پاکستان میں سیاسی اور مذہبی دھرنے نئی بات نہیں اور اس مرتبہ عمران خان ‘حقیقی آزادی مارچ’ لے کر بدھ کو اسلام آباد آرہے ہیں۔ اس بار ان کا مقصد اپنی حکومت کے خاتمے کے خلاف احتجاج کرنا اور نئے انتخابات کا انعقاد ہے۔
اگرچہ عمران خان فوری انتخابات چاہتے ہیں اور انہوں نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ انتخابات کی تاریخ لیے بغیر اسلام آباد سے واپس نہیں جائیں گے۔ لیکن حکومت نے بھی تحریکِ انصاف کے لانگ مارچ کو روکنے کا فیصلہ اعلان کیا ہے۔
تحریکِ انصاف کا یہ لانگ مارچ ایسے موقع پر ہو رہا ہے کہ جب حکومت کو معیشت کے بڑے چینلنجز کا سامنا ہے اور ملک میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سےعوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
پاکستان کی سیاست میں احتجاجی دھرنوں، مظاہروں اور مارچوں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ان مارچوں اور دھرنوں میں سیاست دان اور مذہبی رہنما حکومتِ وقت کے خلاف متحد ہوئے۔ ان میں سے بعض کو کامیابی ملی جب کہ بعض اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے۔
پاکستانی تاریخ میں طویل ترین دھرنا عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)نے 2014 میں دیا تھا جو 126 روز تک جاری رہا تھا۔
ماضی میں ہونے والے ان دھرنوں کے باعث بعض حکمرانوں کو اقتدار سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔ کبھی دھرنوں سے طاقت کے استعمال یا مذاکرات کے ذریعے بھی نمٹا گیا۔ لیکن ان دھرنوں کا مقصد حکومت پر دباؤ بڑھانا ہوتا ہے اور اکثر اس دباؤ کے باعث طاقت کے مراکز اس کا فائدہ بھی اٹھاتے رہے ہیں۔
اسلام آباد کا پہلا بڑا دھرنا
دارالحکومت اسلام آباد میں پہلا بڑا مظاہرہ چار اور پانچ جولائی 1980 کو ہوا تھا، جب مذہبی جماعت تحریک نفاذ فقہ جعفریہ نے سابق صدر ضیاء الحق کے زکٰوۃ اور عشر آرڈیننس کے خلاف پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنا دیا تھا۔
اس دھرنے میں ہزاروں افراد شریک تھے اور ان کا مؤقف تھا کہ زکوۃ اور عشر آرڈیننس میں شیعہ برادری کو نظر انداز کیا گیا۔
دو روز تک جاری رہنے والے اس دھرنے کے لیے نہ تو پولیس کی مدد سے کنٹینر لگا کر سڑکیں بند کی گئیں اور نہ ہی لاٹھی چارج یا آنسو گیس کا استعمال ہوا۔ مجبوراً حکومت نے شیعہ مکتبۂ فکر کو اس آرڈیننس سے مستثنیٰ رکھنے کا مطالبہ تسلیم کر لیا۔
بے نظیر بھٹو کا لانگ مارچ
نوے کی دہائی تک اسلام آباد میں دھرنے دینے یا مارچ کرنے کا رواج اس قدر عام نہ تھا۔ اگر کسی سیاسی جماعت کے کچھ کارکن اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے پہنچ بھی جاتے تو کچھ دیر جھنڈے لہرانے کے بعد روانہ ہوجاتے تھے۔
بے نظیر بھٹو نے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے خلاف 1990 کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے الزامات لگاتے ہوئے 16 نومبر 1992 کو ایک لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا۔
یہ وہ وقت تھا جب نواز شریف کی حکومت اور اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان کے درمیان کشمکش شروع ہوچکی تھی اور بے نظیر بھٹو نے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نواز شریف حکومت کے خلاف لانگ مارچ شروع کیا۔
انہی دنوں فوج کے سربراہ جنرل آصف نواز دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے تھے اور جنرل وحید کاکڑ کو نیا آرمی چیف بنا دیا گیا تھا۔
چھبیس مئی 1993 کو نواز شریف کی حکومت کو سپریم کورٹ کے احکامات پر بحال کیا گیا اور اسی سال 16 جولائی 1993 کو بے نظیر بھٹو نے ایک مرتبہ پھر لانگ مارچ کیا۔ تاہم، اس مرتبہ اُنہیں اسلام آباد خاردار تاروں سے بند ملا۔
اس صورت حال میں فوجی سربراہ جنرل وحید کاکڑ نے صدر اسحاق اور وزیرِ اعظم نواز شریف کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیا۔
جماعتِ اسلامی کا ‘ملین مارچ’
سابق وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف جماعت اسلامی کے ‘ملین مارچ’ کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ پرجوش کارکنوں کی پولیس کے ہاتھوں پٹائی اور کارکنوں کے ہاتھوں پولیس کی پٹائی کے کئی عینی شاہدین آج بھی ان مظاہروں کو بھول نہیں پائے۔
جماعت اسلامی نے پہلا مارچ، ستمبر 1996 میں قاضی حسین احمد کی قیادت میں ‘ملین مارچ’ کی صورت میں کیا تھا۔ جس کا مقصد بے نظیر بھٹو کی حکومت کا خاتمہ تھا۔
اسلام آباد پولیس نے مارچ کے شرکا کو تین روز تک آبپارہ کے قریب روکے رکھا۔ یہ وہ پہلا موقع تھا جب اسلام آباد کے مکینوں نے آنسو گیس سے مکمل آشنائی حاصل کی اور اس دھرنے کے دوران آبپارہ مارکیٹ کے قریب گھروں میں شیل گرتے رہے۔
جماعت اسلامی کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا اور دھرنے کے تیسرے روز مظاہرین کو پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے، موجودہ ڈی چوک تک جانے کی اجازت دی گئی۔
جماعت اسلامی کے کارکنان نے وہیں نماز ادا کی اور سلام پھیرنے کے ساتھ ہی ہوا میں آنسو گیس کے شیل چلنے لگے۔ لیکن پارلیمنٹ ہاؤس تک پہنچنے کا دعویٰ پورا کرنے کے بعد جماعت اسلامی کے کارکن شام تک منتشر ہوگئے۔
اس دھرنے کے ایک ماہ بعد اسی دھرنے کو عوامی ردعمل سمجھتے ہوئے اس وقت کے صدر فاروق لغاری نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کردیا۔
وکلا کا لانگ مارچ
نو مارچ 2007 کو اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف کی جانب سے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو عہدے سے ہٹائے جانے پر وکلا نے عدلیہ کی بحالی کے لیے تحریک چلائی۔
تحریک کی وجہ سے ملک بھر میں احتجاج شروع ہوا اور پھر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، وکلاء رہنماؤں اعتزاز حسن، منیر اے ملک اور علی احمد کرد کی قیادت میں جون 2008 میں پہلا لانگ مارچ کیا گیا۔ جو باآسانی پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ لیکن کوئی کامیابی حاصل نہ کرسکا۔
نواز شریف نے اعتزاز احسن سے اس احتجاج کو دھرنے میں تبدیل نہ کرنے کی درخواست کی اور لانگ مارچ کے تمام شرکا منتشر ہوگئے۔ تاہم یہ تحریک ختم نہ ہوئی اور مارچ 2009 کو ایک بار پھر لانگ مارچ کا سلسلہ شروع ہوا۔
اس بار یہ مارچ لاہور سے نواز شریف کی قیادت میں شروع ہوا اور اسے روکنے کے لیے اسلام آباد اور راولپنڈی کو کنٹینروں کا شہر بنا دیا گیا۔ لیکن یہ مارچ ابھی گوجرانوالہ ہی پہنچا تھا کہ 16 مارچ 2009 کو وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت تمام معزول ججوں کو بحال کرنے کا اعلان کیا اور یوں یہ مارچ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔
کہا جاتا ہے کہ اس معاملے میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کردار ادا کیا تھا اور نواز شریف کو لانگ مارچ روکنے کے لیے کہا تھا۔
طاہرالقادری کا مارچ
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر علامہ طاہر القادری نے 2013 میں پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں لاہور سے اسلام آباد تک مارچ کیا تھا۔
سترہ جنوری کو اسلام آباد کی سخت سردی میں چار روز تک جاری رہنے والے دھرنے کا اختتام حکومت اور مظاہرین کے درمیان کامیاب مذاکرات پر ختم ہوا۔ سیکڑوں مرد وخواتین کو ‘فتح’ کی نوید سنائی گئی۔ جس میں مطالبات تسلیم کرنے کا اعلان کیا گیا اور تمام مظاہرین پُرامن طور پر منتشر ہوگئے۔
اگست 2014 میں طاہر القادری نے ماڈل ٹاؤن سانحے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اسلام آباد کی طرف ایک مرتبہ پھر مارچ کرنے کا فیصلہ کیا۔
پاکستان تحریک انصاف کا دھرنا
پاکستان تحریک انصاف نے 2013 کے انتخابات میں دھاندلی اور قومی اسمبلی کے چار حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی نہ کرائے جانے کے خلاف 14 اگست 2014 کو اسلام آباد کے لیے اپنے سفر کا آغاز کیا۔
لاہور سے شروع ہونے والا یہ مارچ دو روز میں اسلام آباد پہنچا۔ جہاں اُنہیں پہلے زیرو پوائنٹ اور پھر آبپارہ چوک رُکنے کی اجازت دی گئی۔
آبپارہ چوک میں پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف الگ الگ اپنے جلسے کرتے رہے اور پھر انہوں نے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے جانے کا اعلان کیا۔
ہزاروں کی تعداد میں پولیس، ایف سی اور کنٹینرز کی دیواریں، لیکن سب رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے عمران خان اور طاہر القادری 20 اگست کو ریڈ زون میں داخل ہوگئے۔ اس دوران حکومت نے تمام فورس کو پیچھے ہٹا لیا۔
اس کے بعد پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے 18 دسمبر تک ایک طویل دھرنا دیا گیا۔ جس میں دھرنے کے شرکا نے پارلیمنٹ ہاؤس اور وزیرِ اعظم ہاؤس کی طرف مارچ بھی کیا۔آنسو گیس کی برسات ہوئی، ہزاروں شیل فائر کیے گئے، سپریم کورٹ کے گیٹ پر کپڑے لٹکائے گئے۔ ڈی چوک میں جلیبی کی دکانیں بھی کھلیں۔ ڈی جے بٹ کے ترانے بھی چلے۔ لیکن بالاخر 70 دن کے بعد طاہر القادری اور 126 دن بعد عمران خان بھی دھرنا ختم کر کے روانہ ہوگئے۔
علامہ خادم رضوی کا دھرنا
نومبر 2017 میں مرکز میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی اور نواز شریف وزارت عظمیٰ کا منصب عدالت کی طرف سے نااہل قرار دیے جانے کے بعد چھوڑ چکے تھے۔ ان کی جگہ شاہد خاقان عباسی ملک کے وزیرِ اعظم تھے۔
انتخابی فارم میں تبدیلی کے خلاف اور توہین مذہب کا نعرہ لگا کر تحریک لبیک جیسی غیر معروف مذہبی جماعت نے اسلام آباد کا رُخ کیا اور راولپنڈی اسلام آباد کو ملانے والے فیض آباد چوک کے مقام پر دھرنا دیا۔
بائیس روز تک جاری رہنے والے اس دھرنے کی وجہ سے جڑواں شہروں کے درمیان سفر کرنے والے لاکھوں شہری شدید مشکلات کا شکار ہوئے۔ روزانہ فیض آباد میں مختلف ججز اور حکومت کو دھمکیاں دی جاتی رہیں۔ جس کے بعد وفاقی پولیس نے ایکشن شروع کیا اور 100سے زائد پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔
بعد ازاں بات مذاکرات پر آکر رُکی اور اس وقت کے وزیرِ قانون زاہد حامد کے استعفے کے بعد موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کے بطور ضامن دستخط کے ساتھ خادم رضوی کا یہ دھرنا ‘کامیابی’ حاصل کرنے کے بعد اختتام پذیر ہوا۔
آزادی مارچ 2019
پاکستان میں اپوزیشن جماعتوں نے سال 2018 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی، ملک میں مہنگائی سمیت کئی اہم ایشوز کو لے کر ‘مارچ’ کا آغاز کیا تھا۔جس کی قیادت جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کی تھی اور انہیں حزبِ اختلاف کی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کی حمایت حاصل تھی۔
جے یو آئی (ف) نے اس مارچ کو ‘آزادی مارچ’ کا نام دیا تھا اور وزیرِ اعظم عمران خان کے استعفے کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن اس دوران پاکستان مسلم (ق) کی قیادت کے ساتھ مذاکرات ہوئے اور مولانا فضل الرحمٰن چند یقین دہانیاں لے کر مارچ ختم کرکے واپس روانہ ہوگئے۔
اس مارچ سے حکومت گرانے کے مقصد میں کامیابی نہ ہوئی لیکن مولانا فضل الرحمٰن نے اپنے کارکنوں کی تعداد اور طاقت کے لحاظ سے بھرپور مظاہرہ کیا اور یہ مارچ ختم کردیا گیا۔
بلاول بھٹو زرداری کا عوامی مارچ
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف مشترکہ اپوزیشن لانگ مارچ کی باتیں کافی عرصے سے کررہی تھی لیکن عملی طور پر مارچ کے حوالے سے واضح تاریخ 23 مارچ 2022 کو دی گئی لیکن اس تاریخ کے اعلان سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے 27 فروری سے لانگ مارچ شروع کرنے کا اعلان کردیا۔
اس لانگ مارچ کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے کراچی سے اسلام آباد تک کا سفر کیا اور مختلف اضلاع میں جلسے کیے۔ اس لانگ مارچ میں صرف ان کی اپنی جماعت کے افراد شریک تھے۔
آٹھ مارچ کو اسلام آباد کے ڈی چوک میں پہنچنے کے بعد ایک بڑے جلسے سے خطاب کے بعد بلاول نے اس مارچ کے خاتمے کا اعلان کیا۔
دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد (پی ٹی ایم) کی طرف سے 23 مارچ کو دی گئی مارچ کی کال واپس لے لی گئی اور اس کی جگہ تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی جو کامیاب ہوئی اور عمران خان کو وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑے۔
حقیقی آزادی مارچ
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے 22 مئی کو اپنے’ حقیقی آزادی’ مارچ کا اعلان کیا تھا جس کے مطابق 25 مئی کو اسلام آباد میں دن تین بجے سری نگر ہائی وے پر ان کا آزادی مارچ پہنچے گا۔
ماضی کے مقابلے میں سندھ اور پنجاب کے بڑے شہروں سے اسلام آباد کی طرف مارچ کا اعلان کرنے کے بجائے پی ٹی آئی نے اپنے کارکنوں کو اسلام آباد پہنچنے کا کہا ہے اور عمران خان کے مطابق اسلام آباد میں 25 لاکھ لوگ جمع ہوں گے۔
پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے مختلف ریلیاں اسلام آباد لانے کا اعلان کیا گیا ہے لیکن باقاعدہ مارچ کی صورت میں عمران خان خود پشاور سے اسلام آباد آئیں گے یا پھر اسلام آباد میں ہی اپنے کارکنوں سے خطاب کریں گے ، اس بارے میں اب تک کوئی واضح اعلان نہیں کیا گیا۔