انقلابِ روس کا تمام اقوامِ مشرق پر گہرا اثر پڑا۔ دنیا کی پہلی مزدوروں اور کسانوں کی حکومت کا قیام، سرمایہ داری اور جاگیری نظام کے خاتمے اور روسی سلطنت میں محکوم ایشیائی اقوام کی آزادی نے مشرقی قوموں کی آزادی کی تحریکوں میں نیا جوش اور ولولہ پیدا کیا۔
اردو ادب کی ایک بہت بڑی خوش گوار خصوصیت یہ رہی ہے کہ ہماری قومی زندگی کے ہر اہم موڑ، ہماری آزادی کی جدوجہد کے ہر نئے عہد کی اس نے عکاسی کی ہے۔ ہندوستانی عوام کے دل کی دھڑکنیں، ان کی بلند ترین آرزوئیں، ان کے دکھ اور درد، ان کے ذہنی اور نفسیاتی پیچ و خم کی تصویریں، ہمیں عہد بہ عہد اردو ادب میں مل جاتی ہیں۔
انقلابِ روس (نومبر 1917ء) کے وقت میری عمر بہت کم تھی، لیکن لکھنؤ کے روزنامہ ‘سیارہ’ کی وہ سرخی آج تک میرے ذہن پر نقش ہے جس میں انقلابِ روس کی خبر پورے صفحے پر پھیلی ہوئی، “یورپ کی لال آندھی” کے عنوان سے دی گئی تھی۔ اس روزنامے کے ایڈیٹر میرے چچا شبیر حسین قتیل مرحوم تھے۔ تھوڑے عرصے بعد “سیارہ” سے ایک بڑی ضمانت طلب کر لی گئی اور اسے اپنی اشاعت روک دینا پڑی۔ قتیل صاحب نے اس سیارہ کے آخری شمارے کو اس شعر سے شروع کیا تھا:
مرا درد بست اندر دل اگر گویم زباں سوزد
وگر دم در کشم ترسم کہ مغز استخواں سوزد
(ترجمہ: میرے دل میں آج ایسا درد ہے جس کا اگر بیان کروں تو زبان جل اٹھے اور اگر نہ بولوں، سانس اندر کھینچوں تو اس کا ڈر ہے کہ میری ہڈیاں جلنے لگیں)
اس شعر سے برطانوی ظلم کے خلاف ہندوستانی قوم کے غم و غصّے کا اظہار ہوتا تھا۔
(اردو کے معروف ادیب، انقلابی اور مارکسی دانشور سجاد ظہیر کے مضمون سے اقتباسات)