ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا کیوں سنائی گئی اور اس فیصلے کو ’عدالتی قتل‘ کیوں قرار دیا جاتا ہے؟

ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا کیوں سنائی گئی اور اس فیصلے کو ’عدالتی قتل‘ کیوں قرار دیا جاتا ہے؟

میں نے کہا ذوالفقار علی بھٹو وَلد شاہ نواز بھٹو، سکنہ المرتضیٰ، لاڑکانہ۔‘

’کیہ جناب (کیا جناب)؟ حیرت سے یہ کہتے ہوئے (لاہور کے) اچھرہ تھانے کے ایس ایچ او انسپیکٹر عبدالحئی کے ہاتھ سے قلم گر گیا۔‘

سنہ 1974 میں 10 اور 11 نومبر کی رات کے آخری پہر ہونے والے اس مکالمے کے راوی اور تب قومی اسمبلی کے رکن اور تحریک استقلال کے سیکرٹری اطلاعات احمد رضا قصوری کے مطابق انھوں نے اپنا کہا دہرا دیا۔

احمد رضا قصوری، ان کی والدہ اور خالہ چند گھنٹے پہلے ہوئے اس حملے میں بچ گئے تھے جس میں ان کے والد شدید زخمی ہوئے تھے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا انھیں کسی پر شک ہے تو انھوں نے ذوالفقار علی بھٹو کا نام لیا۔

گزشتہ سال ایک یوٹیوب چینل ٹی سی ایم کو انٹرویو میں احمد رضا قصوری نے بتایا کہ وہ ابھی پولیس سے یہی لکھوانے کی کوشش کر رہے تھے کہ لاہور کے یونائیٹڈ کرسچین ہسپتال کے سرجن نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انھیں بتایا کہ ان کے والد نواب محمد احمد خان اب اس دنیا میں نہیں رہے۔

احمد رضا قصوری نے اس حملے کا ہدف خود کو قرار دیتے ہوئے پولیس کے سامنے اپنے بیان میں الزام ذوالفقار علی بھٹو پر دھرا تھا۔

نواب محمد احمد خان قصوری
،تصویر کا کیپشننواب محمد احمد خان قصوری

ذوالفقار علی بھٹو کون تھے؟

سندھ کے سیاستدان سر شاہنواز بھٹو کے ہاں پانچ جنوری 1928 کو پیدا ہونے والے ذوالفقار علی بھٹو نے بمبئی میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد برکلے اور آکسفورڈ یونیورسٹیوں سے پولیٹیکل سائنس کی اعلیٰ تعلیم کے بعد لنکنز ان سے وکالت پاس کی۔ 1953 میں کراچی واپس آئے اور قانون پڑھانے کے ساتھ ساتھ کچھ عرصہ وکالت بھی کی۔

1957 اور 1958 میں ذوالفقار علی بھٹو نے سرکاری وفود میں اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ اسی سال جنرل محمد ایوب خان نے 27 اکتوبر کو مارشل لا لگایا تو اس 30 سالہ نوجوان وکیل کو اپنا وزیر تجارت بنایا۔

بعد میں چھ سات وزارتیں ان کے پاس رہیں۔ 24 جنوری 1963 کو ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے وزیر خارجہ بنے لیکن 17 جون 1966 کو ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کی راہیں جدا ہو گئیں۔

30 نومبر 1967 کو اپنی نئی سیاسی پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی، کے قیام کے صرف تین سال بعد 1970 کے انتخابات میں موجودہ (یا مغربی) پاکستان میں کل 138 میں سے 81 نشستیں حاصل کیں اور خود پانچ حلقوں سے منتخب ہوئے۔

مشرقی پاکستان کی عوامی لیگ نے کل 300 میں سے 160 سیٹیں جیتی تھیں اور حکومت بنانے کی حق دار تھی لیکن ایسا نہ ہوسکا اور دسمبر 1971 میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کے نام سے علیحدہ ملک بن گیا۔

20 دسمبر 1971 کو جنرل یحییٰ خان، جو 1969 میں ایوب خان کے بعد برسراقتدار آئے، نے آئین کی عدم موجودگی میں بطور صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اپنے اختیارات ذوالفقار علی بھٹو کے سپرد کر دیے۔

20 اپریل 1972 کو عبوری آئین کے نفاذ کے ساتھ یہ مارشل لا ختم ہوا اور ذوالفقار علی بھٹو نے 21 اپریل 1972 کو دوسری مرتبہ صدر پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھایا۔

پاکستان

14 اگست 1973 کو پاکستان کا پہلا متفقہ آئین نافذ ہوا تو بھٹو نے پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم کے عہدہ کا حلف اٹھایا۔ لاہور کے تھانیدار کے ہاتھ سے قلم گرنے کی وجہ بھی یہی تھی کہ وہ تب وزیرِ اعظم تھے۔

بہر حال احمد رضا قصوری کے مطابق انھوں نے فرد بیان کے ذریعے بھٹو کو اپنے والد کے قتل میں نامزد کر دیا اور اسی کی بنیاد پر ایف آئی آر درج ہوئی۔

اس وقت کے پنجاب پولیس کے سربراہ راؤ عبدالرشید کے مطابق احمد رضا قصوری کی طرف سے قتل کی ایف آئی آر میں بھٹو کا نام شامل کرنے کا مطالبہ انھوں نے تسلیم کیا۔

ان کے مطابق ’اگر یہ کوئی سازش ہوتی اور بھٹو نے کی ہوتی تو کیا ہم احمد رضا قصوری سے کہتے کہ جو چاہو ایف آئی آر دے دو۔‘

احمد رضا قصوری نے بھٹو پر الزام کیوں لگایا؟

سنہ 1966 میں جب بھٹو ایوب خان کی کابینہ سے مستعفی ہو کر ٹرین سے واپس لاڑکانہ جاتے ہوئے لاہور آئے تو ان کا استقبال کرنے والوں میں قصوری نمایاں تھے۔

قصوری کہتے ہیں کہ لاہور ریلوے سٹیشن ہی پر بھٹو کے سیلون میں ان سے ملاقات ہوئی اور دوستی کا آغاز ہوا۔ پھر بھٹو کو قصور آنے کی دعوت دی گئی۔

احمد رضا قصوری کا کہنا ہے کہ ’پہلے میں انھیں بابا بلھے شاہ کے مزار پر لے گیا جہاں دستار بندی ہوئی۔ حویلی کی جانب واپسی کے دوران میں نے بھٹو سے پوچھا کہ کیا وہ ان بزرگ کے بارے میں جانتے ہیں جن کے مزار پر میں انھیں لے کر گیا تھا۔‘

’بھٹو نے جواب دیا: بہت کم۔‘

’میں نے کہا یہ پنجاب کے بہت بڑے انقلابی تھے۔ تین سو سال انھوں نے سٹیٹس کو توڑا، ان کا کلام بہت پاورفل ہے۔ انھوں نے ایک نعرہ بلند کیا تھا کہ منگ اوے بندیا اللہ کو لوں جُلی، گُلی، کُلی۔‘

’بھٹو نے پوچھا اس کا کیا مطلب ہے؟ میں نے کہا: جلی ہے کپڑا، گلی روٹی ہے اور کلی مکان۔‘

’بھٹو نے کہا کیوں نہ ہم اسے اپنے منشور کا حصہ بنا لیں۔ تو یہ نعرہ قصور سے لیا گیا۔ حضرت بابا بلھے شاہ سے۔ روٹی، کپڑا اور مکان۔‘

پھر پیپلز پارٹی کے باقاعدہ قیام سے تین دن پہلے قصور میں ان ہی کی رہائش گاہ پر بھٹو نے اعلان کیا کہ وہ ایسا کرنے جا رہے ہیں۔ دسمبر 1970 میں احمد رضا قصوری پاکستان پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر قصور سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے۔

پاکستان
،تصویر کا کیپشناحمد رضا قصوری نے حملے کا ہدف خود کو قرار دیتے ہوئے پولیس کے سامنے اپنے بیان میں الزام ذوالفقار علی بھٹو پر دھرا تھا

مگر انتخابات کے کچھ عرصہ بعد پارٹی کے چیئرمین سے ان کے اختلافات کا آغاز بھٹو کے اس اعلان سے ہوا کہ وہ تین مارچ 1971 کو ڈھاکا میں بلائے جانے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے نہ ہی کسی اور رکنِ اسمبلی کو ایسا کرنے دیں گے۔ بعض اخباروں نے لکھا کہ ایسا کرنے والوں کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔

احمد رضا قصوری اس اجلاس میں شرکت کے لیے ڈھاکا پہنچ گئے لیکن یہ اجلاس منعقد نہیں ہوا۔ یہیں سے بھٹو اور قصوری کے درمیان فاصلے بڑھنے شروع ہو گئے۔

عقیل عباس جعفری کی تحقیق ہے کہ جب قصوری واپس آئے تو بھٹو نے پارٹی پالیسی سے اختلاف کرنے پر قصوری سے قومی اسمبلی کی نشست سے استعفا طلب کر لیا مگر قصوری نے انکار کر دیا۔

ان کا دعویٰ تھا کہ انھوں نے یہ نشست پیپلز پارٹی کی بدولت نہیں بلکہ اپنی مقبولیت کی بنیاد پر جیتی ہے۔

’بھٹو نے معراج خالد، حنیف رامے اور یعقوب خان کے الزامات کی روشنی میں احمد رضا قصوری کو پارٹی رکنیت سے معطل کر دیا۔ اگلے دن قصوری نے لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بھٹو کو پیپلز پارٹی کی چیئرمین شپ سے برطرف کرنے کا اعلان کر دیا۔‘

’چھ جون 1971 کو پیپلز پارٹی کی مجلس عاملہ نے قصوری کو باضابطہ طور پر پارٹی کی رکنیت سے خارج کر دیا اور یوں بھٹو اور قصوری کے درمیان اختلافات کی خلیج مزید گہری ہو گئی۔‘

’بھٹو، میں تمھیں چھوڑوں گا نہیں‘

1972 میں جب قومی اسمبلی کے اجلاس شروع ہوئے تو احمد رضا قصوری نے پی پی پی کے حوالے سے جیتی نشست چھوڑے بغیر تحریک استقلال میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔

1973 کا آئین منظوری کے لیے ایوان میں پیش ہوا تو قصوری ان تین افراد میں شامل تھے جنھوں نے اس پر دستخط نہیں کیے۔ اسمبلی میں قصوری کی بھٹو اور پیپلز پارٹی کے خلاف تقاریر جاری رہیں۔

چار جون 1974 کو بھٹو نے قومی اسمبلی میں تقریر کر تے ہوئے کہا کہ ’آئین پر حزب اختلاف کا شور اور واویلا بلاجواز ہے کیونکہ حزب اختلاف کے تمام ارکان نے آئین پر دستخط کیے ہیں اور یہ ایک متفقہ آئین ہے۔‘

اس پر قصوری نے سپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’رتو ڈیرو سے آنے والے فاضل مقرر غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ میں نے آئین پر دستخط نہیں کیے۔ اس کے حق میں ووٹ نہیں دیا۔ پھر یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ آئین پر سب نے دستخط کیے ہیں اور یہ متفقہ آئین ہے؟‘

اس مداخلت اور ان ریمارکس پر بھٹو طیش میں آ گئے اور انھوں نے قصوری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چلاتے ہوئے کہا کہ ’میں نے اس شخص کو بہت برداشت کر لیا ہے۔ یہ مجسم زہر قاتل ہے۔ اب ہم اس کو قطعی برداشت نہیں کریں گے۔‘

پاکستان

قومی اسمبلی میں بھٹو کی اس تقریر کے کوئی پانچ ماہ بعد 11 نومبر 1974 کا واقعہ پیش آ گیا۔

اگلے روز یعنی 12 نومبر کو انگریزی روزنامہ ڈان کی خبر تھی کہ ’تحریک استقلال کے سربراہ اصغر خان نے لاہور میں (سیاست دان اور انسانی حقوق کے وکیل) میاں محمود علی قصوری کی رہائش گاہ پر ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ قاتلوں نے احمد رضا قصوری کو ہلاک کرنے کی کوشش کی تھی اور اس سے پہلے بھی ان پر تین بار حملہ ہو چکا ہے۔ انھوں نے افسوس ظاہر کیا کہ اب تک 24 سیاسی لیڈروں اور کارکنوں کو قتل کیا جا چکا ہے جن کے قاتلوں کا سراغ نہیں ملا۔‘

’محمود علی قصوری نے حکومت پر الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ اب تک قومی اسمبلی کے رکن ڈاکٹر نذیر احمد، خان عبدالصمد اچکزئی، مولانا شمس الدین، خواجہ محمد رفیق اور دوسرے (سیاسی رہنما) قاتلوں کی گولیوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ سیاسی قتل کا سلسلہ بند کیا جائے۔‘

قصوری اپنے والد کے قتل کے نو دن بعد 20 نومبر 1974 کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں سرخ رنگ کے سیال کی ایک بوتل سمیت آئے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ اس بوتل میں ان کے والد کا خون ہے۔ وہ ایک خون آلود قمیض بھی ساتھ لے کر آئے اور اعلان کیا کہ حکومت کے ارکان پارلیمنٹ پر قاتلانہ حملوں کو بے نقاب کیا جائے گا۔

ٹی سی ایم کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں قصوری نے بتایا کہ انھوں نے اسمبلی میں کہا تھا کہ ’بھٹو، میں تمھیں چھوڑوں گا نہیں، کیفرِ کردار تک پہنچاؤں گا۔‘

پنجاب کے وزیر اعلیٰ حنیف رامے نے اس سے پہلے لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے مشورے سے جسٹس شفیع الرحمٰن کو نواب محمد احمد خان کے قتل کے واقعے کی تحقیقات پر مامور کیا تھا۔ اس ٹربیونل نے 26 فروری 1975 کو اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کر دی لیکن حکومت نے وہ رپورٹ منظر عام پر نہیں آنے دی اور اکتوبر 1975 میں ہی مقدمے کو قاتلوں کا سراغ نہ ملنے پر داخل دفتر کر دیا گیا۔

پاکستان
،تصویر کا کیپشنوہ گاڑی جس پر حملہ آوروں نے فائرنگ کی تھی

احمد رضا قصوری کی پیپلز پارٹی میں واپسی

عقیل عباس جعفری لکھتے ہیں کہ ’احمد رضا قصوری نے ٹربیونل میں بیان حلفی میں تسلیم کیا کہ یہ ضروری نہیں کہ حملہ وزیراعظم کے ساتھ ان کی دشمنی کے نتیجے میں ہی ہوا ہو۔‘

’جونہی ٹربیونل کی رپورٹ مکمل ہوئی، قصوری نے وزیراعظم سے ملاقات کے لیے کوششیں شروع کر دیں۔ انھیں علم تھا کہ قصور پیپلزپارٹی کا مضبوط گڑھ ہے اور وہ پیپلزپارٹی کی مدد کے بغیر انتخابات میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ بھٹو نے ان سے ملنے سے انکار کر دیا۔‘

’قصوری نے وزیراعظم کو رقت آمیز خطوط لکھے۔ وزیراعظم نے آخر کار قصوری کو پارٹی کی صفوں واپس لینے پر رضامندی کا اظہار کر دیا۔‘

’چھ اپریل 1976 کو انھوں نے بیگم نصرت بھٹو سے ملاقات میں ان سے درخواست کی کہ وہ پارٹی میں ان کی واپسی کے موقعے پر اپنی موجودگی سے عزت بخشیں۔‘

’اگلے دن انھوں نے اپنی ماڈل ٹاؤن لاہور کی قیام گاہ پر کارکنوں کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی میں اپنی دوبارہ شمولیت کے فیصلے کا اعلان کر دیا۔‘

’اس استقبالیے میں انھوں نے وزیراعظم کی بے حد تعریف کی۔ ان کی والدہ (بیگم نواب محمد احمد خان قصوری) نے سر عام اعلان کیا کہ وہ وزیراعظم پر اپنے تمام بیٹے قربان کر دیں گی کیونکہ وزیراعظم بھٹو کے بغیر پاکستان باقی نہیں رہے گا۔‘

قصوری نے جنوری 1977 میں قومی اسمبلی میں وزیراعظم کی زرعی اصلاحات کی بھی تعریف کی۔

بہرحال مارچ 1977 کے انتخابات کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی نے احمد رضا قصوری کو ٹکٹ نہیں دیا۔ پارٹی کے پارلیمانی بورڈ نے ان کو ’متلون مزاج‘ قرار دیا۔

بھٹو کو کس مقدمے میں سزا ہوئی؟

پانچ جولائی1977 کو جنرل ضیا الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔

احمد رضا قصوری کے مطابق انھوں نے لگ بھگ ایک ہفتے بعد لاہور کے سیشن جج کی عدالت میں نواب محمد احمد قصوری کے قتل کا استغاثہ دائر کر دیا۔

’کچھ دنوں بعد میں نے ہائیکورٹ میں درخواست دی کہ ملزمان طاقتور ہیں اس لیے عدالت اپنی اوریجنل کریمینل جوریسڈکشن میں اس مقدمے کو اپنے پاس ٹرانسفر کر لے۔‘

’ہائیکورٹ نے ساتھ ایف آئی آر لگی دیکھ کر ایڈووکیٹ جنرل کو بلایا۔ ان کی بجائے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل راشد عزیز خان پیش ہوئے جنھوں نے اپنے کلائنٹ، پنجاب حکومت، سے رہنمائی لینے کے لیے 15 دن کی مہلت مانگی۔ 15 دن بعد انھوں نے عدالت کو بتایا کہ ہم کیس لے کر آ رہے ہیں۔ تو ہم نے اپنا استغاثہ اس میں ضم کر دیا۔‘

ذوالفقار علی بھٹو کو 3 ستمبر1977کو پہلی مرتبہ تعزیرات ِپاکستان کے تحت ’قتل کی سازش‘ کے الزام میں گرفتار کیا گیا لیکن 10 روز بعد ان کی ضمانت ہو گئی۔

لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس کے ایم صمدانی نے 13 ستمبر کو ثبوتوں کو ’متضاد اور نامکمل‘ قرار دیتے ہوئے بھٹو کی درخواست ضمانت منظور کی۔

17 ستمبر کو نواب محمد احمد قصوری کے قتل میں انھیں پھر گرفتار کیا گیا مگر اس بار مارشل لا قوانین کے تحت اور پھر ایک ماہ بعد بھٹو کے ٹرائل کا آغاز کیا گیا۔

پاکستان

بھٹو کو سزا سنانے والے جج کون تھے اور کیسے متنازع بنے؟

صحافی سید صفدر گردیزی کی تحقیق ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کے اس وقت کے قائم مقام چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین نے اپنی سربراہی میں جسٹس ذکی الدین پال، جسٹس ایم ایس ایچ قریشی، جسٹس آفتاب حسین اور جسٹس گل باز خان پر مشتمل پانچ رکنی بینچ تشکیل دیا اور بھٹو کو ضمانت پر رہا کرنے والے جسٹس صمدانی کو بینچ سے باہر رکھا گیا۔

ماہر قانون حامد خان ایڈووکیٹ اپنی کتاب ’پاکستان کی آئینی و سیاسی تاریخ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’مولوی مشتاق نے بینچ کا انتخاب بہت احتیاط سے کیا۔ ذکی الدین پال بھٹو کے سخت مخالف تھے۔ آفتاب حسین مولوی مشتاق کے منظور نظر تھے اور انھوں نے ان ہی کے مطابق چلنا تھا۔ باقی دو ججز اختلافی فیصلے نہ لکھنے کی وجہ سے مشہور تھے۔‘

’مولوی مشتاق کا بھٹو سے ذاتی عناد اور نفرت ڈھکی چھپی نہ تھی۔ ان کے دور میں لاہور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بننے کی جنون کی حد تک خواہش میں انھوں نے سپریم کورٹ کا جج بننا بھی قبول نہ کیا۔ بھٹو کی حکومت نے ان سے آٹھ سال جونیئر جسٹس اسلم ریاض کو چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ بنایا۔‘

انھوں نے استعفا نہ دیا مگر بھٹو کے خلاف دل میں مستقل عناد پال لیا۔ ضیا الحق نے اس ذاتی رنجش کا فائدہ اٹھانے کے لیے انھیں قائم مقام چیف جسٹس بنایا۔ بھٹو ان کی نفرت سے واقف تھے اس لیے انھوں نے ٹرائل کورٹ کا بائیکاٹ کر دیا۔ مقدمے کی منتقلی کی ان کی درخواست کو بھی مولوی مشتاق نے اپنے چیمبر میں سماعت کے بعد مسترد کر دیا۔

فیڈرل سکیورٹی فورس کے دیگر چار اہلکاروں کا ٹرائل بھی اسی مقدمے میں ہو رہا تھا۔ ابتدا میں کورٹ کی کارروائی عام لوگوں کے لیے کھلی تھی مگر 25 جنوری 1978 کے بعد اسے خفیہ قرار دے دیا گیا۔

18 مارچ 1978 کو ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں تمام ملزمان کو مجرمانہ سازش اور قتل کے الزام میں سزائے موت سنا دی۔