ڈارون کی دو نوٹ بکس کی پراسرار گمشدگی کے 20 سال بعد حیران کن واپسی

ڈارون کی دو نوٹ بکس کی پراسرار گمشدگی کے 20 سال بعد حیران کن واپسی

معروف اور متنازع نظریہ ارتقا پیش کرنے والے برطانوی سائنس دان چارلس ڈارون کی وہ دو گم شدہ کاپیاں مل گئی ہیں جن میں انہوں نے قلم سے اپنے نظریات تحریر کیے تھے اور اپنے نظریہ ارتقا کا خاکہ بنایا تھا۔

ان کی یہ دونوں قلمی نوٹ بکس 20 سال قبل 2001 میں کیمبرج یونیورسٹی کی لائبریری سے اس وقت لاپتہ ہو گئی تھیں جب ان کی تصویریں بنانے کے لیے الماری سے نکالا گیا تھا۔ شروع میں یہ خیال ظاہر کیا گیا کہ یہ دونوں قلمی نسخے، لائبریری میں ہی کہیں ادھر اُدھر ہو گئے ہیں اور ان کی تلاش شروع کر دی گئی۔ ایک ایسی لائبریری میں جہاں کتابوں، قلمی نسخوں اور نقشوں کا ذخیرہ ایک کروڑ کے لگ بھگ ہو، وہاں، نوٹس لینے والی دو کاپیوں کا ڈھونڈنا بھوسے کے ڈھیر میں سوئی تلاش کرنے کے مترادف تھا۔

طویل اور ان تھک کوششوں کے باوجود ان کا کوئی کھوج نہ مل سکا جس کے بعد پولیس کے پاس چوری کی رپورٹ درج کروا دی گئی۔

پولیس نے ڈارون کے ہاتھ کی لکھی ہوئی کاپیوں کی اہمیت اور حساسیت کے پیش نظر دنیا بھر میں جرائم کا کھوج لگانے والے ادارے انٹرپول سے بھی اپنی تحقیق میں مدد کی درخواست کی اور تلاش کا دائرہ وسیع تر کر د یا گیا۔ دو عشرے گزر جانے کے باوجود ان کا، جس کی قیمت کا تخمینہ لاکھوں ڈالر میں ہے، سراغ نہیں مل سکا۔

چارلس ڈارون کی نوٹ بک میں ان کے ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریر۔ یہ نوٹ بک 20 سال گم رہنے کے بعد حال ہی میں کیمبرج یونیورسٹی لائبریری کو واپس ملی ہے۔
چارلس ڈارون کی نوٹ بک میں ان کے ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریر۔ یہ نوٹ بک 20 سال گم رہنے کے بعد حال ہی میں کیمبرج یونیورسٹی لائبریری کو واپس ملی ہے۔

ان دونوں کاپیوں یا نوٹ بکس کی اہمیت اس لیے بھی اہم ہے کہ ان میں پہلی بار ارتقا اور تخلیق کے اس نظریے کی بنت ہوئی جس نے پوری دنیا میں تہلکا مچا دیا۔ اسے قبول بھی کیا گیا اور اسے شدید تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اس نظریے میں کہا گیا تھا کہ حیات کی اقسام کے ارتقا میں ایک تسلسل ہے اور یہ کہ بندر کی ارتقائی شکل انسان ہے۔

چارلس ڈارون نے اپنے اس نظریے کی بنیاد 1931 میں دنیا کے بحری سفر کے دوران رکھی۔ انہوں نے یہ سفر ایچ ایم ایس بیگل نامی ایک بڑے بادبانی بحری جہاز پر کیا جس کا مقصد دنیا بھر سے حیات کی مختلف اقسام کا جائزہ لینا اور ان پر تحقیق کرنا تھا۔ اس وقت ڈارون کی عمر 22 سال تھی اور انہوں نے یونیورسٹی سے تازہ تازہ ڈگری لی تھی۔ یہ سفر پانچ سال کے بعد اکتوبر 1836 میں ختم ہوا جس کا زیادہ تر عرصہ انہوں نےمختلف براعظوں میں خشکی پر تحقیق کرتے ہوئے جب کہ 18 ماہ سمندر میں جہاز پر گزارا۔

اس سفر کے دوران وہ اپنے تحقیقی مضامین اشاعت کے لیے بھیجتے رہے۔ سفر کے آغاز پر کم ہی لوگ ڈارون کے نام سے آشنا تھے، لیکن جب پانچ سال کے بعد جب وہ اپنے وطن لوٹے تو ایک بڑے سائنس دان کے طور پر مشہور ہو چکے تھے۔

برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی میں ڈارون کا ایک شعبہ موجود ہے۔ اس کے علاوہ وہاں نیوٹن اور اس صدی کے مشہور سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ کے شعبے بھی ہیں، میں ان کی تحقیق اور شخصیت کے بارے میں بہت سسا مواد محفوظ ہے۔ تاہم ان دو اہم نوٹ بکس کی گمشدگی سے ڈارون پر تحقیق کرنے والوں کے لیے مشکلات میں کچھ اضافہ ہو گیا تھا۔

پولیس اور انٹرپول تو نوٹ بکس کا کھوج نہ لگا سکے، لیکن 9 مارچ کو لائبریرین کو گلابی رنگ کا ایک پیکٹ ملا۔ جب اسے کھولا گیا تو اس میں ایک ڈبے کے اندر پلاسٹک میں محفوظ کی ہوئی دو کاپیاں اور ایک خط موجود تھا۔ خط پر لائبریرین کو ایسٹر کی مبارک باد دی گئی تھی۔

ڈارون کی قلمی نوٹ بک اور وہ پیکٹ جس یں اسے واپس بھیجا گیا۔ کیمبرج یونیورسٹی لائبریری کی ڈائریکٹر جیسکا گارڈںر نوٹ بک کے ساتھ۔ 5 اپریل 2022
ڈارون کی قلمی نوٹ بک اور وہ پیکٹ جس یں اسے واپس بھیجا گیا۔ کیمبرج یونیورسٹی لائبریری کی ڈائریکٹر جیسکا گارڈںر نوٹ بک کے ساتھ۔ 5 اپریل 2022

20 برس تک یہ نوٹ بکس کہاں رہیں، کوئی بھی نہیں جانتا۔ تاہم اسے لوٹانے والا ایک ایسا فرد تھا جسے یہ معلوم تھا کہ لائبریری کے سیکیورٹی کیمرے کہاں کہاں نصب ہیں اور کون سے گوشے ایسے ہیں جونگرانی کرنے والے کیمروں کی گرفت میں نہیں آتے۔ نوٹ بکس کا پیکٹ ایک ایسی جگہ رکھاگیاتھا جو کیمروں کی آنکھ سے اوجھل تھا۔ اس لیے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اسے کون وہاں لایا، کب لایا اور کس راستے سے لوٹ گیا۔

چوری ہونے والی نوٹ بکس تو مل گئی ہیں لیکن پولیس کا کہنا ہے کہ اس کی تحقیقات ابھی جاری ہیں اور اب وہ اس پہلو پر اپنی تفتیش جاری رکھے گی کہ یہ دونوں کاپیاں 20 برسوں تک کس کی تحویل میں رہیں اور کون اسے واپس کرنے آیا۔ پولیس نے ایک بار پھر لوگوں سے درخواست کی ہے کہ ان کے پاس اس بارے میں اگر کچھ معلومات ہوں تو محکمے کو آگاہ کریں۔

کیمبرج یونیورسٹی کی لائبریری کی ڈائریکٹر جیسکا گارڈنر کا کہنا ہے کہ نوٹ بکس کے ملنے پر ان کے جو جذبات ہیں، انہیں کسی بھی طرح الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔