پاکستان کی سیاست میں بیرونی مداخلت کے الزامات: یہ کہانی بہت پرانی ہے

پاکستان کی سیاست میں بیرونی مداخلت کے الزامات: یہ کہانی بہت پرانی ہے

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان اپنے خلاف اپوزیشن جماعتوں کی تحریکِ عدم اعتماد کو ملک کی سیاست میں بیرونی مداخلت قرار دے رہے ہیں اور اس کی بنیاد ایک سفارتی مراسلے کو بتاتے ہیں۔

پاکستان میں سیاسی حالات کو غیر ملکی اثر و رسوخ یا خارجہ پالیسی کے فیصلوں سے جوڑنے کا یہ پہلا موقع نہیں ہے اور قیامِ پاکستان کے بعد سے ہی ملک کے سیاسی امور پر عالمی قوتوں کے اثر انداز ہونے کے دعوے اور الزامات سامنےآتے رہے ہیں۔

بعض مبصرین کے نزدیک داخلی سیاست میں بیرونی مداخلت کے الزامات کا تعلق عالمی سیاسی صورتِ حال سے بھی رہا ہے۔

سرد جنگ اور پاکستان

پاکستان کی ابتدائی سیاسی تاریخ اور پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کی زندگی پر کئی کتابوں کے مصنف، محقق اور تاریخ دان ڈاکٹر محمد رضا کاظمی کا کہنا ہے کہ 1947 میں جب پاکستان قائم ہوا تو دو بڑی عالمی قوتوں امریکہ اور سوویت یونین میں سرد جنگ کا آغاز ہو چکا تھا۔

ان کے بقول پاکستان عالمی سطح پر اثر و رسوخ کی اس کشمکش میں پہلے دن ہی سے فریق بن چکا تھا۔ اس بات کے تاریخی شواہد موجود ہیں کہ امریکہ نے تقسیمِ ہند اور قیامِ پاکستان کے برطانوی منصوبے کی حمایت کی تھی اور محمد علی جناح کی بطور گورنر جنرل تقریبِ حلف برداری میں واحد غیر ملکی وفد بھی امریکہ ہی سے آیا تھا۔ اس کے برعکس سوویت یونین نے قیامِ پاکستان کی مبارک باد دینا بھی گوارہ نہیں کیا تھا۔

ڈاکٹر محمد رضا کاظمی کہتے ہیں کہ لیاقت علی خان کے دورۂ امریکہ کا سبب بھی یہی تھا اور یہی وہ دورہ تھا جس نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی سمت کا تعین کیا تھا۔

امریکہ کے اثر و رسوخ کی باز گشت

پاکستان کی سیاسی تاریخ پر کتاب’آلٹرنیٹیو ہسٹری‘ کے مصنف ڈاکٹر ناظر محمود کے مطابق 1953 میں امریکہ نے پاکستان کو گندم کی امداد بھیجی تو کراچی بندرگاہ سے گندم کی بوریاں لانے والی اونٹ گاڑیوں میں جتے اونٹوں کے گلے میں ’شکریہ امریکہ‘ کی تختیاں لٹکائی گئی تھیں۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ پہلا موقع تھا جب پاکستان میں عوامی سطح پر امریکہ کی امیج بلڈنگ شروع ہوئی۔ اس امدادی گندم کی فراہمی میں کردار ادا کرنے والے سفارت کار محمد علی بوگرہ کو بعد میں گورنر جنرل غلام محمد نے وزیرِ اعظم پاکستان بنا دیا۔

ڈاکٹر ناظر کہتے ہیں کہ اس وقت مغربی ممالک اور امریکہ کو خطے میں کمیونزم کے بڑھتے ہوئے اثرات سے متعلق تشویش لاحق تھی۔ بوگرہ وزیرِ اعظم بنے تو اس کے بعد پاکستان سوویت یونین کے مقابلے کے لیے 1955 میں معاہدۂ بغداد(سیٹو) کا حصہ بنا۔

امریکہ سے پہلے بھارت

ڈاکٹر ناظر محمود کے مطابق پاکستان کی سیاست میں بیرونی مداخلت یا کسی دوسرے ملک کے مفادات کے لیے کام کرنے کے الزامات امریکہ سے بھی پہلے بھارت کے حوالے سے سامنے آئے تھے۔

ان کے مطابق اس کی پہلی مثال اے کے فضل الحق کی حکومت کی برطرفی ہے۔

اے کے فضل الحق نے 1954 میں مسلم لیگ کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کی قیادت کی تھی اور انتخابات میں کامیابی کے بعد مشرقی پاکستان کے وزیرِ اعلیٰ بنے تھے۔ منصب سنبھالنے کے چند ہفتے بعد ہی وہ کلکتہ کے نجی دورے پر گئے جہاں انہوں نے اعلان کیا کہ وہ ہندوستان کی سیاسی تقسیم کے قائل نہیں تھے اور اب تک پاکستان اور بھارت کے لفظوں سے مانوس نہیں ہوسکے ہیں۔

سابق بیورکریٹ اور مصنف الطاف گوہر اپنی کتاب ’ایوب خان: فوجی راج کے پہلے دس سال‘ میں لکھتے ہیں کہ اس بیان کی خبریں جب شائع ہوئیں تو پاکستان میں بہت واویلا ہوا۔ اس بیان کو بنیاد بنا کر پہلے انہیں بھارت کا ایجنٹ کہا گیا اور تین ماہ میں ان کی حکومت کو چلتا کردیا گیا۔ یاد رہے کہ یہ وہی فضل الحق تھے جنہوں نے 1940 میں لاہور میں مسلم لیگ کے جلسے میں وہ قرارداد پیش کی تھی جو بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنی تھی۔

ڈاکٹر ناظر محمود کے مطابق بعد ازاں ایوب خان نے 1965 کے صدارتی انتخابات کی مہم میں بانئ پاکستان کی بہن فاطمہ جناح پر بھی بھارتی ایجنٹ ہونے کے الزامات عائد کیے۔

ایوب خان کا دور

ڈاکٹر محمد رضا کاظمی کہتے ہیں کہ 1954 میں وزیر دفاع بننے کے بعد ایوب خان کے امریکی حکام سے روابط بڑھ گئے تھے اور وہ واشنگٹن ڈی سی میں اپنا اچھا اور لبرل امیج بنانے میں کامیاب رہے تھے۔

اس کے بعد جب وہ 1958 میں مارشل لا لگا کر حکومت میں آئے تو ان کا امریکہ کی جانب جھکاؤ برقرار رہا۔ مئی 1960 میں یو ٹو طیارے کا واقعہ سامنے آیا جب پشاور کے قریب بڈھ بیر کے ہوائی اڈے سے اڑنے والے امریکی طیارے کو سوویت حکام نے مار گرایا۔ اس کے بعد مغربی کیمپ کے لیے ایوب خان کی حمایت کھل کر سامنے آگئی۔

ایوب خان کے دور پر اپنی کتاب ’ایوب خان کا زمانہ: نہ قفس نہ آشیانہ‘ میں امریکی مصنف لارنس زائرنگ لکھتے ہیں کہ اس واقعے اور سوویت یونین کی دھمکیوں کے بعد ہی ایوب خان کی پالیسیاں عوامی سطح پر تنقید کی زد میں آنے لگیں۔ لیکن 1962 میں بھارت اور چین کی جنگ کے بعد جب امریکہ نے بھارت سے متعلق خیر سگالی کا رویہ اختیار کیا تو ایوب خان کی تشویش بڑھنے لگی۔

ایوب خان کے معتمد اور سیکریٹری اطلاعات رہنے والے الطاف گوہر بھی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ 1965 کی جنگ میں ایوب خان کو امریکہ سے واضح حمایت حاصل ہونے کی توقع تھی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس موقعے پر سوویت یونین نے دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کے لیے معاہدۂ تاشقند کی میزبانی کی۔

الطاف گوہر لکھتے ہیں کہ اس معاہدے نے پاکستان کے عوام میں مایوسی کی لہر دوڑا دی اور ایوب خان کے اپنے وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے اس صورتِ حال کو اپنے نئے سیاسی سفر کا نقطۂ آغاز بنایا اور ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک زور پکڑنے لگی۔

ایوب خان کے اقتدارکے آخری دنوں میں 1968 میں اگرتلہ سازش کیس سامنے آیا جس میں اس وقت کے مشرقی پاکستان میں مقبول سیاسی رہنما شیخ مجیب الرحمن اور ان کے ساتھیوں پر بھارت کی مدد سے پاکستان سے علیحدگی کی سازش کا الزام لگا اور ان کے خلاف مقدمہ بنایا گیا۔

تجزیہ کار اور سینئر صحافی نصرت جاوید کا کہنا ہے کہ اے کے فضل الحق پر بھارت کے ایجنٹ ہونے کا الزام لگا لیکن بعد میں بھی وہ حکومت کا حصہ بنے۔ اسی طرح جب ایوب خان کا اقتدار مشکل کا شکار ہوا تو انہوں نے سیاسی جماعتوں کی ایک گول میز کانفرنس بلائی جس میں شیخ مجیب کو بھی مدعو کیا گیا اور ان کے خلاف اگرتلہ سازش کا مقدمہ بھی واپس لے لیا گیا۔

پہلی بار کس سیاسی جماعت کو کارنر کیا گیا؟

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے نصرت جاوید کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سیاسی مخالفین پر بیرونی تعاون لینے یا غیر ملکی ایما پر کام کرنے کے الزامات کی کہانی بہت پرانی ہے۔ لیکن سب سے پہلے ان الزامات کی بنیاد پر جس جماعت کو کارنر کیا گیا وہ نیشنل عوامی پارٹی یا نیپ تھی جو آج عوامی نیشنل پارٹی کہلاتی ہے۔

نیپ بائیں بازو کے نظریات رکھنے والی سیاسی جماعت تھی۔ 1973 میں بلوچستان میں نیپ اور جمعیت علماء اسلام کی اتحادی حکومت ختم ہونے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سرحد میں جے یو آئی کے مفتی محمود حکومت سے مستعفی ہوگئے تھے۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ کہ ذوالفقار علی بھٹو نے 1974 میں نیپ کے خلاف پابندیاں عائد کیں۔ عبدالولی خان اور ان کے ساتھیوں پر بھارت اور افغانستان سے فارن فنڈنگ کے الزمات لگا کر جماعت پر پابندی عائد کر دی اور سپریم کورٹ نے بھی اس کی توثیق کر دی۔ اس کے بعد حیدرآباد ٹریبونل بنا کر نیپ کی قیادت کو غدار قرار دیا گیا۔ بعد میں ضیاالحق حکومت میں آئے تو نیپ کے رہنماؤں پر یہ مقدمات ختم ہوئے۔

نصرت جاوید کے مطابق پاکستان میں نیپ وہ پہلی جماعت ہے جسے غیر ملکی امداد اور تعاون کے الزامات پر کارنر کیا گیااور اس کے خلاف ان الزامات کی بنیاد پر باقاعدہ قانونی کارروائی بھی ہوئی۔ اس سے پہلے اور بعد میں غیر ملکی تعاون کے الزامات صرف الزامات کی حد تک ہی رہے۔

’بھٹو اینٹی امریکہ نہیں تھے‘

سن 1977 میں پاکستان میں ہونے والے قبل از وقت عام انتخابات کے نتائج کے خلاف اپوزیشن جماعتوں نے پاکستان قومی اتحاد بنایا اور ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف احتجاجی لہر کا آغاز ہوا۔

سینئر صحافی حسین نقی کہتے ہیں کہ وہ لاہور کے اس جلسے میں شریک تھے جس میں بھٹو صاحب نے امریکہ پر اپنا اقتدار ختم کرنے کا الزام عائد کیا تھا اور کہا تھا’پارٹی از ناٹ اوور‘۔انہوں نے ایک امریکی وزیر خارجہ کا خط بھی لہرایا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ جب بھٹو صاحب نے امریکہ کا نام لیا تھا تو میں نے ان سے کہا تھا کہ پارٹی اوور ہو چکی ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے حامی حزبِ اختلاف کی تحریک پر امریکہ سے مدد لینے کا الزام عائد کرتے تھے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی حالیہ دنوں میں یہ مؤقف دہرایا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت غیر ملکی ایما پر ختم کی گئی۔

اس بارے میں ڈاکٹر ناظر محمود کا کہنا ہے کہ کسی بھی ملک میں حکومت کی تبدیلی میں غیر ملکی قوت اپنا اثرو رسوخ استعمال کرسکتی ہے، تھپکی دے سکتی ہے لیکن کسی حکومت کی تبدیلی کے اسباب اندرونی ہوتے ہیں۔

لیکن نصرت جاوید کے نزدیک ذوالفقار علی بھٹو اپنے خلاف اٹھنے والی تحریک میں بیرونی اثرات کی جو بات کرتے تھے اس میں زیادہ وزن تھا اور اُس دور کے حالات و واقعات سے بھی ان کے الزامات کو تقویت ملتی تھی۔

اسی طرح ڈاکٹر محمد رضا کاظمی کا کہنا ہے کہ 1977 میں بھٹو کو اقتدار سے ہٹانے کی تحریک میں بیرونی مداخلت قرینِ قیاس ہے کیوں کہ بھٹو صاحب نے سائرس وینس کا جو خط دکھایا تھا اس کا امریکہ نے نوٹس لیا تھا۔ لیکن ان کے بقول یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ جب تک کسی ملک کے لوگ سازگار حالات پیدا نہ کریں تو بیرونی مداخلت کارگر نہیں ہوتی۔

البتہ حسین نقی کا کہنا ہے کہ بھٹو صاحب نے اپنے خلاف تحریک کے دوران عوام میں اپنا اینٹی امریکہ ہونے کا تاثر تو بنایا لیکن ان کے بقول بھٹو کے زیادہ تر اقدامات اس تاثر کی نفی کرتے تھے۔ انہوں نے نظام میں ایسی کوئی بنیادی تبدیلی نہیں کی تھی جس کی وجہ سے انہیں اینٹی امریکہ کہا جائے۔

حسین نقی کے مطابق بھٹو نے اس دور میں بھی تیل اور اور گیس کی خریداری کے لیے وسطی ایشیا کا رخ نہیں کیا اور نہ ہی معاشی نظام میں کوئی ایسی تبدیلی کی جس سے آئی ایم ایف جیسے اداروں کا اثرو رسوخ ختم ہوتا ہو۔

وہ کہتے ہیں کہ بھٹو نے صرف عربوں کو تیل کی قیمتیں بڑھانے کی ترغیب دی اور اسلامی سربراہی کانفرنس بلائی جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ امریکہ کے مفادات کو چیلنج کر رہے تھے۔ البتہ اسلامی سربراہی کانفرنس کے ذریعے بنگلہ دیش کی منظوری کے فیصلے پر عوامی ردِ عمل کو قابو میں رکھنے میں بھی مدد لی۔

ضیاالحق اور نوے کی سیاست

ملکی سیاست میں بیرونی مداخلت اور سازشوں کی بازگشت ایک بار پھر اس وقت سنائی دی جب 1980 کی دہائی میں اس وقت کے آرمی چیف اور صدرجنرل ضیاالحق کا طیارہ حادثے کا شکار ہوا۔

ڈاکٹر محمد رضا کاظمی کا کہنا ہے کہ سازشی نظریات کے زیرِ اثر ضیا الحق کے طیارے کو پیش آنے والے حادثے کے پیچھے بھی بیرونی ہاتھ تلاش کیا جاتا ہے۔ لیکن ان کے بقول ضیاالحق نے تو سوویت یونین کو طورخم پر روک دیا تھا۔ اس لیے یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ مغرب انہیں راستے سے کیوں ہٹاتا۔

ضیا الحق کے بعد 1989 میں بے نظیر حکومت کے خلاف آنے والی عدم اعتماد کی تحریک پر انہوں نے اپنی خود نوشت میں یہ الزام عائد کیا تھا کہ اس کے لیے اپوزیشن کو اسامہ بن لادن نے سرمایہ فراہم کیا تھا۔

لیکن بعدازاں انہوں نے اپنے خلاف اپوزیشن کی قیادت کرنے والے مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کے ساتھ میثاقِ جمہوریت کا معاہدہ بھی کیا اور آج یہ دونوں جماعتیں متحدہ اپوزیشن میں شامل ہیں۔

سینئر صحافی نصرت جاوید کے مطابق نوے کی دہائی میں پاکستان کے سیاسی بیانیے میں بے نظیر کو سیکیورٹی تھریٹ بنا کر پیش کیا گیا۔ ان پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے سکھوں کی فہرستیں بھارت کے حوالے کیں اور وہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں سے دستبردار ہورہی ہیں۔

سن 2011 میں میمو گیٹ کے اسکینڈل میں بھی ایک بار پھر پاکستان کی اندرونی سیاست میں امریکہ سے مدد طلب کرنے کے الزامات سامنے آئے۔ نصرت جاوید کے مطابق یہ معاملہ اس لیے مختلف تھا کہ اس میں پیپلز پارٹی کی حکومت پر فوج کے خلاف امریکہ سے مدد طلب کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

میمو گیٹ اسکینڈل میں اس وقت کے صدر آصف زداری اور امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کے نام لیے گئے تھے۔ اس کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا گیا تھا اور اس وقت مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف بھی اس کمیشن کے سامنے پیش ہوئے تھے۔ تاہم یہ تنازع بھی الزامات تک ہی محدود رہا تھا۔

عالمی حالات اور بیرونی اثرات

ڈاکٹر ناظر محمود کا کہنا ہے کہ دنیا میں اپنے مفادات کے لیے حکومتوں کی تبدیلی یا سیاست پر اثر انداز ہونے کی کوششیں صرف پاکستان سے مخصوص نہیں ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ کوئی بھی سیاست دان اپنی حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے کسی دشمن کو ضرور سامنے رکھتا ہے۔ امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے بھی اسی طرز کی سیاست کی ہے جس میں کوئی سیاست دان کسی بیرونی دشمن یا اپنے خلاف سازش کا بیانیہ تشکیل دے کر اپنی خامیوں پر پردہ ڈالتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سیاست دانوں پر بھارت کے علاوہ ایک دور میں روس سے مدد لینے کے الزامات بھی عائد کیے گئے لیکن کیوں کہ سوویت یونین سے براہ راست مقابلے کا کوئی امکان نہیں تھا اس لیے یہ بیانیہ زیادہ نہیں چلا۔

وہ کہتے ہیں کہ سوویت یونین کے دور میں بھی پاکستان کی سیاست پر براہ راست اثرا انداز ہونے کی کوشش کی گئی لیکن اس کی نوعیت محدود ہی رہی۔ ماسکو براہِ راست سرمایہ تو نہیں لگاتا تھا لیکن مالی معاونت کے لیے بائیں بازو کے کچھ لیڈر ز کو روسی ساختہ ٹی وی کے درآمدی پرمٹ دے دیا کرتا تھا۔

حسین نقی کے مطابق 1980 کی دہائی میں ضیاالحق کے دور میں سعودی عرب اور ایران کی پاکستان کی سیاست میں اثر انداز ہونے کی کوششیں بھی سیاسی بیان بازی کا حصہ بنیں۔

سرمایہ کاری اور کاروباری مفادات بھی کسی ملک میں فیصلہ سازی پر اثر انداز ہونے والے عوامل ہوسکتے ہیں۔ اس بارے میں دفاعی تجزیہ کار اکرام سہگل کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سیاسی حالات کو جب عالمی تناظر میں دیکھا جاتا ہے تو اسے صرف پاکستان چین اقتصادی راہ داری کی حد تک محدود نہیں رکھناچاہیے۔ پاکستان بھارت سے وسطی ایشیا تک جانے والے شمال جنوبی کوریڈور کا حصہ بھی ہے اور آر سی ڈی کا بھی جس کی وجہ سے اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔

ان کا کہناہے کہ اپنی اسٹریٹجک اہمیت اور جغرافیے کی وجہ سے پاکستان جیسے ممالک میں حکومت کی تبدیلیوں کے لیے بیرونی طاقتوں کے اثر انداز ہونے یا مداخلت کو کبھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔

یہ کہانی دہرائی کیوں جاتی ہے؟

حسین نقی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بیرونی سیاسی مداخلت کے بیانیے بار بار سامنے آنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی ادارے مستحکم نہیں ہوسکے ہیں۔ اس لیے بار بار ہم ایک جیسے حالات کا سامنا کرتے ہیں۔

جب کہ ڈاکٹر محمد رضا کاظمی کاکہنا ہے کہ جب تک کوئی ملک معاشی خود انحصاری حاصل نہیں کرتا وہ اپنے اندرونی معاملات میں بیرونی اثر و رسوخ سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔

ان کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں ’اسفیئر آف انفلوئنس‘ (حلقۂ اثر) کا تصور موجود ہے جو سیاست پر اثر انداز ہوتا ہے۔

ڈاکٹر محمد رضا کاظمی کا کہنا ہے انسانی حقوق کی صورتِ حال، جمہوریت اور عالمی حالات سے جڑے کسی معاملے پر کسی دوسرے ملک کے اظہارِ تشویش کو بھی سیاسی مداخلت قرار دیا جاتا ہے جو کہ درست نہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ یوکرین کے معاملے پر اگر امریکہ یا کسی اور کو کسی دوسرے ملک کی پالیسی پر تحفظات ہوں گے تو وہ اثراانداز ہونے کی کوشش کرے گا کیوں جس دنیا میں ہم رہتے ہیں وہ ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔

تاہم ان کے مطابق عمران خان کا دورۂ روس ایسا بڑا اقدام معلوم نہیں ہوتا جس کی وجہ سے کوئی بیرونی مداخلت کی جائے۔

ان کا کہنا ہے کہ عالمی حالات جو بھی ہوں یہ بات اہمیت رکھتی ہے کہ کسی ملک میں کوئی مداخلت اسی وقت ممکن ہے جب مقامی سطح پر اس کے لیے حالات ساز گار ہوں۔

ڈاکٹر ناظر محمود کا کہنا ہے کہ عام طور پر حکمران اپنی سیاسی غلطیوں یا خامیوں کو چھپانے کے لیے کوئی نہ کوئی قربانی کا بکرا تو تلاش کرتے ہی ہیں۔ ہمارے ہاں اس میں زیادہ تر کسی غیر ملکی قوت کا نام لے لیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ بیرونی اثرات سے زیادہ وہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کو سیاسی تبدیلیوں اور اتار چڑھاؤ کا اصل محرک سمجھتے ہیں۔

سیکیورٹی امور کے ماہر اکرام سہگل کے نزدیک پاکستان اپنی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے ایک ’پیوٹ اسٹیٹ‘ ہے۔ کسی بھی تبدیلی کی صورت میں اس کی اہمیت برقرار رہتی ہے اس لیے دنیا ہم سے لاتعلق نہیں ہوسکتی۔