جی20: بڑی معاشی طاقتوں کا اتحاد کیسے بنا؟

جی20: بڑی معاشی طاقتوں کا اتحاد کیسے بنا؟

بھارت میں نو اور دس ستمبر کو شیڈول جی20 اجلاس کے لیے بھرپور تیاریاں کی جا رہی ہیں اور عالمی رہنماؤں کی آمد سے قبل دارالحکومت نئی دہلی کی انتظامیہ سخت سیکیورٹی اقدامات میں مصروف ہے۔

بھارت کی میزبانی میں ہونے والے اس اجلاس کی تھیم ’پوری دنیا ایک کنبہ ہے‘ رکھی گئی ہے۔ اجلاس میں امریکہ کے صدر جو بائیڈن سمیت پندرہ سے زائد ملکوں کے رہنما شریک ہوں گے ۔ تاہم چین اور روس کے صدور نے کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

جی ٹوئنٹی ممالک کی تنظیم کے رکن ممالک کون ہیں اور یہ تنظیم کرتی کیا ہے؟ اس بارے میں جاننے سے قبل یہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ اس تنظیم کی بنیاد کس طرح پڑی تھی۔

جولائی 1997 میں تھائی لینڈ سے شروع ہونے والے معاشی بحران نے رفتہ رفتہ پورے ایشیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ اس بحران نے مقامی کرنسی میں تیز ترین گراوٹ، بڑھتے ہوئے کرنٹ خسارے اور بیرونی قرضوں جیسے مسائل سے جنم لیا تھا۔

مستقبل میں ایسے کسی بحران کی پیش بندی کرنے کے لیے 1999 میں ایک غیر رسمی فورم کا آغاز ہوا جس میں ابتدائی طور پر صرف وزرائے خزانہ اور مرکزی بینکس کے گورنر شریک ہوئے تھے۔

اس فورم کے شرکا کے نمائندوں کی تعداد 20 تھی جن میں 19 ممالک اور یورپی یونین شامل تھے۔ بعدازاں اسی فورم کو جی ٹوئنٹی کا نام دیا گیا جسے آج دنیا میں معاشی تعاون اور عالمی سطح پر اقتصادی پالیسی سازی کے لیے اہم ترین فورمز میں شمار کیا جاتا ہے۔

آغاز میں جی ٹوئنٹی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا کرتا تھا تاہم 2008 کے عالمی معاشی بحران کے بعد رکن ممالک کے سربراہوں کا اجلاس منعقد ہونے لگا ہے۔

جی ٹوئنٹی کے ارکان

امریکہچینبرطانیہفرانس
جرمنیاٹلیآسٹریلیاکینیڈا
بھارتروسسعودی عربانڈونیشیا
جاپانجنوبی کوریامیکسیکوجنوبی افریقہ
ترکیہارجنٹائنبرازیلیورپی یونین

جی ٹوئنٹی اہم کیوں ہے؟

جی ٹوئنٹی کے ارکان دنیا کی مجموعی پیداوار یا جی ڈی پی کا 85 فی صد رکھتے ہیں۔ عالمی تجارت میں ان ممالک کا حصہ 75 فی صد ہے اور دنیا کی تقریباً دو تہائی آبادی جی ٹوئنٹی ممالک میں بستی ہے۔

امریکی تھنک ٹینک ’کونسل آن فورن ریلیشنز ‘(سی ایف آر) کے مطابق 2008 کے عالمی معاشی بحران کے دوران جی ٹوئنٹی نے بروقت اقدامات کر ذریعے تیزی سے گرتے ہوئے عالمی مالیاتی نظام کو سہارا دیا تھا۔

سی ایف آر کے مطابق 2008 اور 2009 میں جی ٹوئنٹی کے ارکان نے معاشی بحالی کے لیے 40 کھرب ڈالر کے اقدامات کیے۔ اس کے علاوہ کئی تجارتی پابندیوں کو ختم کیا اور مالیاتی نظام میں کئی اصلاحات متعارف کرائیں۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ جی ٹوئنٹی کو ارکان ممالک کی ایک دوسرے سے ہم آہنگ مالیاتی اور اقتصادی پالیسی سازی، زیادہ شرحِ ترقی، کرپشن اور ٹیکس چوری کے خاتمے جیسے اہداف حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا رہا ہے۔

سی ایف آر کے مطابق بعض ماہرین کا خیال ہے کہ جی ٹوئنٹی میں جی سیون جیسے گروپس کی بنسبت جغرافیائی اور معاشی اعتبار سے نمائندگی میں توازن پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی ماہرین نے 2019 میں کرونا وبا سے مقابلے کے لیے جی ٹوئنٹی کو زیادہ مؤثر پلیٹ فورم قرار دیا تھا۔

جی ٹوئنٹی کے اندر مختلف گروپس

جی ٹوئنٹی گروپ کا کوئی مستقل سیکریٹریٹ یا عملہ نہیں ہے۔ گروپ میں شامل ممالک کو خطوں کے اعتبار سے مزید پانچ ذیلی گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے لیکن گروپ ون اور ٹو کو اس سے استثنیٰ حاصل ہے۔

گروپ ون میں آسٹریلیا، کینیڈا، سعودی عرب اور امریکہ شامل ہیں جب کہ گروپ ٹو بھارت، روس، جنوبی افریقہ اور ترکیہ پر مشتمل ہے۔

گروپ تھری میں ارجنٹائن، برازیل اور میکسیکو؛گروپ فور میں فرانس، جرمنی، اٹلی اور برطانیہ؛ گروپ فائیو میں چین، انڈونیشیا، جاپان اور جنوبی کوریا شامل ہیں جب کہ یورپی یونین کسی علاقائی گروپ کا حصہ نہیں ہے۔

ہر سال انہیں گروپس کے حساب سے جی ٹوئںٹی کی صدارت منتقل ہوتی ہے۔ بھارت کے پاس دسمبر 2022 سے جی ٹوئنٹی کی صدارت ہے جو آئندہ برس برازیل کو منتقل ہوجائے گی۔

سائیڈ لائنز پر ہونے والی اہم ملاقاتیں

گزشتہ برسوں میں جی ٹوئنٹی اجلاس کے دوران ہونے والی کئی غیر رسمی ملاقاتیں عالمی سطح پر شہ سرخیوں کا موضوع بنیں۔

سال 2017 میں ہیمبرگ جرمنی میں ہونے والے جی ٹوئںٹی اجلاس میں امریکہ کا صدر منتخب ہونے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ پہلی مرتبہ اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن سے ملے۔ کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی یہ ملاقات جی ٹوئنٹی میں شامل امریکی اتحادیوں کے لیے تشویش کا باعث بنی۔

اسی طرح 2018 میں ٹرمپ چینی ہم منصب شی جن پنگ سے جی ٹوئنٹی اجلاس میں ملے اور دونوں رہنماؤں نے تجارتی ٹیرفس بڑھانے میں تاخیر پر اتفاق کیا۔

بالی میں 2022 میں جی ٹوئنٹی اجلاس میں صدر بائیڈن اور شی جن پنگ کی ملاقات بھی اس اجلاس کی سائیڈ لائنز پر ہونے والے اہم سفارتی رابطوں میں شمار کی جاتی ہے۔

یوکرین جنگ کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال اور امریکہ اور چین کے درمیان جاری مسابقت کے دور میں جی ٹوئنٹی کا اجلاس بھارت میں ہو رہا ہے۔ تاہم اس بار جی ٹوئنٹی کے اجلاس میں روس اور چین کے صدور شریک نہیں ہورہے ہیں۔

ایجنڈے پر کیا ہو گا؟

خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق بھارت کے ایک سالہ دورِ صدارت میں جی ٹوئنٹی میں ترقی پذیر ممالک کے لیے ملٹی لیٹر ل اداروں سے قرضوں کی فراہمی، بین الاقوامی قرضوں کے نظام میں اصلاحات، کرپٹو کرنسی کے لیے ضوابط کی تشکیل اور جغرافیائی و سیاسی تنازعات کے باعث ہونے والی بے یقینی سے خوراک اور توانائی کے تحفظ سے متعلق خدشات جی ٹوئنٹی کے ایجنڈے پر رہے ہیں۔

اس وقت دنیا کو خوراک اور توانائی کے شعبے میں یوکرین پر روس کے حملے کی وجہ سے مسائل کا سامنا ہے تاہم اس معاملے پر جی ٹوئنٹی کی رائے منقسم ہے۔

روس اور چین کا مؤقف ہے کہ یوکرین میں جاری تنازع کی ذمے داری ماسکو پر عائد نہیں ہوتی جب کہ امریکہ، فرانس، کینیڈا سمیت مغربی ممالک کا مؤقف ہے کہ یوکرین پر روس کے حملے کو قابلِ مذمت قرار دیا جائے۔

اس تحریر کے لیے بعض معلومات خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ سے لی گئی ہیں۔