آصف علی زرداری: مسٹر ٹین پرسنٹ کے الزامات سے دوسری بار صدرِ پاکستان بننے تک

آصف علی زرداری: مسٹر ٹین پرسنٹ کے الزامات سے دوسری بار صدرِ پاکستان بننے تک

آصف علی زرداری پاکستان کی تاریخ میں پہلے سیاست دان ہیں جو دوسری مرتبہ صدارت کے منصب تک پہنچے ہیں۔ پاکستان کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم بینظیر بھٹو کے ساتھ شادی سے پہلے آصف زرداری نے 1983 میں نواب شاہ سے ضلع کونسل کا انتخاب لڑا اور ہار گئے۔ سن 1990 کے انتخابات میں آصف زرداری کو اپنے آبائی ضلع نواب شاہ سے قومی اسمبلی کی نشست پر شکست ہوئی لیکن کراچی کے حلقے این اے 189 سے وہ رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ آصف زرداری بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت میں وفاقی وزیر اور چیئرمین انوائرمینٹ پروٹیکشن کونسل مقرر ہوئے۔ آصف زرداری 1997 میں سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ 2018 اور 2024 کے انتخابات میں وہ نواب شاہ سے رکنِ قومی اسمبلی بنے۔

پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹیرین کے چیئرمین آصف علی زرداری دوسری بار پاکستان کے صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ وہ ملک کے 14ویں صدر کی حیثیت سے اتوار کو ذمے داری سنبھالیں گے۔

ہفتے کو صدارتی انتخاب میں آصف زرداری نے نہ صرف بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی بلکہ وہ پاکستان کی تاریخ میں پہلے سیاست دان ہیں جو دوسری مرتبہ صدر منتخب ہو کر ایوانِ صدر پہنچے ہیں۔

صدارتی انتخابات کے لیے ان کا مقابلہ سنی اتحاد کونسل کے صدارتی امیدوار محمود خان اچکزئی سے تھا جو آصف زرداری کے 411 کے مقابلے میں صرف 181 ووٹ حاصل کر سکے۔

آصف زرداری سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر کھلاڑی تصور کیے جاتے ہیں اور اُن کے ناقدین بھی اُن کی مفاہمت اور امکانات کی سیاست میں اپنے لیے راستہ نکالنے کی صلاحیت کے معترف ہیں۔

آٹھ فروری کے عام انتخابات میں اپنی پارٹی کی جیتی گئی نشستوں کی اہمیت کی بنیاد پر آصف زرداری مسلم لیگ (ن) سے مذاکرات کے بعد کئی پارلیمانی عہدے حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔

پیپلز پارٹی نے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی سمیت چیئرمین سینیٹ، خیبر پختونخوا اور پنجاب کی گورنر شپ کے علاوہ صدرِ پاکستان کا عہدہ حاصل کرنے کے لیے مسلم لیگ ن کو رضا مند کیا تھا۔

گمنامی سے ایک بڑی پارٹی کے مقبول سربراہ تک کا سفر

سندھ کے زمیندار حاکم علی زرداری کے بیٹے آصف علی زرداری 26 جولائی 1955 کو نواب شاہ (شہید بینظیر آباد) ڈسٹرکٹ کی تحصیل قاضی احمد میں پیدا ہوئے۔

انہوں نے ابتدائی تعلیم سینٹ پیٹرک اسکول کراچی سے حاصل کی اور گریجویشن کیڈٹ کالج پٹارو سے کیا۔

مصنف یوسف خان اپنی کتاب ‘پاکستانی سیاست دانوں کی قلابازیاں’ میں آصف زرداری کے ابتدائی کریئر کے بارے میں لکھتے ہیں “آصف زرداری کے کریئر کی ابتدا اوسط درجے کے بلڈر کی حیثیت سے ہوئی جو اپنے ساتھیوں کی طرح 1980 کی دہائی کے اوائل میں کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) کے دفتر کے چکر لگاتے تھے۔ آصف زرداری اس دور کے سادہ مزاج بلڈر تھے جو کے ڈی اے کے چپڑاسیوں میں مقبول تھے۔ افسروں کے ساتھ بیٹھ کر دال چاول اور بھنے ہوئے چنے کھاتے تھے۔”

سیاست سے دور آصف زرداری کی زندگی میں ہنڈریڈ ڈگری ٹرن اس وقت آیا جب ان کی منگنی سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بینظیر بھٹو سے ہوئی۔

اس وقت ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی سے اپنی سیاسی راہیں الگ کرنے والے حاکم علی زرداری کے بیٹے آصف علی زرداری کے ساتھ بینظیر بھٹو کی شادی کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

مگر یہ ناممکن کام حاکم علی زرداری کی دوسری اہلیہ نے کیا۔ وہ انگریزی ادب میں پی ایچ ڈی تھیں جن کے بیگم نصرت بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کی ہمشیرہ منور الاسلام سے قریبی تعلقات تھے۔

یوں 17 دسمبر 1987 کو آصف زرداری کی بینظیر بھٹو کے ساتھ شادی ہوگئی۔ نکاح بھٹو خاندان کے نکاح خواں حافظ محمد احمد بھٹو نے پڑھایا۔ بتایا جاتا ہے کہ حق مہر شرعی مقرر کیا گیا جو 52 تولے چاندی کے برابر تھا۔

بینظیر بھٹو کے ساتھ شادی کے بعد آصف زرداری نہ صرف ملکی بلکہ غیر ملکی سطح پر سیاسی حلقوں میں مشہور ہوتے چلے گئے۔

انتخابات میں مسلسل ناکامی

آصف زرداری نے 1983 میں نواب شاہ سے ضلع کونسل کا انتخاب لڑا جس میں انہیں شکست ہوئی۔ سابق فوجی آمر ضیاء الحق کی جانب سے پیپلز پارٹی کو اقتدار سے دور رکھنے کے لیے 1985 میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے گئے تو آصف زرداری نے اپنے والد سمیت انتخابات میں حصہ لیا اور بری طرح ہار گئے۔

سن 1985 کے انتخابات میں آصف زرداری نے نواب شاہ کے صوبائی حلقے پی ایس 22 سے انتخاب لڑا اور صرف 53 ووٹ حاصل کر سکے۔

آصف زرداری نے 1987 میں بینظیر بھٹو کے ساتھ شادی کے بعد 1990 کے انتخابات میں حصہ لیا مگر اپنے آبائی ضلع نواب شاہ سے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 160 سے ہار گئے۔ اس نشست پر غلام مصطفی جتوئی کے بیٹے مرتضی جتوئی 48588 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جب کہ آصف زرداری 44964 ووٹ حاصل کر سکے۔

آصف زرداری 1990 کے انتخابات میں کراچی کے حلقے این اے 189 سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ بعدازاں 1993 کے انتخابات میں این اے 160 نواب شاہ سے قومی اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کی۔

وہ اپنی اہلیہ بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت میں وفاقی وزیر اور چیئرمین انوائرمینٹ پروٹیکشن کونسل مقرر ہوئے۔ وہ نگراں وزیرِ اعظم بلخ شیر مزاری کی کابینہ میں بھی وفاقی وزیر مقرر ہوئے۔

آصف زرداری 1997 میں سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے جس کے بعد 2018 اور 2024 کے انتخابات میں انہوں نے نواب شاہ سے قومی اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کی۔

دسمبر 2007 میں سابق وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد آصف زرداری پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بنے۔ 2008 کے انتخاب کے بعد وہ صدرِ پاکستان منتخب ہوئے اور اب مارچ 2024 کو وہ دوسری بار صدر پاکستان منتخب ہوئے ہیں۔

مسٹر ٹین پرسنٹ، مردِ اوّل سے لے کر صدارتی استثنی تک

آصف علی زرداری نے انیس سو نوے کی دہائی میں طویل جیل کاٹی اور ان کی اہلیہ بے نظیر بھٹو نے اپنی کتاب ‘دختر مشرق’ میں خاوند کے جیل میں قید ایام کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔

سابق صدر غلام اسحاق خان نے بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت کرپشن کے الزامات پر برطرف کی تو آصف علی زرداری کو گرفتار کر لیا گیا جس کے بعد ان پر کرپشن کے الزامات لگائے گئے اور انہیں ‘مسٹر ٹین پرسنٹ’ کا لقب دیا گیا۔۔

بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت بھی کرپشن اور مرتضیٰ بھٹو قتل کیس کے باعث برطرف کی گئی۔ بے نظیر بھٹو کے بھائی مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے الزام میں آصف زرداری گرفتار کر لیے گئے۔

بینظیر کی دونوں حکومتوں کے دوران آصف زرداری کو پاکستان کے پہلے ‘مردِ اوّل’ کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ انہیں ‘گاڈ فادر’ اور ڈی فیکٹو وزیرِ اعظم بھی کہا جاتا رہا۔

تقریباً 14 برس جیل کاٹنے اور جیل میں تشدد برداشت کرنے پر آصف زرداری کو ان کے چاہنے والوں نے ‘مرد حر’ کا لقب بھی دیا۔

آصف زرداری پر دفاعی سامان کی خرید و فروخت اور کرپشن سے حاصل رقم سوئٹرز لینڈ کے بینکوں میں جمع کرانے، فرانس میں شاندار محل بنوانے کے الزامات کے ساتھ ایس جی ایس ریفرنس، فیک اکاؤنٹس، میمو گیٹ اسکینڈل میں ملوث ہونے کے الزامات کے تحت مقدمات دائر کیے گئے۔

ان پر قتل سے لے کر دوسرے بے شمار الزامات لگے اور کئی مقدمات میں وہ عدالتوں سے بری ہوئے اور کئی کیسز اب بھی زیرِ سماعت ہیں۔ صدرِ پاکستان بننے کے بعد کہا جاتا ہے کہ ان کے خلاف آئندہ پانچ برس تک مقدمات میں کارروائی نہیں ہو پائے گئی۔

سادہ زندگی لیکن اربوں کے اثاثے

آصف زرداری کو گھوڑے، اونٹ، اور دوسرےمویشی پالنے کا شوق ہے اور وہ زمینداری بھی کرتے ہیں۔قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے ظاہر کردہ ان کے اثاثوں کے مطابق ان کے پاس 20 گھوڑے، 300 اونٹ، 200 بھینسیں، گائے اور 250 بکریاں ہیں۔

اس کے علاوہ 5658 ایکڑ زرعی زمین بھی انہوں نے اپنے اثاثوں میں ظاہر کی ہے۔ مگر بعض لوگ کہتے ہیں کہ آصف زرداری کی زمین اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔

آصف زرداری کے قریبی دوست ستار کیریو کے مطابق آصف زرداری کھانے میں چکن، مچھلی کھانا پسند نہیں کرتے بلکہ وہ تلی ہوئے بھنڈیاں، مختلف قسم کی دالیں اور دال چاول کھانا پسند کرتے ہیں۔

نو منتخب صدر کے دوستی نبھانے کے حوالے سے کئی قصے اور کہانیاں بھی زبانِ زدِ عام ہیں۔

نواب شاہ کے سینئر صحافی بخش علی جمالی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ اپنے ایک دوست ستار کیریو کی شادی میں شریک تھے جہاں انہوں نے آصف زرداری کو مہمانوں کو ریسیو کرتے ہوئے دیکھا تھا۔

بخش علی جمالی کے مطابق ستار کیریو آصف زرداری کے بچپن کے دوست ہیں جن کے لیے سابق صدر نے سندھ کے بڑے سیاسی گھرانے سے رشتہ بھی مانگا تھا۔

آصف زرداری کے دوست ستار کیریو نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انہوں نے سابق صدر کو زندگی میں سب سے زیادہ پریشان اہلیہ کی موت کے وقت دیکھا تھا۔

دوسری بار صدارت اور درپیش چیلنجز

پاکستان کی تاریخ میں اکثر و بیشتر وفاق میں جس جماعت کی حکومت ہوتی ہے اسی کا صدر بھی منتخب ہوتا رہا ہے۔ ماضی میں جب بھی وفاقی حکومت اور صدرِ پاکستان کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے تو صدر نے اسمبلی توڑ کر حکومت کو گھر بھیجا۔ لیکن اس بار صدر کے پاس آرٹیکل 58.2 بی کے اختیارات نہیں ہیں۔ اس لیے حکومت گھر تو نہیں بھیجی جا سکتی مگر حکومت اور صدر کے درمیان اختلافات ہو جائیں تو صدر آئینی بحران ضرور پیدا کر سکتا ہے۔

ایسے میں یہ خدشہ سامنے آتا ہے کہ اگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے تو پھر کیا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ نو منتخب صدر کے لیے موجودہ حکومتی اتحاد کو اختلافات سے بچا کر چلنا ایک بڑا چیلنج ہے۔

موجودہ سیاسی کشیدگی کو کم کرنا، معاشی حالات بہتر کرنا اور عوام کو ریلیف فراہم کرنا ایسے چیلنجز ہیں جن کے لیے دونوں بڑی جماعتوں کو مل کر کام کرنا ہو گا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور ایوانِ صدر کے سابق ترجمان فرحت اللہ بار کہتے ہیں کہ” وفاق میں ایک پارٹی کی حکومت ہے اور صدر پاکستان کا تعلق دوسری پارٹی سے ہے۔ اس مرتبہ یہ ایک نیا عنصر ہے مگر موجودہ وزیرِ اعظم کی حکومت کا انحصار پیپلز پارٹی پر ہے اس لیے پیپلز پارٹی کو سننا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کو چوتھی بار حکومت کرنے کا موقع ملا ہے اور وہ یہ نہیں چاہے گی کہ وہ ناکام ہو۔