کہ یہ آج یا کل کی بات نہیں بلکہ کافی عرصے سے نظر انداز ہوئے سرحدی علاقوں میں بجلی کی شدید کمی کی صورت میں ایرانی سپلائی پر انحصار رہاہے۔ تو اسے سبسڈائز کیوں نہیں کیا جاتا؟ یا کسی قانونی کھاتے میں کیوں نہیں لایا جاتا؟

رکن قومی اسمبلی اسلم بھوتانی نے ایرانی اشیا کی خرید و فروخت کو قانونی شکل دینے کے سوال پر یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ’میرے ووٹرز آپ کی رپورٹ دیکھیں گے۔ ایرانی سامان کے بارے میں ایک غلط جملہ میرے ووٹرز کو ناراض کر دے گا۔ اس لیے میں معذرت کرتا ہوں۔‘

اب سوال یہ بھی ہے کہ ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات استوار کرنے سے پاکستان کو کیا فائدہ ہو گا؟

گوادر کے چیمبرز آف کامرس کے سیکریٹری شمس الحق نے بتایا کہ کیسے پاکستان کے لیے ایران سے تجارت کرنا بہت بہتر ہے۔ ’میں کہتا ہوں کہ اسے چلتے رہنا چاہیے لیکن ایک پالیسی بنانی چاہیے۔ کیونکہ یہ بارڈر ٹریڈ کی مد میں آ جاتا ہے۔ یہاں پر ڈالر شامل نہیں، یہاں پر کیش دیا جاتا ہے۔ اور چیز کے بدلے چیز دے دیتے ہیں۔ یعنی اگر ہم ایران سے ایل پی جی لیتے ہیں تو بدلے میں ہم چاول، آم، ٹیکسٹائل کا سامان دیتے ہیں۔ یہ ہماری معیشت کے لیے بہت اچھا ہے کیونکہ بدلے میں چاول، کینو اور آم ایکسپورٹ ہو جائے گا۔ اور دیگر مصالحہ جات وہاں جاسکیں گے۔‘

گوادر میں مقیم تجزیہ کار ناصر رحیم سہرابی نے کہا کہ بلوچستان صرف ایک صوبہ نہیں بلکہ تاریخی طور پر ایک خطہ رہا ہے۔ ’اور اس کے بارے میں کیے جانے والے فیصلے خطے کی سیاست کو دیکھ کر کیے جانے چاہییں۔ جہاں قومی سیاست اور پالیسیاں سعودی عرب کو ترجیح دیتی رہی ہیں وہیں بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں برسوں سے ایرانی اثر و رسوخ رہا ہے۔ اور ایران اور سعودی عرب کے تعلقات میں بہتری اس ایک خوش آئند عمل ہو گا پاکستان کے سرحدی علاقوں کے لیے۔ کیونکہ اس سے یہاں کے عام عوام کے لیے کاروبار کے مواقع بڑھیں گے۔‘

بلوچستان کے سرحدی علاقوں کی بحالی کے لیے پہلے بھی کئی بار منصوبے شروع کیے جاچکے ہیں۔ تو وہ کیوں ناکام ہوئے؟

رکنِ بلوچستان اسمبلی ثنا اللہ بلوچ نے کہا کہ ’یہ سارے جھوٹے وعدے تھے۔ چاہے وہ پاکستان پیپلز پارٹی نے بلوچستان پیکج کے نام پر دیے۔ یا اس سے پہلے جنرل پرویز مشرف کے دور میں کیے گئے، یا پھر عمران خان کی حکومت میں جنوبی بلوچستان کے نام پر 360 ارب روپے کے پیکج کے نام پر کیے۔ ہم نے اس پر کہا کہ اس طرح کے فینسی اور جھوٹے پیکجز سے بلوچستان میں ترقی نہیں ہوگی۔‘

انھوں نے کہا کہ بلوچستان میں رہنے کے اخراجات بہت زیادہ ہیں۔ ’لیکن اگر آپ ٹیکس کا نظام ایسا بنائیں گے کہ آپ کہیں کہ وہ جو ٹیکس کا نظام میں نے اسلام آباد میں متعارف کروایا ہے اسی طرح کا ٹیکس یہاں پر لاگو کریں گے پھر سمگلنگ کو فروغ ملے گا۔‘

اس سوال پر کہ حکام اپنی مرضی اور پالیسی کے تحت بلوچستان میں جاری سمگلنگ کو نظر انداز کرتے رہتے ہیں اور سہولت ہونے پر اس کو سمگلنگ کہہ کر اس پر پابندی عائد کر دیتے ہیں، ثنا اللہ نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے۔ ’حکومت کی ناکامی ضرور ہے۔ لیکن اس کا حل یہ ہے کہ بلوچستان کے لیے آپ کو دو یا تین مختلف تجارتی راہداریاں بنانی پڑیں گی۔ یعنی ایران کے ساتھ ہمارا ٹریڈ کوریڈور ہو جس کے اندر آپ چنندہ لوگوں کے لیے ٹیکس کا نظام بنائیں، جس میں ویزا کا نظام بھی شامل ہونا چاہیے۔‘

حکومتیں پہلے بھی وعدے کرتی رہی ہیں اور اب بھی کر رہی ہیں۔ اس پورے سفر میں ایک بات تو واضح ہے کہ ایک مستقل ذریعہ معاش نہ ہونے اور بڑھتی مہنگائی کے نتیجے میں اس سامان کی طلب بڑھتی رہے گی اور لوگ متبادل راستوں کا انتخاب کرتے رہیں گے۔

سحر بلوچ عہدہ, بی بی سی اُردو ڈاٹ کام، ماشکیل