چھٹی کا دن اور رمضان کی یکم تاریخ جب یوں بھی اسلام آباد خاموش نظر آتا ہے لیکن شہر پر ہفتے کی شام ہی سے سناٹا طاری تھا جسے بہت سے لوگ کسی طوفان کا پیش خیمہ بھی کہہ رہے تھے۔
اتوار کو صبح ساڑھے گیارہ بجے قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے والا تھا جس میں وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش ہونے والی تھی اور سب نظریں اس اجلاس پر جمی تھیں۔
اسمبلی کے اجلاس کے لیے عام طور پر بھی سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے جاتے ہیں لیکن آج خلافِ معمول پارلیمنٹ ہاؤس میں داخل ہونے کا صرف ایک راستہ کھلا تھا جس پر کاروں کی لمبی قطاریں اور پولیس کے ناکے تھے۔ غیر متعلقہ افراد کو ریڈ زون میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے سخت ترین انتظامات پہلے ہی کردیے گئے تھے۔
’نمبر پورے ہوچکے ہیں‘
کسی بھی ممکنہ مسئلے سے بچنے کے لیے اپوزیشن کے ارکان اجلاس کے لیے دیے گئے وقت سے دو گھنٹے پہلے ہی پارلیمنٹ پہنچ گئے تھے۔ اجلاس کی کوریج کے لیے آنے والے صحافیوں اور اپوزیشن کے ارکان کی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔
وہاں ہماری ملاقات سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ حزبِ اختلاف مکمل طور پر تیار ہے اورعدم اعتماد کامیاب بنانے کے لیے نمبر پورے ہو چکے ہیں۔
اس کے بعد مختلف رکاوٹوں کو عبور کرکے آخر کار اسمبلی کی پریس گیلری تک رسائی حاصل ہوگئی جو صحافیوں سے کھچا کھچ بھر چکی تھی۔
حکومتی بینچوں پر نعرے بازی
گیلری سے اسمبلی ہال کا منظر صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ ایوان میں اس جگہ سے نہ صرف اپنی نشستوں پر بیٹھے ہوئے ارکان دکھائی دیتے ہیں بلکہ اگر ان میں سے کوئی ذرا بلند آواز میں بات کرے تو بہ آسانی اسے پریس گیلری میں سنا جا سکتا ہے۔
اگرچہ ابتدائی طور پر عمران خان نے اپنی پارٹی ارکان کو ہدایت کی تھی کہ وہ اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے لیکن بعد میں انہوں نے یہ فیصلہ تبدیل کردیا تھا۔اس لیے آج اسمبلی میں تحریکِ انصاف کے ارکان اسمبلی بھی ایوان میں آنا شروع ہوچکے تھے۔ کچھ دیر بعد وزرا اگلی نشستوں پر بیٹھنا شروع ہوچکے تھے۔
اسلام آباد کے ماحول کے برعکس ایوان کے اندر ہلچل نظر آرہی تھی اور کبھی کبھار سیاسی نعروں کی آوازیں بھی سنائی دے رہی تھیں۔
اس اجلاس سے کچھ ہی روز قبل ایم کیو ایم کی حکومتی اتحاد سے علیحدگی کے بعد یہی اندازہ لگایا جا رہا تھا کہ اپوزیشن تحریک عدم اعتماد آسانی سے کامیاب بنا لے گی۔
اپوزیشن کی جانب سے نمبر گیم پوری ہونے کے دعوے بھی کچھ دیر میں سچ ثابت ہونے کا امکان نظر آرہا تھا لیکن اس صورتِ حال میں وزرا کا پرسکون ہونا وہاں پریس گیلری میں موجود کئی لوگوں کی سمجھ سے بالاتر تھا۔ البتہ جوں ہی ایوان کی کارروائی آگے بڑھی ہمیں اس سوال کا جواب بھی مل گیا۔
وزیرِ قانون نے تقریر شروع کی۔۔۔
اپوزیشن کی بینچوں پر بھی آج معمول سے زیادہ رونق نظر آ رہی تھی۔ نیلے کوٹ میں ملبوس بلاول بھٹو زرداری قائد حزب اختلاف شہباز شریف سے گفتگو کرتے دکھائی دیے اور وہ حزبِ اختلاف کی مختلف صفوں میں بھی گھوم پھر کر ملاقاتیں کرتے رہے۔
آدھے گھنٹے کی تاخیر کے بعد اجلاس کا آغاز ہوا جس کی سربراہی اسپیکر اسد قیصر کے بجائے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کررہے تھے۔
اجلاس کے آغاز میں جیسے ہی قومی ترانہ ختم ہوا اور ممبران اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے تو وزیرِاطلاعات اور ایک روز قبل ہی قانون کی وزارت کا اضافی قلمدان سنبھالنے والے فواد چوہدری اپنی نشست پر کھڑے ہوگئے۔
ان کے ہاتھ میں ایک کاغذ تھا جس سے انہوں نے پڑھ کر اپنی تقریر کا آغاز کیا۔ انہوں نے آغاز ہی میں دستور کے آرٹیکل 5 کا حوالہ دیا جو کہ شہریوں کی ریاست سے وفاداری سے متعلق ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چوں کہ حزبِ اختلاف مبینہ طور پر ایک بیرونی سازش کا حصہ ہے اس لیے تحریکِ عدم اعتماد کو اسپیکر کی جانب سے کالعدم قرار دیا جانا چاہیے۔
اپوزیشن پر سکتہ طاری تھا!
فواد چوہدری کی یہ گفتگو اس لیے بہت سے لوگوں کے لیے حیران کن نہیں تھی کہ اب تک یہ بات مفروضے کے طور پر مختلف ٹی وی شوز وغیرہ میں سامنے آتی رہی تھی۔ اس مفروضے کو تجزیہ کار نا قابل عمل اور آئینی طور پر غلط بھی قرار دے چکے تھے۔ اس دوران تحریکِ انصاف کے ارکان امریکہ مخالف نعرے بھی لگاتے رہے۔
وزیرِ قانون فواد چوہدری جیسے ہی اپنی تقریر ختم کرکے نشست پر بیٹھے ڈپٹی سپیکر نے بولنا شروع کیا۔ خیال یہی کیا جا رہا تھا کہ اب تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کا عمل شروع ہو گا لیکن ہوا اس کے بالکل برعکس!
ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ وہ فواد چوہدری کے الزامات کو معقول سمجھتے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے وزیرِ اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو بغیر ووٹنگ کے مسترد کر دیا اور قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا۔
ڈپٹی سپیکر کا اعلان ابھی پوری طرح ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ حکومتی ارکان نے اسپیکر کی نشست کے سامنے چبوترے کے سامنے اکٹھے ہو کر نعرے بازی شروع کر دی۔ وہ کبھی اپنی پارٹی کے منحرف ارکان کو ’لوٹا‘ کہہ کہ برا بھلا کہتے تو اگلے ہی لمحے ’امریکہ کا جو یار ہے، غدار ہے‘ کے نعرے سنائی دینے لگے۔
اجلاس ملتوی ہونے کے اعلان اورتحریکِ انصاف کے ارکان کی اس نعرے بازی سے حزبِ اختلاف کے بینچوں پر سکتہ طاری ہو گیا۔ شاید انہیں توقع نہیں تھی کہ حکومت کوئی ایسا اقدام بھی کر گزرے گی۔
ایوان میں نعروں کا شور تھا اور پریس گیلری میں صحافیوں کے فون بجنے لگے ۔ایوان میں یہ منظر تھا تو ادھر وزیر اعظم قوم سے خطاب کر رہے تھے جس میں انہوں نے قومی اسمبلی توڑنے کی سمری صدر مملکت کو بھیجنے کا اعلان کردیا تھا۔
صحافی اب اس فکر میں تھے کہ چند ہی منٹ میں ملک میں ایک نیا آئینی بحران پیدا ہو گیا تھا۔ ایوان سے باہر اور سوشل میڈیا پر اس حیرت انگیز صورتِ حال پر آرا اور تجزیوں کا طوفان آ چکا تھا۔