ارتھ ڈے کے موقعے پر صدر جو بائیڈن نے ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے اپنے ایجنڈے پر زور دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملکی جنگلات کے تحفظ اور جنگلوں میں لگتی آگ جیسے خطرات سے نمٹنے کے لیے مضبوط ارادے کی ضرورت ہے۔
22اپریل کو دنیا بھر میں ارتھ ڈے یا کرہ ارض کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس مرتبہ 52واں ارتھ ڈے منایا گیا ۔ اس سال کا موضوع ہے،” ہم اپنے کرہ ارض میں سرمایہ لگائیں گے۔”
امریکہ میں ” یومِ ارض” یا ارتھ ڈے کی بنیاد اس وقت پڑی جب لوگوں میں اس بارے میں اشتعال بڑھتا گیا کہ سیاسی سطح پر اس بارے میں کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آرہا کہ آلودگی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور ملک بھر میں بڑے پیمانے پر ماحولیاتی انحطاط پیدا ہو چکا ہے۔ دو خاص واقعات ایسے تھے جنہوں نے عام لوگوں کو کچھ کرنے پر راغب کیا۔
ایک وہ جب 1969 کے اوائل میں کیلیفورنیا کے ساحل سے پرے سمندر میں بڑے پیمانے پر تیل پھیل گیا اور دوسرے اسی سال جون میں ریاست اوہائیو کے شہر کلیو لینڈ میں ‘دریائے کاہ یا ہوگا ‘ میں صنعتی فضلہ اتنا بڑھ گیا کہ اس میں آگ لگ گئی۔ اگرچہ یہ کوئی پہلا ایسا واقعہ نہیں تھا مگر یہ حتمی ثابت ہوا۔ اور 1969 میں ‘دریائے کاہ یا ہوگا ‘ میں لگنے والی آگ ملک میں ماحولیاتی آلودگی کی علامت بن گئی۔
ورلڈ اٹلس ڈاٹ کام کے مطابق اس دن کی روایت 1970 میں شروع ہوئی۔ اس کا تصور پہلے پہل جان میکانل نے دیا جو امن کے ایک سرگرم کارکن تھے اور جنہوں نے 1969 میں سان فرانسسکو میں یونیسکو کی ایک کانفرنس میں شرکت کی۔ میکانل نے امن اور کرہ ارض کو خراج کے لیے 21 مارچ کے دن کا اعلان کیا تھا۔ اس کے ایک ماہ بعد ایک امریکی سینیٹر گیلارڈ نیلسن نے جو ماحولیات کے سر گرم کارکن بھی تھے اور سمجھتے تھے کہ اس بارے میں اس وقت تک کچھ نہیں ہوگا جب تک کافی لوگ کھلے بندوں اپنی برہمی کا اظہار نہیں کریں گے۔ انہوں نے 1970 میں پہلی مرتبہ “ارتھ ڈے” یا یومِ ارض کا اہتمام کیا۔بعد میں نیلسن کو صدارتی ،”میڈل آف فریڈم” ایوارڈ بھی دیا گیا۔
اس روز لوگ ماحولیاتی مسائل کے بارے میں آگہی پیدا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں ۔اور اس سال ان کی توجہ گرین توانائی کی جانب منتقلی میں تیزی لانے پر ہے۔
صدر بائیڈن نے کہا،” 50 سال سے زیادہ عرصہ پہلے ایک نسل نے خود کو درپیش ماحولیاتی بحران کے مقابلے کے لیے اجتماعی کوشش کی۔ انہوں نے اس امید پر یہ قدم اٹھایا کہ اقتدار میں موجود لوگ ان کی بات سنیں گے۔”
صدر نے مزید کہا،” آج ایک نئی نسل خطرے کے بارے میں پہلے سے کہیں زیادہ بلند آواز اٹھا رہی ہے تا کہ عالمی لیڈر عملی قدم اٹھائیں۔ یہ ہم سب کے مفاد میں ہے کہ اس چیلنج کا مقابلہ کریں اور یہ وراثت چھوڑ کے جائیں کہ ہم نے عملی کوشش کی۔”
اس دن کو ” انٹرنیشنل مدر ارتھ ڈے” بھی کہا جاتا ہے۔ اس موقعے پر دنیا کے 190 ملکوں میں ایک ارب کے لگ بھگ لوگ مختلف سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں جن میں درخت لگانا، زمین اور پانی میں پھیلے کچرے کو صاف کرنا اوردوسروں کو ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں آگہی دینا شامل ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی میں کمی لانا اب بھی عالمی ماحولیاتی ایجنڈے پر سرِ فہرست ہے۔
واشنگٹن میں قائم “ارتھ ڈے ڈاٹ اورگ” ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے۔ اس کی ویب سائٹ کے مطابق” ہوشیار کمپنیوں کو اندازہ ہو گیا ہے کہ اب ان کے پاس یہ موقع نہیں رہا کہ وہ اس کے علاوہ کچھ انتخاب کریں کہ گرین توانائی استعمال کریں اور طویل المدت فوائد حاصل کریں کیونکہ پائیداری ہی خوشحالی کا راستہ ہے۔
اس کمپنی کی صدر کیتھلین راجرز نے وائس آف امریکہ کی ڈیبرا بلاک سے بات کرتے ہوئے کہا،” اگر آپ ماحولیاتی تبدیلی کا مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں تو دیکھیے پیسہ کہاں ہے کیونکہ پیسہ اب ٹیکنالوجی کے ذریعے مسئلے کا حل ڈھونڈنے اور تحقیق اور ترقی میں لگایا جا رہا ہے اور یہ سب ماحول دوست ہے.
انہوں نے مزید کہا، “ہو سکتا ہے کمپنیاں تیل استعمال نہ کرکے کاربن میں اضافہ نہ کر رہی ہوں مگر وہ فوسل ایندھن استعمال کرکے پلاسٹک تیار کر رہی ہیں جو ماحول کے لیے ایک اور خطرہ ہے۔”
انہوں نے کہا “پلاسٹک کی بنی ہوئی اشیاء مثلاً تھیلے، بوتلیں ڈبے وغیرہ ری سائیکل نہیں کیے جاتے اور زمین میں دفن ہوتے ہیں یا سمندروں میں تیرتے ہوئے نظرتے ہیں۔ اس کے اثرات بہت تباہ کن ہیں۔ جنگلی جانور اکثر اسے چارہ سمجھ کر کھا جاتے ہیں اور تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ پلاسٹک کے بہت چھوٹے ذرات انسانی خون میں بھی پائے گئے ہیں۔”
اس ارتھ ڈے سے پہلے اقوامِ متحدہ کے ماحولیات سے متعلق پینل نے اپریل کے شروع میں اپنی رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا کہ گزشتہ ایک عشرے کے دوران دنیا بھر میں کاربن کے اخراج میں 12% اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اگرچہ صورتِ حال خوش کن نہیں ہے مگر پھر بھی اگر حکومتیں فوراً اقدامات شروع کر دیں تو ماحولیاتی تبدیلی میں کمی کی جاسکتی ہے۔
ڈیرک موگیشا ارتھ ڈے ڈاٹ اورگ کے افریقی امور کے علا قائی ڈائریکٹر ہیں، وہ کہتے ہیں ہر ملک کو ماحولیاتی تبدیلی کا سامنا ہے۔
کرونا سنگھ ارتھ ڈے کی علاقائی ڈائریکٹر برائے ایشیا ہیں۔ انہوں نے کہا،” ایشیا میں کرہ ارض کے درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ہے۔یہ ماحولیاتی تبدیلی کا نتیجہ ہے اور اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ “
بھارت میں فوسل فیول کے استعمال کی آزادی ماحول میں بد ترین فضائی آلودگی کا باعث ہے۔ بھارتی حکومت نے یہ تسلیم کیا ہے کہ صورتِ حال بہت گھمبیر ہے ۔ چنانچہ ایک ایسا نظام وضع کیا گیا ہے کہ جس میں ماہرین ایسی حکمت عملی بیان کریں گے جو اس کا تیز ترین حل پیش کر سکے۔