اسرائیل اور اس کے پڑوسی ملکوں کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری کشیدگی کا ایک جائزہ

اسرائیل اور اس کے پڑوسی ملکوں کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری کشیدگی کا ایک جائزہ

اسرائیل اور اس کے پڑوسی ملکوں کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری کشیدگی کا ایک جائزہ

مصر

مصر اور اسرائیل اپنی مشترکہ سرحدوں پر کئی جنگیں لڑ چکے ہیں۔ 1948 میں ہونے والی عرب اسرائیل جنگ میں مصر نے غزہ کی پٹی کا کنٹرول سنبھال لیا تھا جو 1967 میں ہونے والی چھ روزہ جنگ تک برقرار رہا۔ 1967 کی جنگ میں اسرائیل نے غزہ اور مصر کے صحرائے سینا پر قبضہ کر لیا تھا۔

عرب ممالک اور اسرائیل 1973 میں ایک بار پھر آمنے سامنے آئے۔ اس جنگ کو ’یوم کپور جنگ‘ بھی کہا جاتا ہے جس کا اختتام ایک امن معاہدے پر ہوا تھا۔ اس معاہدے کے تحت مصر وہ پہلا عرب ملک بن گیا جس نے اسرائیل کو تسلیم کیا۔ اس معاہدے کے تحت اسرائیل نے بالآخر 1979 میں سینا کے علاقے سے اپنی فوج واپس بلا لی۔ اس کے بعد سے مصر خطے میں اسرائیل کے اہم ترین سیکیورٹی شراکت داروں میں شمار ہوتا ہے۔

دونوں ممالک کے تعلقات کو اس وقت آزمائش کا سامنا کرنا پڑا جب 2011 میں ایک انقلاب کے بعد مصر کے صدر حسنی مبارک کا کئی دہائیوں پر محیط اقتدار ختم ہوا اور الیکشن میں کامیابی کے بعد اسلام پسند تنظیم اخوان المسلمون نے مصر میں اپنی حکومت بنائی۔ غزہ کو کنٹرول کرنے والی حماس بھی اسی تنظیم سے نظریاتی تعلق رکھتی ہے۔

اگرچہ 2013 میں مصر میں ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد اخوان المسلمون کی حکومت ختم ہو گئی لیکن سینا کے علاقے میں مسلم شدت پسندوں کی مزاحمت کے باعث دونوں ممالک کو مسائل کا سامنا رہا ہے۔

اسرائیل اور اس کے پڑوسی ملکوں کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری کشیدگی کا ایک جائزہ

ایک اسرائیلی فوجی اسرائیل اور مصر کے درمیان سرحد کی نگرانی کر رہا ہے۔ جون 18، 2012۔ (اے پی)

مصر کے ساتھ اسرائیل کی موجودہ سرحد پر جدید ٹیکنالوجی سے لیس خار دار باڑ نصب ہے جس کی اونچائی پانچ سے آٹھ میٹر تک ہے۔ یہ بحیرۂ احمر کے کنارے اسرائیل کے ساحلی شہر ایلات سے غزہ کی سرحد تک 245 کلومیٹر طویل سرحد پر پھیلی ہوئی ہے۔

مصر نے غزہ کی سرحد کے ساتھ ساتھ اپنے طور پر بھی حفاظتی انتظامات کر رکھے ہیں۔ مصر اور غزہ کے درمیان رفح کراسنگ اس پٹی سے نکلنے کا وہ واحد راستہ ہے جس پر اسرائیل کا کنٹرول نہیں۔ مصر نے رفح بارڈر کراسنگ پر بھی کڑی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں جس کے کئی اسباب ہیں۔ ان اسباب میں غزہ میں حماس کی حکومت کے خلاف اسرائیلی پابندیوں پر عمل درآمد یقینی بنانے کے علاوہ سرحد سے ہتھیاروں، عسکریت پسندوں اور غیر قانونی پناہ گزینوں کی نقل و حرکت کو روکنا بھی شامل ہے۔

 

اسرائیل اور اس کے پڑوسی ملکوں کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری کشیدگی کا ایک جائزہ

اردن

اردن نے 1948 میں اسرائیل کے خلاف ہونے والی عرب اسرائیل جنگ میں حصہ لیا تھا۔ اس جنگ کے بعد اس نے مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم پر قبضہ کرلیا تھا۔ 1967 کی چھ روزہ جنگ کے بعد ان علاقوں کا کنٹرول اسرائیل نے حاصل کر لیا تھا۔ تاہم اردن 1988 میں ان علاقوں پر اپنے دعوے سے دست بردار ہونے تک یہاں بعض انتظامی امور انجام دیتا رہا۔

اسرائیل اور اس کے پڑوسی ملکوں کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری کشیدگی کا ایک جائزہ

نومبر 13 ، 2019 کی اس فائل فوٹو میں وادیٔ اردن میں باقورہ کے علاقے سے خار دار تاروں کے عقب میں اسرائیلی اردن سرحد کا ایک حصہ دیکھا جاسکتا ہے۔ (اے پی)

اسرائیل اور اس کے پڑوسی ملکوں کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری کشیدگی کا ایک جائزہ

جون 22، 1967 کی اس فائل فوٹو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ فلسطینی پناہ گزین اسرائیل کے زیرِ قبضہ علاقے سے نکلنے کے لیے اپنے ساز و سامان کے ساتھ دریائے اردن پر بنے تباہ حال ایلنبائی پل پر سے گزرنے کی تیاری کررہے ہیں۔ 1967 کی چھ روزہ جنگ میں اسرائیل کے مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر قبضے کے بعد تین لاکھ فلسطینیوں کو نقل مکانی کرنا پڑی تھی جن میں سے اکثر نے اردن کا رُخ کیا تھا۔ (اے پی)

اسرائیل اور اردن کے درمیان 1994 میں امن معاہدہ ہوا تھا جس میں دونوں ممالک نے سرحدوں کے تعین سے متعلق تمام مسائل حل کرلیے تھے۔ اس معاہدے کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی اور سیکیورٹی تعلقات قائم ہیں۔

اسرائیل کی اردن کے ساتھ 482 کلومیٹر طویل سرحد ہے جسے مغربی کنارے کی ملکیت کا فیصلہ نہ ہونے کے باوجود اسرائیل کی محفوظ ترین سرحد تصور کیا جاتا ہے۔ اس سرحد پر دونوں ممالک کے درمیان تین گزرگاہیں ہیں۔ ایلن بی برج یا شاہ حسین پل مغربی کنارے کے رہائشیوں کے لیے وہ واحد سرحدی راستہ ہے جو اسرائیل کی حدود سے باہر ہے۔ مغربی کنارے میں آباد فلسطینی غیر ملکی سفر کے لیے اسی کراسنگ کو استعمال کرتے ہیں۔

 

اسرائیل اور اس کے پڑوسی ملکوں کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری کشیدگی کا ایک جائزہ

شام

سن 1949 میں ہونے والے جنگ بندی معاہدے کے نتیجے میں پہلی عرب اسرائیل جنگ ختم ہو گئی تھی۔ لیکن فوجیں پیچھے ہٹانے کے باوجود اسرائیل اور شام کے درمیان سرحدی تنازعات برقرار رہے۔ خاص طور پر آبی ذخیرے بحیرۂ طبریہ یا الجلیل پر پانی کے حقوق کا معاملہ حل طلب رہا۔

سن 1967 میں ہونے والی دوسری عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل نے ’گولان ہائٹس‘ کے نام سے معروف سطحِ مرتفع کا کنٹرول حاصل کرلیا جس کی وجہ سے مذہبی اقلیتی ’دروز‘ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والوں کے سوا دیگر شامی آبادی کو اس علاقے سے بے دخل ہونا پڑا۔

اسٹریٹجک اعتبار سے اہم گولان کی پہاڑیاں آج بھی اسرائیل کے قبضے میں ہیں۔ اسرائیل اس قبضے کو اقوامِ متحدہ کی قرارداد 242 کی بنیاد پر درست قرار دیتا ہے۔ اس قرار داد میں’’ خطرات یا بزور طاقت کی جانے والی کارروائیوں سے محفوظ اور تسلیم شدہ سرحد‘‘ کی شرط بیان کی گئی ہے۔

اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے 1981 میں گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کے ملکیت کے دعوے کو مسترد کر دیا تھا۔ گو کہ 2019 میں ٹرمپ دورِ حکومت میں امریکہ نے گولان کے الحاق کے اسرائیلی اقدام کو تسلیم کرلیا تھا لیکن بیشتر ممالک آج بھی گولان کو شام کا حصہ قرار دیتے ہیں۔

اسرائیل اور اس کے پڑوسی ملکوں کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری کشیدگی کا ایک جائزہ

مارچ 2019 میں گولان ہائٹس کے مکین شامی صدر بشار الاسد کی تصویر اٹھائے شامی اور دروز پرچم لہراتے ہوئے امریکہ کی جانب سے گولان پر اسرائیلی دعوے کی حمایت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ (اے پی)

شام میں حالیہ خانہ جنگی کی وجہ سے بھی اسرائیل اور شام کے سرحدی علاقوں میں کشیدگی کی فضا رہی۔ شام کی خانہ جنگی اس وقت شروع ہوئی تھی جب صدر بشار الاسد نے سنی باغی گروہوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا تھا۔ اس کارروائی میں انہیں ایران اور لبنان کی شیعہ عسکریت پسند تنظیم حزب اللہ کی حمایت حاصل تھی۔

ابتدائی طور پر اس خانہ جنگی نے فلسطینی عسکریت پسند سنی تنظیم حماس کے ساتھ ایران اور شام کے تعلقات کو بھی متاثر کیا تھا کیوں کہ حماس شام کے باغیوں کی حمایت کر رہی تھی۔ البتہ یہ تعلقات 2018 آتے آتے پھر استوار ہوگئے تھے۔

اسرائیل باضابطہ طور پر تو شام میں جاری خانہ جنگی سے لاتعلق رہا تھا لیکن وہ شام میں ایران اور حزب اللہ سے تعلق رکھنے والی فورسز کو کئی بار فضائی حملوں کا نشانہ بنا چکا ہے۔

 

اسرائیل اور اس کے پڑوسی ملکوں کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری کشیدگی کا ایک جائزہ

لبنان

اسرائیل کے لبنان کے مختلف مذہبی اور سیاسی دھڑوں سے تعلقات کی تاریخ بہت پیچیدہ ہے۔ لبنان نے 1948 اور 1967 کی عرب اسرائیل جنگوں میں بہت معمولی کردار ادا کیا تھا جب کہ وہ 1973 کی یوم کپور جنگ میں بھی شامل نہیں ہوا تھا۔ تاہم جب فلسطینی باغی گروپس نے 1960 کی دہائی کے اواخر سے جنوبی لبنان کے علاقوں کو بطور مرکز استعمال کرنا شروع کیا تو اسرائیل نے بھی لبنان کے اندر جوابی حملے کیے اور مقامی مسیحی عسکریت پسندوں کے ساتھ اتحاد کر لیا جنہوں نے شام میں آباد فلسطینی پناہ گزینوں کا قتلِ عام کیا۔

اسرائیل اور اس کے پڑوسی ملکوں کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری کشیدگی کا ایک جائزہ

ستمبر 28، 1982 کی اس فائل فوٹو میں اسرائیلی ٹینک مغربی بیروت کی بندرگاہ کے علاقے سے نکلنے کے بعد سڑکوں سے گزرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ (اے پی)

سن 1982 میں اسرائیل نے جنوبی لبنان پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا۔ اس حملے کے ردِ عمل میں شیعہ عسکریت پسند گروپ حزب اللہ وجود میں آیا جس نے اسرائیل اور خطے میں اس کی اتحادی طاقتوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔

اسرائیل 2000 میں اپنی فوج اقوامِ متحدہ کی تسلیم کردہ ’بلیو لائن‘ پر لے گیا تھا تاہم اس نے شبعا فارمز نامی زمینی پٹی پر اپنا کنٹرول برقرار رکھا۔ اگرچہ اسرائیل نے شام سے گولان کی پہاڑیوں کا کنٹرول لینے کے دوران ہی اس علاقے پر بھی قبضہ کیا تھا، تاہم لبنان کا دعویٰ ہے کہ یہ علاقہ ہمیشہ سے لبنان کا حصہ رہا ہے۔

اسرائیل اور اس کے پڑوسی ملکوں کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری کشیدگی کا ایک جائزہ

اکتوبر 14، 2023 کو لبنانی گاؤں کفر شوبا پر اسرائیلی بمباری کے بعد دھواں اٹھ رہا ہے۔ گولہ باری کا یہ واقعہ گولان کی پہاڑیوں کے نزدیک اسرائیلی فوج اور حزب اللہ کے عسکریت پسندوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے دوران پیش آیا تھا۔ (اے پی)

شبعا فارمز پر جاری تنازع کو جواز بنا کر حزب اللہ اسرائیل پر حملے کرتی آئی ہے جسے ایران اور شام نے اسرائیل کے خلاف ہتھیاروں اور وسائل سے اچھی طرح لیس کر دیا ہے۔ 2006 میں حزب اللہ کے ایک حملے کے جواب میں اسرائیل نے لبنان پر حملہ کر دیا تھا اور اس پر بمباری کی تھی۔ جس کے بعد سے اب تک دونوں فریقوں کے درمیان وقفے وقفے سے سرحد پر جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔

رواں برس سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد حزب اللہ بلیو لائن کے پار اسرائیلی علاقوں پر کئی راکٹ حملے کر چکی ہے اور اس کی اسرائیلی فورسز (آئی ڈی ایف) کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔ اگرچہ ایران حماس کے حملوں میں اپنے کسی کردار کی تردید کرتا ہے تاہم بعض رپورٹس سے نشان دہی ہوتی ہے کہ حماس کو اس کارروائی میں حزب اللہ اور ایران کے پاسدارانِ انقلاب کی مدد حاصل تھی۔

بڑھتی ہوئی کشیدگی

کئی سرحدی تنازعات اور بھاری فوجی موجودگی والے علاقوں کی وجہ سے اسرائیل اور فلسطینی علاقوں کی سرحدوں پر حالیہ پُر تشدد واقعات سے قبل ہی کشیدگی پائی جاتی تھی۔ اب جب کہ امریکہ نے بھی اس خطے میں اپنی عسکری قوت بڑھا دی ہے، چیلنج یہ ہے کہ اسرائیل اور حماس کے اس تنازع کو ایک بڑی جنگ میں تبدیل ہونے سے روکا جائے۔