لاہور: (مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی) حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’جس جوان نے کسی بوڑھے شخص کی اس کے بڑھاپے کی وجہ سے تعظیم و تکریم کی تو اللہ تعالیٰ اس کے بڑھاپے کے وقت ایسے شخص کو مقرر کرے گا جو اس کی تعظیم کرے گا‘‘(ترمذی)
زمانہ جوانی میں انسانی قوتیں بھی اپنے عروج پر ہوتی ہیں، سوچنے کی طاقت، عمل کی قوت، غصہ کی طاقت اور ہر قسم کی قوت پر اسے ناز بھی ہوتا ہے، اس لیے جوانی میں انسان سرکشی کی طرف بھی زیادہ مائل ہوتا ہے، اگر انسان زمانہ جوانی میں سنبھل جائے تو یہ واقعی ایک مثالی جوان ہوتا ہے، غالباً اسی لیے شیخ سعدی علیہ الرحمہ نے فرمایا ’’در جوانی توبہ کردن شیوئہ پیغمبری‘‘ (جوانی میں پرہیز گاری کی زندگی گزارنا پیغمبروں کا طریقہ ہے اور واقعی بہت بڑا کمال ہے)۔
رسول اللہﷺ کو اور بہت سے کمالات میں سے ایک کمال اللہ تعالیٰ نے یہ بھی عطا فرمایا تھا کہ جوانی ہی میں آپﷺ نے اپنی صلاحیتوں اور خوبیوں کا لوگوں سے اعتراف کروا لیا، نبوت ملنے سے پہلے آپﷺ چالیس سال تک کی جوانی کی زندگی اپنی قوم میں گزار چکے تھے، اس زندگی کی پوری تصویر اور اس کا ہر رخ آج تک محفوظ ہے، یہ چالیس سالہ زندگی سچائی، دیانت اور خدمت خلق جیسے اعلیٰ اوصاف سے بھرپور ہے، جس کی بنا پر آپﷺ کو دشمنوں نے بھی صادق اور امین کے لقب سے پکارا۔
جب آپﷺ کو نبوت ملی تو آپﷺ نے اپنی سچائی کے ثبوت میں اپنی اسی چالیس سالہ زندگی کو پیش فرمایا، آپﷺ کی جان کے دشمن آپﷺ کے دین اور دعوت کے دشمن کو بھی اس بات کی ہمت نہ ہوسکی کہ آپﷺ کی سابقہ زندگی پر انگلی اٹھا سکے، رحمت للعالمینﷺ کا بہت بڑا معجزہ آپﷺ کی جوانی کی حالت میں پاکیزہ زندگی ہے، ایسی صاف ستھری اور اخلاق سے آراستہ زندگی جس کے دوست و دشمن سب ہی معترف ہیں، آپﷺ کے چچا ابوطالب کے الفاظ ہیں کہ میں نے اپنے بھیجتے کو کبھی جھوٹ بولتے نہیں سنا اور اسے کبھی گلیوں میں لڑکوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے نہیں دیکھا۔
آج ہمارے معاشرہ میں نوجوان کے سب سے زیادہ عیب اس کے رشتہ داروں کو معلوم ہوتے ہیں، اس لئے معاشرے کے بزرگ آج کے نوجوان پر کوئی ذمہ ڈالنے سے گریز کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، نبی کریمﷺ نے اپنی جوانی کے زمانے میں حجر اسود کی تنصیب جیسے ذمہ دارانہ کارنامے انجام دیئے، جب بارشوں کی وجہ سے سیلاب آیا کعبہ کا کچھ حصہ گر گیا تو مختلف قبیلوں نے مل کر دوبارہ تعمیر کیا، حجراسود لگانے کا سوال اٹھا تو فساد کا خطرہ ہوا، طے ہوا کہ جو سب سے پہلے کل صبح بیت اللہ میں داخل ہو وہ رکھے گا، سب نے پہلے پہنچنے کی کوشش کی لیکن نبی کریمﷺ پہلے سے موجود تھے۔
آپﷺ نے بڑی عمدہ تدبیر کے ساتھ حجر اسود رکھوایا اور ایک بہت بڑا مسئلہ آپﷺ نے نوجوانی میں حل فرمایا، جوانی میں آپﷺ محبت اور رحمت کی مثال تھے، کسی کی تکلیف کو دیکھ کر مدد کیلئے تیار ہوجاتے، ایک بڑھیا کو دیکھا، بوجھ اٹھائے جا رہی تھی، کمر بوجھ تلے جھکی جا رہی تھی، پتھر دل لوگ ہنس رہے تھے، آپﷺ نے آگے بڑھ کر بڑھیا کا بوجھ اپنے کندھے پر رکھا اور لوگوں سے کہا ایک کمزور بڑھیا کا مذاق اڑانا جوانی کا شیوہ نہیں، مردانگی یہ ہے کہ اس کا بوجھ بٹا دو۔
جوانی میں بھی آپﷺ اپنے وقت کا کافی حصہ بوڑھوں، بیماروں اور معذور لوگوں کی دیکھ بھال پر صرف فرماتے تھے، ان کے چھوٹے بڑے کام کرتے، ایک روز ایک قریشی سردار نے کہا کتنی شرم کی بات ہے تم اپنے خاندان کو بٹہ لگاتے ہو، تم اونچے گھرانے کے چشم و چراغ ہو اور اس طرح غریبوں کے کام کام کرتے ہو، رحمت دو عالم ﷺ نے فرمایا بے شک میرا پردادا ہاشم قریش کا سردار تھا مگر وہ بھی سب کی خدمت کیا کرتے تھے۔
آپﷺ کو یتیموں سے بھی بڑی محبت تھی، ایک بچے کو کمزور بے لباس دیکھا، اس سے وجہ پوچھی وہ رو پڑا اور بھوک کی شکایت کی، آپﷺ کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے، آپﷺ لڑکے کو گھر لے گئے کھانا کھلایا اور کپڑے پہنائے۔
جوانی میں معاشرتی ذمہ داریاں پیش آئیں تو تجارت کو ذریعہ معاش بنایا، تجارت کی کامیابی کا علم مکہ کی مالدار خاتون بی بی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو ہوا تو اپنے کارندوں کے ذریعہ شام کے سفر تجارت پر بھیجا، اپنے معتبر غلام میسرہ کو بھی ساتھ کر دیا، آپﷺ نے ایسی دیانت اور محنت سے کام کیا کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو توقع سے زیادہ منافع ہوا۔
میسرہ کے ذریعہ نیکی اور دیانت کا معیار سنا تو آپﷺ سے شادی کا پیغام بھیجا، اس وقت آپﷺ کی عمر 25 سال اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکی عمر 40 سال تھی، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی صورت میں ایک نیک اور خدمت گزار بیوی ملی، ان کے ہمراہ بڑی پرسکون اور خوشگوار، جوانی میں خانگی زندگی گزاری، ان سے تین بیٹے اور چار بیٹیاں ہوئیں، بیٹے چھوٹی عمر میں وفات پا گئے، باقی ان کی چاروں بیٹیوں کی شادیاں ہوئیں۔
کامیاب جوانی کی زندگی میں ایک کامیاب انسان، ایک کامیاب باپ، خاوند اور پھر کامیاب تاجر کی زندگی گزاری، یہاں تک کہ چالیس سال کی عمر میں نبوت عطا ہوئی۔
آپﷺ کی اس جوانی کی زندگی میں آج کے جوان کو جو نقوش ملتے ہیں، ان میں بنیادی اور بہت گہرا نقش تو یہ ہے کہ آج کا جوان اپنی جوانی میں سچائی اور دیانت اور شرافت کا پیکر بن جائے اور اس کی خوبیوں کے معترف سب سے پہلے اس کے گھر والے ہوں، جن کے ہمراہ وہ دن رات گزارتا ہے، پھرا س کے رشتہ دار اس کی خوبیوں کے معترف ہوں۔
آج کے نوجوان پر جب معاشی ذمہ داریاں آجائیں تو یہ کامیابی سے ان ذمہ داریوں کو نبھائے اور یہی خوبیاں اس قدر کمال کی ہوں کہ وہی اس کی شادی کا سبب بن جائیں، اس کے بعد خاوند اور پھر باپ بننے کے بعد اپنی پوری زندگی میں ہر مرحلہ کے اندر رسول اللہﷺ کی حیات طیبہ سے رہنمائی حاصل کرتا رہے۔
مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی مہتمم جامعہ اشرفیہ لاہور ہیں۔