وارث شاہ جنھوں نے ہیر کو ہیرو اور کیدو کو ’اسٹیبلشمنٹ‘ بنا دیا

وارث شاہ جنھوں نے ہیر کو ہیرو اور کیدو کو ’اسٹیبلشمنٹ‘ بنا دیا

بودی سائیں اور ویر سپاہی برگد کے درخت تلے دھونی رمائے بیٹھے ہیں۔ برگد کے اس شفیق بوڑھے درخت پر پرندوں کی چہچہاہٹ، جلترنگ سُنا رہی ہے۔ وارث شاہ کی ہیر کو سُروں میں پرونا اور شعر کہنا ان دونوں کا چار دہائیوں سے فریضہ ہے۔ سننے والوں کا تانتا بندھ جانا بھی معمول ہے۔

وارث شاہ کا مزار لاہور کے قریب جنڈیالہ شیرخان کے مقام پر واقع ہے، جہاں زائرین جوق در جوق آتے ہیں۔ بودی سائیں اور ویر سپاہی جیسے کچھ فقیر منش ایسے بھی ہیں کہ جنھوں نے وارث شاہ کے لیے زندگی وقف کر رکھی ہے۔

وہ روز یہاں ہیر گاتے ہیں، شعر لکھتے اور سناتے ہیں۔ ویر سپاہی حال ہی میں پولیس کے محکمے سے بطور انسپکٹر ریٹائر ہوئے ہیں۔ اب ان کا مستقل ٹھکانہ وارث شاہ کے مزار کے احاطے میں موجود برگد کا یہی بوڑھا درخت ہے۔

Waris Shah Tomb

ویر سپاہی نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ گذشتہ چار دہائیوں سے زائد عرصے سے یہیں مقیم ہیں۔ دوران ملازمت وہ ہیر کی ترویج بھی کرتے رہے اور شاعری بھی، وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

وارث شاہ کے مزار پر ہونے والے سالانہ عرس میں ہیر کے دیوانے رکاوٹیں عبور کر کے اور سرحدیں پھلانگ کر دوسرے ممالک سے بھی یہاں چلے آتے ہیں اور ہیر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔

ویر سپاہی ہر چودھویں کی چاندنی رات کو وارث شاہ کے مزار کے احاطے میں خاص محفل مشاعرہ سجاتے ہیں۔

ویر سپاہی کہتے ہیں کہ وارث شاہ کے بعد بھی ہیر رانجھے کی داستان کو بیان کرنے کا سلسلہ جاری رہا لیکن کوئی بھی ہیر، وارث شاہ کی ہیر کو نہیں پہنچ سکی۔

وہ کہتے ہیں ’وارث شاہ کو اپنے استاد سے ملی سند کے بعد کسی تنقید، توصیف اور پذیرائی کی ضرورت نہیں۔ بُلھے شاہ اور وارث شاہ کے استاد ایک ہی تھے۔ جب استاد حضرت غلام مرتضٰی کو ’ہیر رانجھا‘ کے متعلق علم ہوا تو انھوں نے ناراضی کا اظہار کیا اور کہا ’بُلھے شاہ نے علم حاصل کرنے کے بعد سارنگی بجائی اور تم نے ہیر لکھ دی۔‘

’آپ نے کوئی جواب نہ دیا تو استاد نے انھیں حجرے میں بند کروا دیا۔ دوسرے دن وارث شاہ کو حجرے سے بلوایا اور قصہ سنانے کا حکم دیا۔ قصہ سننے کے بعد فرمایا کہ ’وارثا! تم نے تو تمام جواہرات مونج کی رسی میں پرو دیے ہیں‘۔‘

مزار جھنگ

’ہیر کا مزار ہیر کے قصوں میں نہیں مگر جھنگ میں موجود ہے‘

کسی قصے میں ہیر کے مقبرے کا ذکر ہو نہ ہو مگر پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر جھنگ میں دریائے چناب کے کنارے ہیر رانجھے کا مزار نہ صرف موجود ہے بلکہ یہاں آج بھی عاشقوں کی بھیڑ لگی رہتی ہے۔

مقامی آبادی کا ماننا ہے کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں ہیر رانجھا محبت کے دشمنوں کے چُنگل میں پھنسے تو زمین پھٹ گئی اور وہ دونوں زمین میں اتر گئے۔

ہیر کے دوپٹے کا ایک حصہ زمین سے باہر رہ گیا، جو اس وقت کے حکمران بہلول لودھی کو خواب میں بھی نظر آیا۔ جب اس کی کشتی چناب کے اس مقام سے آگے نہیں بڑھی تو وہ اشارہ سمجھ گیا، پھر اس نے وہیں ہیر کا مزار تعمیر کروایا تھا۔

Heer

من کی مرادیں پانے کے لیے ہیر کے مزار پر چڑھاوے

’ہم من کی مرادیں پانے کے لیے یہاں آتے ہیں اور منت کے دھاگے باندھتے ہیں۔۔۔‘

’یہاں پسند کی شادی کے لیے چوڑیاں چڑھائی جاتی ہیں۔ جھولے اولاد نرینہ کے لیے اور رنگا رنگ دھاگے مختلف خواہشات کے امین ہوتے ہیں اور جب منت پوری ہو جاتی ہے تو مراد پانے والے دوبارہ یہاں کا رخ کرتے اور چڑھاوا چڑھاتے ہیں۔‘

مذکورہ باتیں جھنگ میں واقع ہیر کے مزار پر آئے کچھ نوبیاہتے جوڑوں نے بی بی سی سے ہیر کے مزار سے متعلق کی ہیں۔

یہاں آنے والی اکثر خواتین ہیر سے متعلق کیمرے پر آنے اور اپنی شناخت ظاہر کرنے کے بارے میں محتاط ہیں۔ اسی وجہ سے یہاں ان کی شناخت ظاہر نہیں کی جا رہی ہے۔

Heer

ہما (فرضی نام) نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ کہانی گھروں میں سنائی جاتی ہے کہ ہیر رانجھا ایک دوسرے کے ساتھ بہت مخلص تھے۔ کچھ والدین بچوں کو یہ کہانی سنانا پسند نہیں کرتے تو وہ پھر اِدھر اُدھر سے سن کر یہاں آ جاتے ہیں۔ تاہم میرے والدین مجھے اس لیے یہ قصہ سناتے ہیں کہ ہم اس واقعے سے کچھ سیکھ سکھیں۔‘

تحریم (فرضی نام) کا کہنا ہے کہ ’ہیر سیال اور دھیدو رانجھے کا عشق اتنا سچا تھا کہ ہم بھی یہاں سے مرادیں پاتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں ان کا عشق مجازی نہیں حقیقی تھا۔‘

جھنگ کی تحصیل شورکوٹ سے آئی روینہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہیر جھنگ کے بڑے نواب خاندان سے تعلق رکھتی تھی اور رانجھا تخت ہزارے کے عام گھرانے سے یہاں آیا تھا، سماجی تفریق نے ان کے لیے مشکلات پیدا کیں۔‘

ان کے مطابق کچھ خاندانوں میں اب بھی ذات پات بڑا مسئلہ ہے اور سماجی فرق آج بھی اتنا ہی اہم سمجھا جاتا ہے۔ روینہ کی رائے میں ’تعلیم اور آگاہی کے باوجود محبت کرنے والوں کے لیے مشکلات آج بھی جُوں کی تُوں ہیں۔‘

اب کچھ دیر کے لیے ان پیار کرنے والوں کو ہیر کے مزار پر ہی چھوڑ کر یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ داستان ہے کیا؟

Heer

ہیر کون تھی اور اس قصے کا آغاز کیسے ہوا؟

ہیر سے متعلق زبانی قصے بھلے زمانوں سے سنائے جاتے رہے ہیں مگر اس قصے کو پہلے پہل پنجابی میں نظم کی صورت منظوم کرنے والے پنجابی شاعر دمودر داس اروڑا (گولاٹی) تھے۔

امریکا میں مقیم پنجابی ادب کے ماہر منظور اعجاز کا کہنا ہے کہ دمودر داس (1568-1486) کی منظر نگاری بہت شاندار ہے جیسے وہ کسی فلم کا سکرپٹ ہو۔

دمودر اپنا قصہ محلے کی لڑکی ہیر سے شروع کرتے ہیں، جو بچپن میں ان کی دکان سے سوداسلف خریدنے آتی تھی۔ پھر وہ 12 برس کی عمر میں تخت ہزارہ کے رانجھے کے عشق میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ مگر ذات اور سماجی حیثیت میں فرق ان کی محبت میں بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے۔ چچا کیدو کی مدد سے ہیر کی شادی رنگ پور کے سیدے کھیڑے سے کرا دی جاتی ہے۔ یہاں سے کہانی ایک نیا رُخ اختیار کرتی ہے۔ ہیر رانجھا ایک دوسرے کو پانے کے لیے نئے راستے تلاشتے ہیں۔

دمودر کے قصے میں ہیر جھنگ کے سیال خاندان کی بیٹی تھی، جو اپنے ملازم رانجھے سے پیار کرتی ہے مگر گھر اور قبیلے والے ان کی شادی کسی ملازم یا سماجی حیثیت میں کم تر سے کرانے پر راضی نہیں ہوتے۔

بظاہر یہ قصہ مغل بادشاہ اکبر کے دور میں لکھا گیا ہے جو 16ویں صدی بنتی ہے۔ دمودر کی ہیر میں اکبر کا ذکر بھی ملتا ہے۔

بادشاہی جو اکبر سندی، حیل نہ حجت کائی

پتر چار چوچک گھر ہوئے، دمودر آکھ سنائیں

منظور اعجاز نے بی بی سی کو بتایا کہ دمودر نے اس واقعے کو اس طرح بیان کیا جیسے یہ حقیقی واقعہ ہو مگر ان کی رائے میں دمودر نے ایسا بس قصے میں رنگ ڈالنے کے لیے کیا ہے:

’اکھیں ڈٹھا قصہ کیتا، میں تان گنی نہ کوئی‘

منظور اعجاز کہتے ہیں کہ دمودر داس خود جھنگ کا نہیں بلکہ امرتسر کا رہنے والا تھا۔

دمودر کے بعد یہ قصہ مختلف لکھاریوں نے قلمبند کیا۔ مغل بادشاہ اورنگزیب کے دور میں احمد کوی (1682) اور ان کے بعد چنیوٹ سے تعلق رکھنے والے شاہجہان مقبل کے قصے بھی مشہور ہوئے مگر آج بھی یہی کہا جاتا ہے کہ ہیر صرف ’ہیرِ وارث شاہ‘ ہے۔

Heer
،تصویر کا کیپشنعظمی اور ابوذر مادھو گذشتہ ایک دہائی سے ہیر اور رانجھے کا کردار ادا کرتے آ رہے ہیں

وارث شاہ کی ہیر کو شہرتِ دوام کیسے ملی؟

ہیر پر سینکڑوں قصے، گانے، فلمیں اور ڈرامے لکھے گئے ہیں مگر پھر بھی ایسا لگتا ہے کہ ہیر کی کہانی ادھوری سی ہے۔ شاید وارث شاہ کو بھی یہی کمی محسوس ہوئی تھی، بقول وارث شاہ:

یاراں اساں نوں آن سوال کیتا عِشق ہیر دا نواں بنائیے جی

ایس پریم دی جھوک دا سَبھ قِصہ جِیبھ سوہنی نال سُنایئے جی

یہ اشعار وارث شاہ نے اس وقت لکھے جب ان سے قبل تین مشہور پنجابی ادیب یہ قصہ سنا چکے تھے۔ وارث شاہ نے ہیر کا قصہ 18 ویں صدی میں (1766) لکھا اور پھر یہ زبان زد عام ہوگیا، جسے ’دیوان پنجاب‘ بھی کہا جاتا ہے۔

پنجابی کے شاعر اور محقق طارق بھٹی کا کہنا ہے کہ ’وارث شاہ نے ہیر کو جس معراج اور بلندی تک پہنچایا وہ کسی اور شاعر کے حصے میں نہ آ سکا۔‘ ان کے مطابق جس طرح انگریزی کے لیے شیکسپیئر ہیں اسی طرح پنجابی کے لیے وارث شاہ کا درجہ ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وارث شاہ نے 18ویں صدی کے پنجاب کا ثقافتی، تہذیبی، سماجی اور عمرانی منظرنامہ اس قصے میں سمو دیا۔ انھوں نے اس وقت کے استحصالی طبقات یا بالادست ادارے جو عوام کے ساتھ جبر روا رکھے ہوئے تھے ان پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔

طارق بھٹی کے مطابق وارث شاہ نے جاگیرداری، قاضی (عدلیہ)، پنجائیت، خاندان اور جھوک کے اداروں کو پہلے ڈرامائی انداز میں دور سے دکھایا جو بہت خوبصورت نظر آتے ہیں مگر جب وہ ان سب کو قریب سے دکھاتے ہیں تو پھر ان کی کجیاں اور کوتاہیاں بھی سامنے لاتے ہیں۔

جب وارث شاہ تخت ہزارہ کو دور سے دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں:

کیہی تخت ہزارے دی صفت کیجے، جتھے رانجھیاں رنگ مچایا اے

کیہی صفت ہزارے دی آکھ سکاں، گوئیا بہشت زمین تے آیا اے

وارث شاہ کا مزار

اب جب وارث شاہ تخت ہزارہ کے اندر جاتے ہیں تو وہاں قاضی (جج) اور بھائیوں کی طرف سے رانجھے کے ساتھ ہونے والے ظلم کو دکھاتے ہیں۔ اپنے والد کی وفات کے بعد رانجھے کے بھائی جج کو رشوت دے کر ورثے والی اچھی زمین خود رکھ لیتے ہیں اور بنجر زمین رانجھے کو دے دیتے ہیں۔ وارث شاہ نے پھر رشوت خور قاضی کی بھی خوب خبر لی:

حاضر قاضی تے پینچ سدائِ سارے، بھائیاں زمیں نوں کچھّ پوائی آہی

وڈھی دے کے زمیں لے گئے چنگی، بنجر زمیں رنجھیٹے نوں آئی آہی

تخت ہزارہ کی مسجد کو دور سے مسجد اقصیٰ کی بہن قرار دیا۔

مسجد بیت العتیق آہی

خانہ کعبیوں ڈول اتاریا نیں

گویا اْقصی دے نال دی بھین دوئی

شاید صندلی نور اُساریا نیں

اور جب وارث شاہ مسجد کے قریب ہوئے تو مولوی کو مخاطب کر کے کہا آپ نے شریعت کو سرپوش بنا رکھا ہے۔ ’جو زیادہ گنہگار (پیسے دینے والے) ہوتے ہیں تم ان کے خیرخواہ رہتے ہو۔ تمھیں بس حلوؤں کی خوشبو سے دلچسپی ہے۔ تم اندھوں، کوڑھیوں اور اپاہجوں کی طرح ٹوہ میں لگے رہتے ہو کہ کس گھر میں کوئی مرا اور کس گھر میں کوئی پیدا ہوا۔‘

باس حلویاں دی خبر مردیاں دی

نال دعائیں دے جیوندے مار دے ہو

ناقدین کا کہنا ہے کہ وارث شاہ نے ہیر کے ذریعے اپنے زمانے کی ثقافت، معیشت، سیاست، فلسفہ، تصوف، نفسیات اور انسانی رشتوں کو بیان کیا ہے۔

وارث شاہ نے جیسے پنجاب کو کوزے میں بند کر دیا۔ اس کارنامے پر تاریخِ اردو ادب کے ایک اہم موّرخ رام بابو سکسینہ کو یہ لکھنا پڑا تھا کہ ’افسوس اردو زبان میں کوئی وارث شاہ پیدا نہیں ہوا۔‘

وارث شاہ کا مزار

ڈاکٹر روش ندیم اس بات کو ایک مختلف انداز میں بیان کرتے ہیں۔ ان کے مطابق سنہ 1964 میں فیض احمد فیض نے ایک پیپر لکھا جس میں انھوں نے کہا کہ ’میں دکھی ہوا ہوں کہ میں غالب جیسا شعر تو کہہ سکتا ہوں مگر میں وارث شاہ جیسا مصرع نہیں کہہ سکتا۔‘

ڈاکٹر روش نے پنجابی اور اردو کے شاعر رانا سعید دوشی کی ’ہیر دوشی: کیدو بنام وارث شاہ‘ کی تقریب رونمائی میں کہا تھا کہ ’مجھے یاد ہے کہ میرے بچپن میں یہ میں نے خود دیکھا کہ پنجاب میں فجر کی نماز کے بعد بزرگ تلاوت قرآن کے بعد ہیر کی تلاوت کو بھی فرض سمجھتے تھے۔‘ ان کے خیال میں ہیر بولتا پنجاب ہے اور اتنی مقبولیت شاید ہی کسی اور تخلیق کو حاصل ہوئی ہو۔

طارق بھٹی کے مطابق ’وارث شاہ اپنے وقت سے آگے تھے اور انھوں نے جو تہذیبی اور تخلیقی انداز میں سوالات اٹھائے ہیں وہ لوگوں کے دلوں میں گھر کر گئے۔ ہیر وارث شاہ کے مصدقہ نسخے میں تقریباً 631 بند ہیں، جن میں فلسفہ، موسیقی، سماجیات، عمرانیات، تہذیب، حکمت، کھیت کھلیان، زیورات، عورتیں، سماجی درجہ بندی، رسمیں، ریت اور رواج ملیں گے۔

رانجھا جب جوگی بن کر ہیر کی تلاش میں کھیڑوں کے دیس رنگ پور پہنچتا ہے تو اس سے سوال ہوتا ہے کہ وہ کون ہے، کہاں سے آیا ہے اور اس کی ذات کیا ہے۔ وارث شاہ کی ہیر میں رانجھا جواب میں کہتا ہے کہ شیر، سانپ اور فقیر کا کوئی دیس نہیں ہوتا۔ ان کا وطن وہی ہے جہاں وہ کھڑے سانس لے رہے ہیں۔

رانجھا آکھدا خیال نہ پوو میرے

شینہ سپ فقیر دا دیس کیہا

وطن دماں دے نال تے ذات جوگی

سانوں ساک قبیلڑا خویش کیہا

جیہڑا وطن تے ذات ول دھیان رکھے

دنیا دار ہے اوہ درویش کیہا

وارث شاہ کا مزار

رانا سعید دوشی، وارث شاہ کی ہیر کو اپنی ہیر دوشی میں زیر بحث لائے ہیں۔ تاہم انھوں نے وارث شاہ کے مرتبے اور مقام کا اعتراف کرتے ہوئے ان سے کچھ پہلوؤں سے اختلاف کیا ہے۔ انھوں نے وارث شاہ کے برعکس سیدے کھیڑے اور کیدو کو مظلوم ظاہر کیا ہے جبکہ رانجھے کو غیر سنجیدہ عاشق کے طور پر بیان کیا ہے۔ سعید دوشی کے مطابق:

اوکھی کالک لاہونی بھانڈیاں توں

تھلے لمدے ہاں تائیوں پتیلیاں دے

دوشی وانگ رنگین مزاج رانجھا

مزے لٹدا سی روز تبدیلیاں دے

سعید دوشی کے مطابق وارث شاہ نے اپنی ہیر میں شاہجہان مقبل کی ہیر سے پورے پورے اقتباس لیے ہیں اور احمد کوی والی بحر میں ہیر لکھی ہے۔

Warish Shah

منظور اعجاز اس حد تک متفق ہیں کہ وارث شاہ کی ہیر احمد کوی کی ہیر کے بہت قریب ہے۔ تاہم ان کی رائے میں وارث شاہ کا قصہ شاہجہان مُقبل کے قصے سے بالکل مختلف ہے۔

ان کے مطابق شاہجان مُقبل کے قصے میں رانجھا اس وجہ سے تخت ہزارہ چھوڑتا ہے کیونکہ اس کے ساتھ زمین کے بٹوارے پر خاندان میں ناانصافی ہوتی ہے جبکہ وارث شاہ کے قصے میں رانجھے کو بھابیاں تنگ کر رہی ہیں اور یہ طعنے دیتی ہیں کہ آپ کہاں ہیر کو اپنا بنا سکتے ہیں۔

شاہجان مُقبل رانجھے کو بہت تہذیب والی شخصیت کے طور پر متعارف کراتا ہے جبکہ وارث شاہ ملا سے گالم گلوچ کر رہا ہے۔ اب وارث شاہ کے نام پر دستیاب کچھ قصوں میں مختلف گالیوں کا حوالہ دیا گیا ہے، جن کا ذمہ دار کرائے کے شاعروں کو قرار دیا جاتا ہے، جنھیں کاروباری غرض سے ہیر کے قصے میں مزید اشعار بڑھانے کے پبلشرز پیسے ادا کرتے تھے اور پھر سرورق پر ’وڈی تے اصلی ہیر‘ لکھ کر فروخت کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ 90 کی دہائی کے آخر تک ہیر کی فروخت عروج پر رہی۔

منظور اعجاز کے مطابق یہ بات بھی درست ہے کہ وارث شاہ نے اپنی ہیر میں سخت الفاظ استعمال کیے ہیں جو عام بول چال میں مستعمل ہیں۔

محقق اور پنجابی میں متعدد کتابوں کے مصنف نجم حسین سید نے اس موضوع پر اپنی پنجابی میں لکھی گئی کتاب ’لوکاں کملیاں نوں قصہ ہشیار‘ میں گالی کیسے بنتی ہے پر بحث کرتے ہوئے لکھا کہ گالی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی مرد کی عورت پر حکمرانی کی۔ خیال رہے کہ ماضی میں وارث شاہ کے کچھ الفاظ پر ناشرین اور سرکاری اداروں نے بھی نکتے لگا کر یا الفاظ بدل کر ہیرِ وارث شاہ کے متعدد نسخے شائع کیے۔

پروفیسر فتح محمد ملک نے ہیر وارث شاہ کے کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’وارث شاہ کا کمال یہی ہے کہ انھوں نے رومانوی زبان کو روحانی زبان میں بدل دیا ہے۔‘

منظور اعجاز کے مطابق وارث شاہ کی ہیر معاشرے کی ٹھوس حقیقتوں کے زیادہ قریب ہے جبکہ دمودر کا قصہ معجزات کی طرف چلا جاتا ہے اور ہیر ایک جنگجو کے روپ میں دکھائی گئی ہے جو تیر کمان لے کر نکلتی ہے اور لشکر کی قیادت کرتے ہوئے آگے بڑھتی ہے جبکہ اس کا اختتام خانہ کعبہ میں جھاڑو لگانے پر ہوتا ہے۔

ان کی رائے میں وارث شاہ اپنی ہیر میں عقلیت اور عملیت پسندی کے زیادہ قریب رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وارث شاہ کی ہیر عام فہم ہے، جس کا مقصد معاشرتی قدروں کو سامنے لانا ہے۔ ہیر وارث شاہ کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس کا خاتمہ ’ٹریجِڈی‘ پر ہوتا ہے۔

Tariq Bhatti
،تصویر کا کیپشنطارق بھٹی پنجابی کے شاعر ہیں۔ وہ ہیر وارث کے محقق بھی ہیں۔
ہیر وارث شاہ

’وارث شاہ کا کیدو اسٹیبلشمنٹ ہے‘

کیدو کو ہیر کا ایسا چچا بتایا گیا ہے جو غیرت کے نام پر اپنی بھتیجی ہیر کے کسی کم ذات یا رتبے والے عشق کو اپنے خاندان کی توہین سمجھتا ہے اور ہیر کے راستے میں طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے۔ کیدو کو زیادہ تر فلموں میں بھی ولن کے روپ میں ہی دکھایا گیا ہے۔

منظور اعجاز کے مطابق وارث شاہ نے کیدو کو اسٹیبلشمنٹ کے ’ڈیفنڈر‘ کے طور پر پیش کیا ہے۔ کیدو خود آزاد منش ہے مگر ہیر کو کہتا ہے کہ وہ معاشرتی اقدار سے ماورا نہیں۔ ان کی رائے میں اس ہیر میں کیدو کا چھوٹا سا کردار ہے۔

رانجھا ہیر کے باپ چوچک کی بھینسیں چراتا ہے یعنی ان کا ملازم ہے۔ اب پنجاب کے کلچر میں جھنگ کے ایک زمیندار اپنی بیٹی ایک ملازم کو بیاہ کر دینے کو تیار نہیں۔ ان کے مطابق مقامی ریت رواج بھی یہی ہیں۔ وارث شاہ نے اپنی ہیر میں ہیر کے بھائی سلطان کا ذکر بھی سرسری کیا ہے۔

طارق بھٹی کے مطابق وارث شاہ نے ہیر کو ہیرو بنایا اور یہ بات تاریخی طور پر بھی درست ہے کہ پنجاب کی ثقافت میں عورت بااختیار ہے اور اسے اس کا باپ اور بھائی گھر کی چابیاں دینے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔ پنجابی کی زیادہ تر لوک داستانوں میں لڑکی کا نام پہلے آتا ہے اور اس پر ہی زیادہ لکھا گیا ہے۔

رانا سعید دوشی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وارث شاہ نے ہیر کو مار کر امر کر دیا۔‘

رانا سعید دوشی کی ہیر میں کیدو ہیر کا دشمن نہیں بلکہ خیرخواہ ہے۔ تاہم ہیر دوشی میں حتمی فیصلہ سنانے کے بجائے ایک لمبی تاریخ ڈال دی گئی ہے اور اپنے ایک شعر میں رانا سیعد دوشی نے لکھا کہ اس قصے کو سنانے کے لیے ابھی اور بھی لکھاری آئیں گے اور ’ویلا رکیا نئیں‘ یعنی وقت ابھی ٹھہرا نہیں کہ اس کا حتمی فیصلہ سنادیا جائے۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہیر کے قصے کی بنیاد کسی تاریخی واقعے پر رکھی گئی؟

جھنگ میں ہیر کا مزار

ہیر کی حقیقت کیا ہے اور ہیر کے ساتھ کس نے کیا سلوک کیا؟

ہیر سے متعلق کسی کو قطعی طور پر یہ تو معلوم نہیں ہے کہ وہ کوئی حقیقی کردار تھا یا نہیں مگر قصہ ہیر کا ایک جغرافیائی پہلو ہے جس میں یہ پنجاب کی مقامی ذاتوں اور ان کے درمیان کشیدگی کی عکاسی کرتا ہے۔

طارق بھٹی کے مطابق شاعر ایک متحرک زمانے میں سانس لے رہا ہوتا ہے۔ وارث شاہ نے اپنے تخیل اور فکر کی بنیاد پر ہیر تخلیق کی۔ ان کے مطابق جب شاعر کسی تاریخی واقعے، داستان یا اساطیر کو شاعری میں ڈھالتا ہے تو پھر وہ صحافی کی طرح حقائق کا پابند نہیں رہتا۔

ان کے مطابق وارث شاہ کی ہیر میں پنجاب پوری رنگا رنگی سے سانس لیتا دکھائی دیتا ہے۔ وارث شاہ نے کوتاہیوں کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے اور کرداروں کے ذریعے سماجی حقیقت بھی بیان کی۔

ہیر بھلے حقیقی کردار نہ ہو مگر منظوم قصوں میں ہیر کے نین نقش تک بیان کیے گئے ہیں، جیسے وہ کوئی حور، پری ہو اور کوئی اس کے حسن کی تاب نہیں لا سکتا۔ وارث شاہ نے لکھا:

ہوٹھ سرخ یاقوت جیوں لال چمکن، ٹھوڈی سیؤ ولائتی سار وچوں

نکّ الف حسینی دا پپلا سی، زلف ناغ خزانے دی بار وچوں

چھاتی ٹھاٹھ دی ابھری پٹ کھینوں، سیؤ بلخ دے چنے انبار وچوں

دھنی بہشت دے حوض دا مشک کبہ، پیٹو مخملی خاص سرکار وچوں

دمودر داس نے ہیر کو اپنے قصے میں رانجھے کے ساتھ کعبے تک پہنچا دیا۔ دمودر کو چند زائرین نے بتایا کہ انھوں نے ہیر اور رانجھے کو خانہ کعبہ میں جھاڑو لگاتے دیکھا ہے۔

شاہجہان مقبل کے قصے میں ہیر ابدی نیند سو جاتی ہے۔ یہ بھی نتیجہ اخذ کیا گیا کہ جب ہیر رانجھا بھاگ کر جا رہے تھے تو انھیں عدلی راجا کے سپاہیوں نے گرفتار کرلیا اور پھر انھیں بادشاہ کے دربار لے گئے۔ عدلی راجا نے پہلے ہیر کو اس کی سیال برادری کے حوالے کیا مگر اس کی بستی پر قہر ٹوٹا تو اس نے ہیر کو رانجھے کے حوالے کردیا۔

وارث شاہ کی ہیر میں کیدو اپنی بھتیجی ہیر کو زہر دے دیتا ہے اور رانجھا یہ خبر سن کر مرجاتا ہے۔

ہیر آکھدی جوگیا جھوٹھ آکھیں

کون رُٹھڑے یار ملاؤندا ای

ایہا کوئی نہ ملیا میں ڈھونڈھ تھکی

جیہڑا گیاں نوں موڑ لیاؤندا ای

تین سو برس گزر جانے کے بعد بھی ہیر کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے، ہر روز ہیر کی آغوش میں (مزار) سینکڑوں ’ہیریں‘ اپنے ’رانجھوں‘ سمیت آ کر راز و نیاز اور دل کی باتیں کرتی اور من کی مراد مانگتی ہیں۔

ہیر کا قصہ بھلے افسانہ ہو لیکن ہیر کے ماننے والے اسے حقیقت کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آج بھی ہیر اور رانجھا جنم لیتے ہیں، لیکن آج ان کے دکھ لکھنے والا ’وارث شاہ‘ کوئی نہیں۔

ہیر کے مزار سے ایک جوڑا ’دھاگا‘ باندھ کر اور ’مائی ہیر‘ سے دل کی باتیں کر کے باہر نکلا تو کیمرے کی طرف دیکھتے ہوئے ’عزت بی بی‘ نے ’میاں رانجھے‘ کی موجودگی میں صرف اتنا کہا کہ ’ہیر نوں بدنام نہ کرنا، بس! وارث شاہ دا ایہوں پیغام اے۔‘