روس کے مقابلے میں یوکرین کے پاس کتنی فوجی قوت ہے؟

روس کے مقابلے میں یوکرین کے پاس کتنی فوجی قوت ہے؟

یوکرین کی افرادی و عسکری قوت روس کے مقابلے میں بہت کم ہے البتہ عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ یوکرین کی فوج روس کی جارحیت کے خلاف مزاحمت اور جانی و مالی نقصان روکنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

خبر رساں ادارے ‘رائٹرز ‘ کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ یوکرین کی فوج 2014 کے مقابلے میں اس وقت زیادہ تربیت یافتہ اور مقابلے کے لیے تیار ہے اور موجودہ حالات میں یوکرین کی فوج ملکی دفاع کے لیے زیادہ پرعزم بھی نظر آتی ہے۔

روس نے 2014 میں یوکرین کے علاقے کرائمیا پر کسی بھی مزاحمت کے بغیر قبضہ کر لیا تھا۔

اعداد و شمار کیا بتاتے ہیں؟

افرادی قوت اور اسلحہ بارود کے اعداد و شمار دیکھے جائیں تو یوکرین عسکری قوت میں روس سے بہت پیچھے نظر آتا ہے۔

روس کو نہ صرف روایتی جنگی سازوسامان میں یوکرین پر برتری حاصل ہے بلکہ وہ اپنی ایٹمی قوت کے اعتبار سے بھی دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔

لندن کے انسٹی ٹیوٹ فور اسٹریٹجک اسٹڈیز (آئی آئی ایس ایس) کی جاری کردہ رپورٹ ’ملٹری بیلنس 22‘ کے مطابق روس کی بری فوج کے اہلکاروں کی تعداد دو لاکھ 80 ہزار ہے جب کہ مجموعی طور پر روس کی مسلح افواج کی تعداد نو لاکھ ہے۔

آئی آئی ایس ایس کے مطابق روس کے پاس 2840 جنگی ٹینک ہیں۔ ٹینکوں کی تعداد کے اعتبار سے روس کے تین ٹینکوں کے مقابلے میں یوکرین کے پاس ایک ٹینک ہے۔

بیش ترعسکری ماہرین کا اندازہ ہے کہ روس نے یوکرین کی سرحد پر ایک لاکھ سے زائد فوج تعینات کی ہے۔ امریکہ کے انٹیلی جنس ادارے اس تعداد کا اندازہ ڈیڑھ لاکھ سے ایک لاکھ 70ہزار تک ظاہر کرچکے ہیں۔ یوکرین کے شمال میں بھی روس کے فوجی دستے جنگی مشقوں کے لیے بیلاروس میں موجود ہیں۔

یوکرین نے گزشتہ کچھ عرصے کے دوران ترجیحی بنیادوں پر اپنی دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ کیا ہے۔ اس نے اپنی عسکری تربیت اور فوجیوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ کیا ہے۔ان اقدامات کے نتیجے میں یوکرین کے مسلح افواج کی افرادی قوت تین لاکھ 61 ہزار تک پہنچ چکی ہے۔

اگرچہ یوکرین نے 2010 سے 2020 کے دوران اپنے دفاعی اخراجات میں اضافہ کیا ہے اور 2020 میں یوکرین کا دفاعی بجٹ 4.3 ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا لیکن یہ روس کے دفاع پر کیے جانے والے مجموعی اخراجات کے دسویں حصے کے برابر ہے۔

عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ جنگی طیاروں اور میزائل حملوں کے خلاف یوکرین کا دفاع کمزور ہے جس کی وجہ سے روسی حملوں سے اس کے بنیادی انفرااسٹرکچر کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ان کے مطابق روس ٹیکنالوجی میں اپنی برتری کی وجہ سے یوکرین کی فوج کے مواصلات کے نظام کو منقطع کرسکتا ہے۔

مطابق یوکرین میں روس کو دوسری عالمی جنگ کے بعد زیادہ تربیت یافتہ اور ٹیکنالوجی سے لیس فوج کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔

یوکرین کی فوجی قوت

یوکرین کی فوج ملک کے مشرقی حصے دونباس میں جنگ کا تجربہ رکھتی ہے جہاں یہ 2014 سے روسی حمایت یافتہ علیحدگی پسند گروپس سے برسرِ پیکار ہے اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔

اس کے علاوہ یوکرین کے پاس محدود فاصلے تک کا فضائی دفاع کرنے والے اور ٹینک شکن ہتھیار بھی موجود ہیں۔ ان ہتھیاروں میں امریکہ کے فراہم کردہ جیولن میزائل بھی شامل ہیں جو روس کی پیش قدمی روکنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔

فوج کے علاوہ یوکرین کی عسکری افرادی قوت میں سرحدی دفاع کے رضا کار یونٹس اور تقریباً نو لاکھ ریزرو فوج بھی شامل ہے۔

یوکرین کی مرد آبادی کی اکثریت بنیادی فوجی تربیت رکھتی ہے اس لیے روس اگر یوکرین کے علاقوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے شدید مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔

سوویت یونین کے خاتمے کے بعد روس نے 1990 کی دہائی میں چیچنیا اور 2008 میں جو جنگیں کی ہیں ان کے مقابلے میں حالیہ چیلنج روس کے لیے زیادہ سنگین ہو سکتا ہے۔

یوکرین کی مدد کون کررہا ہے؟

گزشتہ چند برسوں میں مغربی ممالک نے یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی بڑھائی ہے لیکن کیف اسے ناکافی قرار دیتا ہے۔ امریکہ پہلے ہی اپنی فوج یوکرین بھیجنے کو خارج از امکان قرار دے چکا ہے۔

امریکہ نے یوکرین کو 2014 کے بعد سے اب تک ڈھائی ارب ڈالر کی فوجی امداد فراہم کی ہے جس میں ٹینک شکن جیولن میزائل، ساحلی نگرانی کے لیے کشتیاں، بکتر بند گاڑیاں، اسنائپر رائفلز، ڈرونز، ریڈار سسٹم، نائٹ ویژن اور مواصلات کے آلات بھی شامل ہیں۔

ترکی بھی یوکرین کو بیراکتر ٹی بی 2 ڈرونز فراہم کر چکا ہے۔ یہ ڈرون مشرقی یوکرین میں نصب کیے گئے ہیں جہاں روس کے حمایت یافتہ علیحدگی پسند سرگرم ہیں۔

مختلف رپورٹس کے مطابق برطانیہ نے رواں برس جنوری میں یوکرین کو کم فاصلے تک مار کرنے والے دو ہزار ٹینک شکن میزائل دیے تھے۔

اس کے علاوہ برطانیہ نے اپنے ماہرین کو تربیت کے لیے یوکرین بھی بھیجا تھا۔ برطانیہ نے یوکرین کو سیکسون بکتر بند گاڑیاں بھی فراہم کی ہیں۔

دیگر یورپی ممالک میں اسٹونیا، لٹویااور لتھونیا نے بھی یوکرین کو جیولین اور اسٹرنگر میزائل فراہم کیے ہیں۔ چیک ری پبلک نے بھی توپ خانہ اور اسلحہ بارود فراہم کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔

جرمنی یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی سے انکار کر چکا ہے البتہ وہ یوکرین میں فیلڈ اسپتالوں اور تربیت کے لیے 60 لاکھ ڈالر کی امداد فراہم کر رہا ہے۔

روس کی جنگی حکمتِ عملی کیا ہو گی؟

کئی عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ طویل جنگ اور بھاری نقصانات کے امکان کی وجہ سے روس پوری شدت کے ساتھ یوکرین پر حملہ آور نہیں ہو گا۔

ان کا خیال ہے کہ روس مکمل جنگ اور بڑے شہروں پر قبضے کے بجائے فضائی حملوں اور محدود سطح پر زمینی پیش

قدمی کی حکمتِ عملی اختیار کرے گا۔

ایک مزید آپشن یہ ہو سکتا ہے کہ روس جنوب اور یوکرین کے مشرق میں ڈونباس کی جانب پیش قدمی کرے گا۔ یہ علاقہ پہلے ہی روس کے حمایت یافتہ علیحدگی پسند گروپس کے کنٹرول میں ہے۔ یہ پیش قدمی بحیرہ اسود اور کرائمیا کے درمیان راستے فراہم کرے گی۔

یہ امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ روس یوکرین کے شمال میں بیلاروس میں موجود اپنے فوجی دستوں کو بھی اس کارروائی میں شامل کرسکتا ہے۔

سی ایس آئی ایس کے مطابق شام میں اپنی کارروائیوں کی وجہ سے روس فضائی اور جنگی افواج کے مشترکہ آپریشنز کا وسیع تجربہ رکھتا ہے۔ لیکن موسم کی صورتِ حال، شہری علاقوں میں لڑائی، سازو سامان کی ترسیل سمیت کئی محرکات اس جنگ کی سمت کا تعین کریں گے۔

اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے لی گئی ہیں۔