اگر انسان روشنی کی رفتار سے سفر کرے تو کیا ہوگا؟

اگر انسان روشنی کی رفتار سے سفر کرے تو کیا ہوگا؟

کائنات میں سب سے زیادہ رفتار سے سفر روشنی کرتی ہے جس کی رفتار ایک لاکھ 86 ہزار میل فی سیکنڈ ہے اگر یہ رفتار انسان کے پاس آ جائے تو کیا ہوگا؟

جیسے جیسے زمانہ تیزی سے ترقی کر رہا ہے ویسے ویسے ہی ہمارے اردگرد تیز رفتار چیزیں وجود میں آ رہی ہیں۔ عام گاڑیوں کے بعد بلٹ ٹرین، الٹرا فاسٹ سپر سونک طیارے تو پرانی بات ہوگئی اب تو حضرت انسان ہائپر لوپ اور ویکٹرین بنانے کی کوشش کر رہا ہے جو اس وقت موجود تیز ترین ہوائی جہاز سے بھی زیادہ سرعت رفتار ہوں گے۔

لیکن انسان کتنی ہی ترقی کر لے روشنی کی حد رفتار تک اپنی ایجادات کو نہیں لے جا سکتا تاہم کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو سوچتے یہں کہ اگر انسان خود روشنی کی رفتار سے سفر کرے تو کیا ہوگا۔

اب تک کی تحقیق کے مطابق تو انسان روشنی کی رفتار سے سفر نہیں کرسکتا اور اگر کر بھی لے تو زندہ نہیں رہ سکتا تاہم اگر آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت کو لیا جائے تو خود کو روشنی کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے تصور کرنا کوئی حرج کی بات نہیں۔

گزشتہ صدی کے عظیم سائنسدان آئن اسٹائن نے نظریہ اضافیت پیش کیا تھا جس میں انہوں نے توانائی کی مساوات کو ثابت کرتے ہوئے کہا تھا کہ کمیت اور توانائی ایک دوسرے میں تبدیل ہو سکتے ہیں اور اس نظریے کے تحت اگر کوئی بھی شے روشنی کی رفتار سے سفر کرے تو اس کے جسم کا اندرونی وزن تیزی سے بڑھ جائے گا اور کمیت لامحدود ہو جاتی ہے۔

اسی فرضی خاکے کو اگر زمین سے مریخ تک سفر پر لاگو کر کے دیکھیں تو روشنی کی رفتار سے انسان کو زمین سے مریخ جانے اور واپس آنے میں تقریباً 16 منٹ اور 40 سیکنڈ لگیں گے لیکن یہ وقت زمین پر موجود آپ کے سفر کا مشاہدہ کرنے والوں کے لیے ہوگا آپ تو یہ سفر صرف 8 منٹ 20 سیکنڈز میں طے کر لیں گے۔

ایک ہی عمل میں وقت کا اتنا فرق کیوں؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ روشنی کی رفتار سے سفر کے دوران وقت کا دائرہ کار بڑھ جاتا ہے یعنی آپ جتنی تیزی سے سفر کریں گے وقت آپ کے لیے اتنا ہی سست ہوتا جائے گا اور اسی تناظر میں سفر کرنے والے کی عمر میں اضافے کا عمل بھی سست ہو جائے گا۔