مصنوعی ذہانت نسل انسانی کو تباہ و برباد کر سکتی ہے؟

مصنوعی ذہانت نسل انسانی کو تباہ و برباد کر سکتی ہے؟

مائیکروسافٹ ،گوگل ایگزیکٹوز ، سائنسدانوں اور ٹیک انڈسٹری کے رہنماؤں نے مصنوعی ذہانت سے بنی نوع انسان کو لاحق خطرات کے بارے میں ایک وارننگ جاری کی ہے۔ جس میں کہا گیا کہ AI یا مصنوعی ذہانت سے انسانی بقا ، وبائی امراض اور جوہری جنگ جیسے سماجی سطح کے خطرات پیدا ہو سکتے ہیں جنہیں کم کرنا عالمی ترجیح ہونی چاہیے۔

30مئی کو سان فرانسسکو میں قائم ایک غیر سرکاری مرکز ،سنٹر فار اے آئی سیفٹی کی ویب سائٹ پر یہ اوپن لیٹر پوسٹ کیا گیا ۔ خط میں دنیا بھر کے ملکوں سے اس ترقی پذیر ٹیکنالوجی کے قواعدو ضوابط طے کرنےکا مطالبہ کیا گیا ہے۔

یورپی یونین نے بھی اس سال کے آخر تک مصنوعی ذہانت ک کے لئے قانون سازی کی امید ظاہر کی ہے جس میں اس کے استعمال سے متعلق ضابطے طے کیے جائیں گے۔

اے آئی سیفٹی سینٹر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈین ہینڈریکس کا کہنا ہے کہ” مختلف شعبوں سے منسلک تقریباً تمام اعلیٰ یونیورسٹیوں کے بہت سے لوگ اس خطرے سے آگاہ بھی ہیں اورتشویش کا شکار بھی ۔وہ سمجھتے ہیں کہ اس پر پیش رفت کو کچھ عرصے کے لیےروک دینا اور اس سے متعلق قواعد و ضوابط طے کرنا عالمی ترجیح ہونی چاہیے۔”

مصنوعی ذہانت، فائل فوٹو
مصنوعی ذہانت، فائل فوٹو

1,000 سے زیادہ محققین اور تکنیکی ماہرین نے اس سال کے شروع میں ایک طویل خط پر دستخط کیے تھے جس میں اے آئی کے فروغ پر چھ ماہ کےلیے وقفے کا مطالبہ کیا گیا تھا اورکہا گیا تھا کہ معاشرے اور انسانیت پر اس کے شدید منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، اس طویل خط پر دستخط کرنے والوں میں ایلون مسک بھی شامل تھے، جو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹویٹر اور سپیس ایکس جیسی کمپنیوں کے مالک ہیں۔

یہ خط ،Open AI کی جانب سے اس کے نئے ماڈلChatGPT-4 کی ریلیز کے ردعمل میں سامنے آیا تھا لیکن اوپن اے آئی کے لیڈرز، اس کے پارٹنر مائیکروسافٹ اور حریف گوگل کے رہنماؤں نے اس پر دستخط نہیں کیےتھے اور اے آئی سے متعلق سرگرمیوں کو کچھ عرصے کے لیے روکنے کے مطالبے کو بھی مسترد کر دیا۔

خط پر ایٹمی سائنس، وبائی امراض اور موسمیاتی تبدیلی کے ماہرین نے بھی دستخط کیے ہیں جن میں مصنف بل میک کیبن بھی شامل ہیں، جنہوں نے اپنی 1989میں شائع ہونے والی کتاب “دی اینڈ آف نیچر” میں گلوبل وارمنگ کے خطرے سے آگاہ کیا تھا

کیمبرج یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈیوڈ کروگر کا کہنا ہے وہ کسی خاص قسم کے خطرے کی بات نہیں کرنا چاہتے کیونکہ اس سے کئی طرح کے خطرات ہو سکتے ہیں ان میں ایک مسئلہ انسان کی بقا کا بھی ہے خاص طور سےاس وقت جب مصنوعی ذہانت کے سسٹمز قابو سے باہر ہو جائیں ۔

مصنوعی ذہانت کے ممکنہ خطرات ہیں کیا ؟

AI سے انسان اور اس کی بقا کو درپیش جن بہت سے چیلنجز اور خطرات پر بات ہو رہی ہے ۔ان میں نوکریوں سے لے کر سیکیورٹی ،شفافیت اور پرائیویسی جیسے مسائل سرفہرست ہیں ۔

امریکن جریدے فوربز میں شائع ہونے والے ایک آرٹیکل کے مطابق مصنوعی ذہانت کے سسٹم میں شفافیت کا فقدان ایک اہم مسئلہ ہو سکتا ہے جو نادانستگی میں معاشرے میں موجود تعصب کو بڑھا سکتا ہے۔اے آئی ٹیکنالوجیز اکثر ذاتی ڈیٹا جمع کرتی ہیں اور اس کا تجزیہ کرتی ہیں، جس سے ڈیٹا کی رازداری اور سیکیورٹی سے متعلق مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

جیسے جیسےاے آئی ٹیکنالوجیز ترقی کرتی جا رہی ہیں ان کے استعمال سے وابستہ سیکیورٹی کے خطرات اور غلط استعمال کے امکانات بھی بڑھ رہے ہیں اورہیکرز اس کے سسٹم میں موجود کمزوریوں کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔اے آئی سے چلنے والے خودکار ہتھیاروں کے استعمال میں اضافہ بھی اس ٹیکنالوجی کے خطرات میں شامل ہے اور تشویش پیدا کر رہا ہے۔

اے آئی کے سسٹم پر حد سے زیادہ انحصار انسان کی تخلیقی صلاحیتوں،اورتنقیدی سوچ کو منفی طور پر متاثر کر سکتا ہے اور اس سسٹم سے چلنے والی مختلف صنعتوں میں اور خاص طور پر کم ہنر مند کارکنوں کی ملازمت کے نقصان کا باعث ہو سکتا ہے۔

اور یہ دولت مند افراد اور کارپوریشنوں کو غیر متناسب فائدہ پہنچا کر معاشی عدم مساوات پیدا کر سکتی ہے۔ اور ہمدردی،سوشل اسکلز اور انسانی روابط میں کمی کا باعث بن سکتا ہے اور اس سے غلط معلومات کے پھیلنے کا اندیشہ بھی بڑھ جاتا ہے اور اے آئی کے سسٹم ،اپنی پیچیدگی اور انسانی نگرانی نہ ہونے کی وجہ سے غیر متوقع طرز عمل کا مظاہرہ کر سکتے ہیں جس کے نتیجے میں ایسے نتائج برآمد ہو سکتے ہیں جو مجموعی طور پر افراد، کاروبار یا معاشرے پر

منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔

مصنوعی جنرل انٹیلی جنس یا اے جی آئی کی ترقی جو انسانی ذہانت کو پیچھے چھوڑتی ہے انسانیت کی بقا کے لیے طویل مدتی خدشات جنم دیتی ہے اور انسانیت کے لیے غیر ارادی طور پر تباہ کن نتائج کا باعث ہو سکتی ہے کیونکہ یہ جدید ترین اے آئی نظام ،انسانی اقدار اور ترجیحات سے ہم آہنگ نہیں ہو سکتے ۔

اوپن اے آئی کے سی ای او،سیم آلٹ مین عالمی دورے پر ہیں، انہوں نے پانچ مئی کواسرائیل کے شہر تل ابیب کے ایک ٹیک پاور ہاؤس کے دورے کے دوران کہا ہے کہ عالمی رہنماؤں کی طرف سے مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کے ممکنہ خطرات پر قابو پانے کی خواہش، حوصلہ افزا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ “ٹیکنالوجی سے درپیش خطرات کو کم کرنے کے لیے ہمیں غوروفکر،بھر پور توجہ اور جلد ٹھوس اقدامات اٹھانے ہوں گے تاکہ اس سے بھر پور فائدہ اٹھایا جا سکے۔

دوسری جانب یورپی کمیشن کی نائب سربراہ ویرا جورووانے تجویز دی ہےکہ جعلی معلومات سے نمٹنے کے لیے ،مصنوعی ذہانت کے ٹولز جیسے ChatGPT اور Bard کے ذریعے تخلیق کئے گئے مواد کو واضح طور پر لیبل کیا جائے اور ان کی واضح نشاندہی کی جائے ۔

اُن کے مطابق، گوگل، مائیکروسافٹ اور میٹا جیسی کمپنیوں نے غلط معلومات سے نمٹنے کے لیے EU کوڈ آف پریکٹس پر دستخط کیے ہیں،لہذا انہیں متعلقہ حفاظتی اقدامات کی اطلاع دینی چاہیے ۔

لیکن تاریخ میں سب سے تیزی سے پھیلنے والی ایپلی کیشن ChatGPT نے ٹیک کمپنیوں کے درمیان جنریٹیو AI مصنوعات مارکیٹ میں لانے کی ایسی دوڑ شروع کر دی ہے جو کہیں تھمتی نظر نہیں آ رہی ۔