ہمیں یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں… دو ہفتوں تک غار میں پھنسے رہنے والے نوجوانوں کو کیسے نکالا گیا؟

ہمیں یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں… دو ہفتوں تک غار میں پھنسے رہنے والے نوجوانوں کو کیسے نکالا گیا؟

چار سال قبل تھائی لینڈ کے 12 جونیئر فٹبالرز اور ان کے کوچ کو غار میں 18 دن پھنسے رہنے کے بعد بچا لیا گیا تھا۔ یہ انسانی تاریخ کا کوئی عام مشن نہیں تھا بلکہ ایک ڈرامائی صورتحال تھی جو المیہ پر بھی ختم ہو سکتی تھی۔ یہ انسانی تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ ہے جو اتحاد اور مہارت کی عمدہ مثال ہے!!! آئیے اس کی تفصیلات جانتے ہیں

۔ 23 جون 2018 کو فٹ بال ٹیم وائلڈ بور کے 12 لڑکے اپنے فٹ بال کوچ کے ساتھ تھائی لینڈ کے چیانگ رائے صوبے میں سائیکلنگ کرتے ہوئے ایک پہاڑ پر پہنچے وہاں وہ اکثر ایک غار میں ایڈونچر کے لئے جاتے تھے اس دن بھی وہ غار میں داخل ہوئے۔ لیکن کچھ دنوں سے لگاتار بارش ہونے کی وجہ سے غار سیلاب زدہ ہو رہا تھا اور ایسا ہر سال ان دنوں مون سون کی بارشوں میں ہوتا تھا کہ غار بارش کے پانی سے بھر جاتا تھا۔ بدقسمتی سے وہ غار کے اندر کچھ دور جا کر پھنس گئے اور پھر لڑکوں کے لئے ایک ڈرامائی ریسکیو بولی عمل میں لایا گیا۔

 لڑکوں کے غار میں پھنسے ہونے کا پتہ کیسے لگا؟

23 جون کو ٹیم کے ایک ممبر لڑکے کی سترہویں سالگرہ تھی۔ اس کے خاندان والوں نے سالگرہ کی تقریب کا انتظام کیا ہوا تھا۔ لڑکا اپنی ٹیم کے ساتھ فٹ بال کے لئے گیا تھا۔ فٹ بال پریکٹس کے بعد اپنے پلان کے مطابق لڑکوں اور کوچ نے ایڈونچر کے لئے غار کا رخ کیا۔ ان کا ایک ساتھی غار جانے کے بجائے واپس اپنے گھر چلا گیا۔ جب لڑکے شام تک واپس نہ آئے تو لڑکوں کے والدین کو فکر ہوئی بچوں کی تلاش میں یہ لوگ نکلے تو کچھ انکے ساتھی بچوں نے اور غار میں نہ جانے والے ساتھی نے ان کے پروگرام کا بتایا کہ وہ 13 لوگ غار کے اندر گئے ہیں اور ایسا وہ اکثر کرتے تھے تو جگہ بھی پتا تھی کہ وہ کہاں جاتے ہیں۔ جسے پٹایا بیچ کہتے ہیں۔

 بلند حوصلہ کے ساتھ وہ صرف اپنی مشعلوں کے ساتھ غار میں گھس گئے ان کا وہاں صرف ایک گھنٹہ گزارنے کا ارادہ تھا۔ انھیں کیا پتا تھا کہ یہ ان کے لئے دو ہفتوں کا ٹھکانہ بن جائے گا۔ وہ بھی زندگی اور موت کے دہانے پر۔۔ 

تھام لوانگ کھن نامی پہاڑ وہاں کی لوک داستانوں کے لئے مشہور ہے یہ ڈے ٹرپرز اور بہادر بچوں کے لیے ایک مقبول ترین منزل ہے۔ اس سے پہلے تھام لوانگ میں لوگ لاپتہ ہو چکے تھے۔ غار میں برسات کے موسم میں 16ft تک سیلاب آجاتا ہے اور صرف نومبر اور اپریل کے درمیان ہی اس میں داخل ہونا محفوظ ہے۔

 ادھر غار کے باہر ایک بھرپور ریسکیو آپریشن تیزی سے جاری تھا۔ حکام نے ایلیٹ تھائی نیوی سیلز، نیشنل پولیس اور دیگر امدادی ٹیموں کو طلب کر لیا تھا۔ ابتدائی تحقیقات میں غار کے ایک چیمبر میں قدموں کے نشانات پائے گئے لیکن کوئی نشانی نہیں تھی کہ لڑکے ابھی زندہ ہیں۔ وائلڈ بوئرز تھام لوانگ کی گہرائی میں کہیں تھے- لیکن کہاں؟ اور سب سے اہم بات بچانے والے ان تک کیسے پہنچ سکتے ہیں؟

 ٹیم کی تلاش ایک چیلنج تھا- بحریہ کے غوطہ خوروں میں سے اکثر کو غار میں غوطہ خوری کا بہت کم تجربہ تھا۔ اور موسم بہت بے رحم تھا- شدید بارش کا مطلب ہے کہ پانی کی سطح مسلسل بڑھ رہی تھی اور غار کے کچھ حصوں سے بچاؤ کرنے والوں کی پہنچ ناممکن تھی۔ انجینئروں نے پمپ کے زریعے غار سے پانی نکالنے کی بھرپور کوشش کی- شروع میں کسی کو واقعی اندازہ نہیں تھا کہ کیا کرنا ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے پہاڑی میں سوراخ کرنے کی کوشش کی یا دراڑ تلاش کی اور لڑکوں کو تلاش کرنے کے لیے تھرمل سینسر والے ڈرون کا استعمال بھی کیا گیا۔ 

image

 کیا لاپتہ 13 وہاں ہو سکتے ہیں؟

ڈرون، کتے، ڈرلنگ اور مایوسی۔ غار کے باہر لڑکوں کے گھر والے فکر مندی سے ان کی جان کی دعائیں مانگ رہے تھے۔ غرض عام پبلک، ماہرین، میڈیا سب اس مشن کا حصہ تھے۔ کوئی اس جگہ سے واپس جانے کو تیار نہیں تھا۔ اس مشن کی لائیو کوریج پوری دنیا میں جا رہی تھی اور سب ان لوگوں کے لئے تہہ دل سے دعا گو تھے۔ یک جہتی کی یہ اعلیٰ پائے کی مثال تھی۔ اب یہ بین الاقوامی چیلنج تھا، بین الاقوامی امدادی کارکن جمعرات 28 جون کو پہنچے۔ یہ امریکی فضائیہ کے ریسکیو ماہرین، اور برطانیہ، بیلجیم، آسٹریلیا، اسکینڈینیویا اور کئی دوسرے ممالک کے غار غوطہ خور تھے۔

 پیر 2جولائی کو دو برطانوی غوطہ خوروں نے ایک ناقابل یقین دریافت کی۔ یہ دونوں آدمی آخرکار پٹایا بیچ پہنچ گئے۔ لیکن وہاں کچھ نہیں تھا۔ وہ اندھیرے میں آگے بڑھتے رہے۔ پھر چند سو میٹر آگے آئے تو انھیں انسانوں کی بو محسوس ہوئی۔ یہ حس ان کی ٹریننگ کا حصہ ہوتی ہے۔ انھوں نے چیخ کر کہا ہم تمھیں سونگھ سکتے ہیں۔ جلد ہی جان غوطہ خور کی ٹارچ کی روشنی نے ایک عجیب منظر دیکھا لڑکے اندھیرے سے نکل کر اس کی طرف کنارے سے نیچے آ رہے تھے۔ جان نے پوچھا تم کتنے ہو؟ جواب ملا “تیرہ!” وہ سب زندہ تھے۔ 

دونوں غوطہ خوروں نے لڑکوں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے ان کے ساتھ کچھ وقت گزارا – اس غیر معمولی ملاقات کو غوطہ خوروں کے کیمروں پر ریکارڈ کیا گیا- اور آن لائن پوسٹ کیا گیا۔ 

غار میں لڑکوں پر کیا گزر رہی تھی؟

انہیں باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں مل رہا تھا اور ان کے پاس غار میں مزید گہرائی تک جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ وائلڈ بورز نے بالآخر غار کے داخلی دروازے سے تقریباً 4 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک چھوٹے سے پتھریلے شیلف پر پڑاؤ ڈالا ہوا تھا۔ انھیں وقت کا بھی احساس نہیں تھا۔ خوف و دہشت کی ایک ملی جلی کیفیت میں وہ گم سم بیٹھے تھے۔ ان کے پاس زندہ رہنے کے عزم کے سوا کچھ نہیں تھا۔ اس گروپ نے پتھروں سے شیلف میں 5 میٹر گہرائی کا گڑھا کھودا جہاں وہ اکٹھے ہو کر گرم رہ سکیں۔ 

کوچ جو ایک سابق راہب تھے نے لڑکوں کو مراقبہ کی تکنیک سکھائی تاکہ وہ پرسکون رہیں اور کم سے کم ہوا کا استعمال کریں اور ان سے کہا کہ وہ اپنی طاقت کو محفوظ رکھنے کے لیے چپ چاپ لیٹ جائیں۔ ان کے پاس کچھ کھانا نہیں تھا- لیکن غار کی دیواروں سے پانی کے قطرے ٹپکنے کی صورت میں انہیں پینے کے قابل پانی کی فراہمی تھی۔ اندھیرا تھا لیکن ان کے پاس مشعلیں تھیں تھوڑی دیر کے لیے کافی ہوا بھی تھی- کیونکہ پتھر اور چٹانوں میں دراڑ کی وجہ سے تھوڑی بہت ہوا کا گزر تھا۔ کم از کم تھوڑی دیر کے لیے ان کے پاس زندہ رہنے کے لیے مناسب حالات تھے۔ 

image

 پچھلے ہفتے سے پریشانیوں میں گھرے ہوئے، وائلڈ بوئرز کے والدین یہ دیکھ کر بہت پرجوش اور پر امید ہو گئے کہ ان کے بچے معجزانہ طور پر بچ گئے ہیں۔ وہ پتلے لگ رہے تھے، لیکن زندہ تھے۔ 

لڑکوں اور ان کے کوچ کو فوری طور پر ایک ملٹری میڈیسن فراہم کی گئی اور نیوی سیل کے غوطہ خور ان کے ساتھ تھے۔ نو دن اندھیرے میں رہنے کے بعد فٹ بال ٹیم نے ایک بار پھر روشنی دیکھی۔ وہ مناسب کھانے کے لیے ترس رہے تھے۔ لیکن ڈاکٹر کا حکم تھا کہ انہیں لیکویڈ کھانے کی خوراک اور اضافی وٹامن کے ساتھ منرل واٹر پر رکھا جائے۔

 13 لوگوں کو کیسے نکالا جائے انتہائی مشکل مرحلہ؟

لڑکوں میں سے اکثر تیر نہیں سکتے تھے۔ اب اصل محنت کا وقت تھا۔ یہ ساری دنیا سے آئے ہوئے پروفیشنلز کا کڑا امتحان تھا۔ حوصلے بلند تھے لیکن پھر ایک مہلک حادثے نے کمیونٹی کو غمزدہ کر دیا۔ ایک ہیرو مشن کے دوران اپنی جان کی بازی ہار گیا۔ نیوی سیل کے سابق غوطہ خور سمن گنان ان بہت سے رضاکاروں میں سے ایک تھے۔ 6 جولائی کو لڑکوں کو ایئر ٹینک پہنچانے کے معمول کے دوران وہ اپنے لیے ہوا کی کمی کے باعث بے ہوش ہو گیا۔ اس کے غوطہ خور دوست نے اسے باہر نکالا لیکن سمعان کو بچایا نہ جا سکا۔

اس کی عمر صرف 38 سال تھی۔ اس کی موت نے ریسکیو مشن کے خطرے اور لڑکوں کو درپیش خطرات کو مزید تشویش ناک بنا دیا۔ سمن ایک فٹ اور صحت مند غوطہ خور تھا۔ 

پریشانی کی ایک اور چیز بھی تھی ہوا بھرنے کی کوششوں کے باوجود چیمبر میں آکسیجن کی سطح 15 فیصد تک گر گئی تھی جو معمول کے 21 فیصد سے کم تھی۔ حالات سخت ترین ہوتے جا رہے تھے۔ 

امدادی کارکنوں نے تین ممکنہ طریقوں کی نشاندہی کی تھی:

1۔لڑکوں کو غار کے سیلاب زدہ علاقوں میں غوطہ لگانے کی تربیت دینا – یہ رسکی تھا اس لئے اسے آخری حربہ رکھا گیا

۔2۔غار سے پانی پمپ کرنا اور پانی کی سطح قدرتی طور پر کم ہونے کا انتظار کرنا- لیکن اس میں چار مہینے لگ سکتے ہیں

۔3۔غار میں متبادل راستے تلاش کرنا یا کھدائی کرنا۔ 

image

 لڑکوں اور غار کے باہر موجود لوگوں نے انتہائی جزباتی محبت سے بھرے خطوط کا تبادلہ کیا ۔ 

کوچ اک نے اپنے خط میں کہا کہ “میں والدین سے واقعی معذرت خواہ ہوں۔” لیکن والدین نے الزام تراشی کے بجائے اس مشکل وقت میں کوچ کی حوصلہ افزائی کی

۔ 7 جولائی بروز اتوار۔ لڑکوں کو لاپتہ ہوئے دو ہفتے گزر چکے تھے۔ تھائی حکام نے اعلان کیا کہ وہ لڑکوں کو نکال رہے ہیں۔ اچانک فیصلہ کیوں؟ کیونکہ اگلے دن سے بارشوں کا نیا اسپیل شروع ہو رہا تھا۔ مقامی لوگوں نے تھائی نیوی سیلز کو یہ بھی بتایا تھا کہ ہر سال تقریباً 10 جولائی تک تھام لوانگ غار مکمل طور پر سیلاب سے بھر جاتا ہے۔ 

اب”سپر ہیومن” ریسکیو کوشش شروع کی جاتی ہے جس میں تقریباً 100 تھائی اور غیر ملکی غوطہ خور شامل تھے۔ لڑکوں کے ٹھکانے سے چیمبر تھری تک کا مشن زیادہ مشکل تھا۔ امدادی کارکنوں نے گہرے پانی سے گھنٹوں تک اپنا راستہ بنایا، ہڈیوں کو جما دینے والی سردی تھی، گائیڈ بزریعہ رسی اپنا راستہ بنا رہے تھے۔ بعض حصے تو اتنے تنگ تھے کہ صرف ایک جسم فٹ ہو سکتا تھا۔ 

ہر لڑکے کو پورے چہرے کا ایئر ماسک دیا گیا تاکہ وہ سانس لے سکیں اور انھیں غوطہ خور کے ساتھ کلپ کر دیا گیا۔ ایک اور غوطہ خور بھی ان کے ساتھ تھا۔ ہر بچے کے سامنے ایک سلنڈر تھا، جبکہ ایک ہینڈل ان کی پیٹھ سے جڑا ہوا تھا- لڑکوں اور کوچ کو دوائی سے نیم بے ہوش کیا گیا تھا تاکہ وہ گھبرائیں نہیں۔

 ایک بار جب وہ چیمبر تھری میں پہنچے تو دوسرے مرحلے کا وقت تھا۔ اس میں مزید چند گھنٹے لگے۔ ہر لڑکے کو ایک اسٹریچر پر کم از کم پانچ آدمیوں کی ایک ٹیم لے گئی ۔ سب سے مشکل اسٹیپ راستے سے گزارنا تھا جہاں گردن تک پانی تھا۔ اس کے لئے امدادی کارکنوں کی ایک انسانی زنجیر بنائی گئی۔ امدادی کارکن جب پہلے بچے کو لے جا رہے تھے تو انھیں پتا نہیں تھا کہ بچہ زندہ ہے یا وہ صرف ایک لاش کو لے جا رہے ہیں لیکن جب غار کے باہر بچے نے آواز نکالی تو ان کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی۔ 

image

 ابھی مشن مکمل نہیں ہوا تھا وقت کم تھا اور پانی تیزی سے بھر رہا تھا:

ایک ایک کر کے وائلڈ بورز کو تھام لوانگ کے اندھیرے سے باہر لایا گیا۔ انہیں آکسیجن دی گئی تاکہ ہسپتال لے جایا جائے۔ امدادی کارکنوں نے انہیں تین کھیپوں میں باہر نکالا کیونکہ انہیں ایئر ٹینکوں کو بھرنے کے لیے درمیان میں وقت درکار تھا۔ سینئر نیوی سیل سپاچائی کے مطابق جب لڑکوں اور کوچ کی آخری کھیپ باہر نکالی گئی تو پانی کی سطح ایک گھنٹے میں 30 سینٹی میٹر کی تیزی سے دوبارہ بلند ہونا شروع ہو گئی تھی۔یہ منگل 10 جولائی تھا- جس دن مقامی لوگوں نے کہا کہ غار مکمل طور پر سیلاب میں ڈوب جائے گا تھم لوانگ کے اندر پوری ریسکیو ٹیم تھی- نیوی سیل کے غوطہ خور اور طبیب جنہوں نے وائلڈ بوئرز کی دیکھ بھال کی تھی ۔ سیلابی پانی تیزی سے اندر داخل ہوا جس نے جائے وقوعہ میں کارکنوں کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ ایک سیکنڈ بھی وہاں رکنا جان لیوا تھا کیونکہ ایک پمپ نے اچانک کام کرنا بند کر دیا تھا۔ 

دو اذیت ناک ہفتوں کے بعد تھائی غار کے لڑکے اور ان کا کوچ آخر کار، محفوظ اور صحت مند باہر نکل آئے۔ گاؤن میں ملبوس اور چہرے کے ماسک پہنے ہوئے، تھائی غار کے لڑکے اپنے اسپتال کے بستروں پر بیٹھے بہت خوش نظر آرہے تھے۔ لڑکوں کو اور دوسروں کو انفیکشن سے بچانے کے لیے بچوں کو چند ہفتوں کورنٹین میں رکھا گیا۔ ان کے والدین ان کے ساتھ نہیں تھے۔ وہ انھیں کھڑکی کے پیچھے سے دیکھ سکتے تھے، کچھ اپنے لڑکوں کو دیکھ کر خوشی سے رو رہے تھے، آج اس واقعے کو چار سال گزر چکے ہیں کوچ نے اپنی ایک اکیڈمی کھول لی ہے اور بچے بظاہر نارمل زندگی گزار رہے ہیں لیکن اس واقعے نے انہیں زندگی اور موت کی کشمکش کا تجربہ ضرور دیا ہے۔ 

image

 (حقائق بی۔بی۔سی سے لئے گئے ہیں)