عدالتی تشریح کا پنجاب پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟

عدالتی تشریح کا پنجاب پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟

عدالتِ عظمٰی کی جانب سے آئین کے آرٹیکل63 اے کی تشریح کے بعد پنجاب میں سیاسی طور پر کشمکش کی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ جس کے بعد نو منتخب وزیراعلٰی پنجاب مشکلات سے دوچار ہو سکتے ہیں۔

عدالتی تشریح کو سیاستدان اپنے اپنے انداز سے لے رہے ہیں۔ دوسری جانب قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ عدالتِ عظمٰی کی تشریح صرف آئین کے آرٹیکل پر عدالتی رائے ہے فیصلہ نہیں ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت پر مختصر تشریح میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر نے کہا کہ منحرف رکن کا دیا گیا ووٹ شمار نہیں کیا جائے، تاحیات نااہلی کا تعین پارلیمنٹ کرے گی، جب کہ جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے فیصلے سے اختلاف کیا۔

عدالت عظمٰی کی تشریح پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کہتے ہیں عدالت عظمٰی کی رائے فیصلے کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس کا اطلاق تمام اداروں پر ہوتا ہے۔

لاہور میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ اب اس فیصلے کا اثر یہ ہے کہ وفاق میں شہباز شریف اور پنجاب میں حمزہ شہباز دونوں اپنی اکثریت کھو چکے ہیں۔ دونوں حکومتیں عملی طور پر آج ختم ہوگئی ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما عطااللہ تارڑ کہتے ہیں کہ حمزہ شہباز وزیر اعلی پنجاب ہیں۔ پنجاب میں حکومت مکمل طور پر فعال ہے مگر کابینہ جتنی جلدی بنے بہتر ہے۔

تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟

تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ عدالتی تشریح کے بعد سب کی نظریں صوبہ پنجاب پر مرتکز ہیں اور بہت حد تک بے یقینی کی سی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار احمد ولید سمجھتے ہیں کہ جب عدالتی تشریح کی تفصیل آئے گی تو بہت سی باتیں واضح ہو جائیں گی۔ اِسی بات کا انتظار حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتیں کر رہی ہیں کہ جب تفصیل سامنے آئے تو وہ اپنا لائحہ عمل واضح کریں گے۔

وائس آف امریکہ سےگفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ عدالت کی مختصر تشریح کے مطابق تو وزیراعلٰی پنجاب حمزہ شہباز نے قائدِ ایوان کے انتخاب میں پاکستان تحریک انصاف کے منحرف ارکان کے جو ووٹ حاصل کیے ہیں وہ شمار نہیں ہوں گے۔ جس کا مطلب ہے کہ حمزہ شہباز وزیراعلٰی پنجاب نہیں رہیں گے۔

اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ موجودہ سیاسی صورتحال میں اگر اسپیکر پنجاب اسمبلی گورنر پنجاب کا عہدہ سنبھال لیتے ہیں اور حمزہ شہباز کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے کہہ دیتے ہیں تو وہ اپنی اکثریت ثابت نہیں کر سکیں گے۔ البتہ یہ دیکھنا ہے کہ کسی بھی ایوان میں ایک مرتبہ اسپیکر یا وزیراعلٰی کے خلاف عدم اعتماد پیش ہونے کی صورت میں یہ دوباہ کب پیش ہو سکتی ہے۔

قانونی ماہرین کیا کہتے ہیں؟

قانونی ماہرین سمجھتے ہیں کہ عدالتِ عظمٰی کی جانب سے آئین کے آرٹیکل کی تشریح ایک فیصلہ نہیں ہے، صرف ایک رائے ہے۔

نامور وکیل اور سابق اٹارنی جنرل آف پاکستان عرفان قادر کے مطابق سب سے پہلے تو یہ سمجھنا ہو گا کہ عدالت کی جانب سے فیصلہ نہیں آیا صرف تشریح کی گئی ہے۔ یہ ایک صدارتی ریفرنس تھا۔ جو اُنہوں نے ایڈوائزیری اختیارات کے تحت سپریم کورٹ کی رائے حاصل کرنے کے لیے بھیجا تھا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ شق 186 کے تحت عدالتی تشریح کو فیصلہ نہیں کہا جا سکتا اور حکومتِ وقت کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ عدالتی رائے کو مانے یا نہ مانے۔ ایک مثال سے سمجھاتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص امریکہ میں بیٹھا اُن سے یہ رائے مانگے کہ پاکستان میں کون سا خطہ زیادہ خوبصورت ہے وادی سوات جایا جائے یا وادی کاغان۔رائے دینے والا وادی کاغان کا کہتا ہے لیکن رائے لینے والا وادی سوات چلا جاتا ہے تو ہر گز رائے لینے والے کو پابند نہیں کیا جا سکتا کہ وہ وادی سوات کیوں چلا گیا۔

اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے عرفان قادر کا کہنا تھا کہ عدالتِ عظمٰی کا کہنا ہے کہ منحرف ارکان کا ووٹ شمار نہیں کیا جائے گا۔ جبکہ آئین میں ایسا لکھا نہیں ہے کہ منحرف ارکان کا ووٹ شمار نہیں کیا جائے گا۔ جس سے یوں لگتا ہے کہ عدالتِ عظمٰی اپنی مشاورتی جورِسڈکشن میں آئین میں ترمیم کر رہی ہے جو کہ وہ نہیں کر سکتی۔ آئین میں ترمیم دو تہائی اکثریت سے صرف ایوان کر سکتا ہے۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور ممتاز قانون دان حامد خان، عرفان قادر کی اِس بات سے تو اتفاق کرتے ہیں کہ یہ عدالتِ عظمٰی کا فیصلہ نہیں بلکہ رائے ہے۔ لیکن اِس کا ماننا فریقین پر ضروری ہوتا ہے۔

وائس آف امریکہ سےگفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ عدالتی رائے ایک ایسے مسئلے پر ہے جو کہ زیرِ التوا ہے۔ جس پر رائے زیرِسماعت ہی آئی ہے۔ جن جماعتوں نےاِس دوران انتخاب کرائے ہیں اُن پر عدالتی رائے کا اطلاق ہوتا ہے۔

حامد خان سمجھتے ہیں کہ منحرف اراکان کے ووٹ شمار کیے جانے یا نہ کیے جانے پر عدالت کی جانب سے واضح رائے پہلی مرتبہ سامنے آئی ہے۔

واضح رہے الیکشن کمیشن آف پاکستان پی ٹی آئی منحرف ارکان پنجاب اسمبلی کے خلاف ریفرنس پر محفوظ فیصلہ18 مئی کو سنائے گا۔

کیا وزیراعلٰی پنجاب کا انتخاب دوبارہ ہو گا؟

سابق اٹارنی جنرل آف پاکستان عرفان قادر کے مطابق عدالتِ عظمٰی کی رائے پنجاب حکومت پر لاگو نہیں ہوتی کیونکہ یہ عدالت کا فیصلہ نہیں ہے یہ صرف تشریح ہے۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ جو منحرف ارکان ہوتے ہیں اُن کی نشست خالی ہو جاتی ہے یعنی وہ آئین کے مطابق ڈی سیٹ ہو جاتے ہیں۔ جس کے خلاف اپیل عدالتِ عظمٰی میں ہوتی ہے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت عدالتی رائے ماننے کی پابند نہیں ہے۔ ہاں اگر وہ سیاسی طور پر فیصلہ کر لیں تو حمزہ شہباز دوبارہ انتخاب میں جا سکتے ہیں۔

سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن حامد خان سمجھتے ہیں کہ حمزہ شہباز کے بطور قائدِ ایوان ہونے والے انتخاب کی اَب کوئی قانونی حیثیت نہیں رہی۔ اصولاً وہ وزیراعلٰی پنجاب نہیں رہے۔ ایسی صورت میں گورنر پنجاب کو چاہیے کہ وہ ایوان کا اجلاس بلائے اور قائدِ ایوان کا انتخاب کرائے۔

سینیر صحافی اور تجزیہ کار احمد ولید کے مطابق اگر حمزہ شہباز اکثریت کھو دیتے ہیں تو پنجاب میں قائدِ ایوان کا انتخاب دوبارہ ہو گا۔ اُنہوں نے کہا کہ آئین کے مطابق اگر ایک رکن اسمبلی منحرف ہوتا ہے تو اُس کی نشست خالی ہو جاتی ہے لیکن عدالتِ عظمٰی کی تشریح کی روشنی میں اُس کا ووٹ شمار نہیں ہو گا۔ جس سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ عدم اعتماد کی آئین میں موجود شق کی وقعت نہیں رہی۔

احمد ولید سمجھتے ہیں کہ عدالتِ عظمٰی کی تشریح کو کچھ لوگ یوں بھی سمجھ رہے ہیں کہ یہ آئین کے بنیادی نکات کے خلاف ہے کیونکہ ہر انسان کا حق ہے کہ وہ اختلاف رکھے۔

اداروں پر اعتماد

سینئر صحافی اور تجزیہ کار احمد ولید کی رائے میں عدلیہ کے فیصلوں پر ہمیشہ سے اعتراضات اُٹھائے جاتے رہے ہیں۔ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے کہ جس فریق کے خلاف عدالت کا فیصلہ آ جاتا ہے تو وہ اُس ادارے پر تنقید شروع کر دیتا ہے۔ اِسی طرح جب فیصلہ حق میں آتا ہے تو تعریف کی جاتی ہے جیسے آج بھی فواد چوہدری نے کہا کہ عدالت کی تشریح ایک اچھا فیصلہ ہے۔

ممتاز قانون دان حامد خان سمجھتے ہیں کہ منحرف ارکان کی تاحیات نااہلی پر عدالت نے واضح رائے نہیں دی۔ اُن کی نااہلی ہو گی یا نہیں ہو گی یا کتنی مدت کے بعد ہو گی۔ عدالت نے تشریح آئین کے آرٹیکل63 اے کی کی ہے۔ جس کے تحت ووٹ شمار نہیں ہو گا، جبکہ آئین کے مطابق ووٹ ڈلنے کے بعد شمار ہوتا ہے۔

صدارتی ریفرنس

خیال رہے21 مارچ کو صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے اُس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان کے مشورے پر آئین کے آرٹیکل 63 اے پر عدالتِ عظمٰی کی رائے طلب کرتے ہوئے صدارتی ریفرنس کی منظوری دی تھی۔