کچھ مذہبی جماعتوں کی طرف سے اس قانون پر تنقید کی جا رہی ہے جو اسے ہم جنس پرستی کو قانونی تحفظ دینے کی کوشش کے طور پر سمجھتے ہیں۔ ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ 2018 میں نافذ کیا گیا تھا۔ یہ قانون خواجہ سراؤں کو ووٹ دینے اور الیکشن لڑنے کے حق کے علاوہ تعلیم، صحت کی بنیادی سہولیات، اپنے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ پر اپنی ٹرانس جینڈر شناخت لکھنے کے مساوی حقوق کی اجازت دیتا ہے
تاہم کچھ مذہبی جماعتوں کی رائے تھی کہ یہ بل دراصل ملک میں ہم جنس پرستی کو قانونی تحفظ دینے کی کوشش ہے۔ جماعت اسلامی (جے آئی) کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے بھی اس قانون کو وفاقی شرعی عدالت (ایف ایس سی) میں چیلنج کر دیا ہے
حکومت کے اتحادی اور جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی-ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ یہ قانون قرآن و سنت کی تعلیمات کے منافی ہے اور مزید کہا کہ وہ ترامیم پیش کریں گے۔ تاہم ٹرانس جینڈر کاز کے لیے متعدد کارکنان کا خیال ہے کہ 2018 کے ایکٹ کا مقصد ان کی برادری کے حقوق کا تحفظ ہے
یہ قانون ان لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی کا حق فراہم کرتا ہے جو خواجہ سراؤں کو سڑکوں پر بھیک مانگنے پر مجبور کرتے ہیں۔ خواجہ سراؤں کے حقوق کی کارکن زنایہ چوہدری نے قانون پر تنقید پر تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ ان 11 صفحات پر مشتمل ایکٹ میں کوئی ذکر نہیں ہے کہ ایک مرد کسی دوسرے مرد سے شادی کر سکتا ہے یا کوئی عورت دوسری عورت سے شادی کر سکتی ہے
تاہم اس ایکٹ پر تنقید کرنے والے حلقوں کا مؤقف ہے یہ کہ اس ایکٹ کی آڑ میں ہم جنس پرستی کو فروغ ملے گا اور ہم جنس پرست جب چاہیں گے اس قانون کا سہارا لیتے ہوئے اپنی جنس تبدیل کروا لیں گے اور آپس میں شادیاں کرنے کا خدشہ ہے- اس لیے مطالبہ یہ کیا جارہا ہے کہ جنس تبدیلی کا معاملہ میڈیکل بورڈ کی اجازت سے مشروط کیا جائے
میڈیکل بورڈ کی رائے کے بغیر کسی کو بھی جنس تبدیلی کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اور اپنی مرضی سے صنفی شناخت اختیار کرنا نہ صرف خلافِ شریعت ہے بلکہ یہ اسلام کے قانون وراثت سے بھی متصادم ہے اور خواتین کے عفت و پاک دامنی اور ہماری روایات کے بھی خلاف ہے
واضح رہے کہ پروٹیکشن آف رائٹس ایکٹ 2018 کو عام طور پر ٹرانس جینڈر ایکٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ قانون مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے آخری مہینوں میں منظور کیا گیا تھا جب 2018 میں شاہد خاقان عباسی وزیراعظم تھے۔ یہ ان چند قوانین میں سے ایک تھا جس کے حق میں حکومت اور اپوزیشن نے متفقہ طور پر ووٹ دیا
اب ہم اپنی مذہبی اور معاشرتی اقدار کی بات کرتے ہیں۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے مرد یا عورت ہونا اللہ کی طرف سے ہے اور اس کے علاوہ کسی جنس کے لئے ہمیں قرآن وسنت کی روشنی میں کوئی وضاحت نہیں ملتی۔ معاشرہ ایک سسٹم کے تحت چلتا ہے ایک خاندانی نظام ہے جس میں مرد شوہر ہے بیوی عورت ہے اور پھر ان کے بچے لڑکا یا لڑکی ہوں گے یہ ہم جانتے ہیں اگر بیٹے یا بیٹی میں ذہنی طور پر کوئی الجھن ہے تو اس کے لئے اس کی مدد کی جائے اس کا علاج کروایا جائے اور بہتر ہے اسے اسی جنس پر رکھا جائے جس پر اس کو پیدا کیا گیا ہے یہ انسان کا نہیں اللہ تعالیٰ کا قانون ہے جس میں مداخلت ہمیں مہنگی پڑسکتی ہے
حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کو بھی کچھ ایسا ہی گمان تھا پھر ان پر اترنے والے اللہ کا عذاب قرآن سے ثابت ہے اور ہمیں بار بار ڈرایا گیا ہے۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے اگر ہم آواز نہیں اٹھائیں گے تو ہم بھی ظالموں میں شامل کئے جائیں گے۔ جہاں تک ووٹ ڈالنے کی بات ہے تو آپ کا شناختی کارڈ آپ کی اصل جنس کے مطابق بنا ہوتا ہے اس پر آپ کو ووٹ ڈالنے سے روکا نہیں جا سکتا دوسری بات بھیک مانگنے کے لئے تو کسی کی بھی حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی۔ جہاں جہاں یہ ایکٹ پاس ہوئے ہیں ہم بخوبی دیکھ سکتے ہیں کہ وہاں خاندانی نظام بری طرح درہم برہم ہو چکا ہے۔ آخری بات انفرادی طور پر علاج بڑی تباہی سے بہتر ہے