یہ سرزمین کہاں ہے اور کدھر ہے…..؟ یہ کسی کو نہیں معلوم۔ بہت لوگ اس کی تلاش میں نکلے اور بہتوں نے اس تلاش میں جان گنوائی مگر نہ اس سرزمین کا سراغ ملا نہ سونے کی جھک نظر آئی۔
سولہویں صدی عیسوی میں مغرب کی ہوس زر نے مشرق اور مغرب بعید پر چڑھائی کرائی۔ اس زمانے میں قزاقوں کے درمیان عقل کو حیران کرنے والی روایات پھیلی ہوئی تھیں کہ جنوبی امریکہ میں ایل ڈوراڈوEl Dorado، نام کی ایک سنہری سرزمین ہے ۔ جس کے فرش و در ودیوار سونے کے ہیں، یاقوت و زمرد اور پکھراج اس کے گلی کوچوں میں بے مایہ پتھروں کی طرح بکھرے پڑے رہتے ہیں۔ وہاں کی مٹی بھی سونا ہے اور پانی بھی سونا، ہر طرف سونا ہی سونا ہے۔
یہ سرزمین کہاں ہے اور کدھر ہے…..؟ یہ کسی کو نہیں معلوم۔ بہت لوگ اس کی تلاش میں نکلے اور بہتوں نے اس تلاش میں جان گنوائی مگر نہ اس سرزمین کا سراغ ملا نہ سونے کی جھک نظر آئی۔
اس شہر سے وابستہ داستانوں کی ابتداء جنوبی امریکا کے ملک کولمبیا سے ہوتی ہے، کولمبس کے ہاتھوں براعظم امریکا دریافت کے بعد سولہویںصدی کے ابتدائی حصے میں جب ہسپانیہ کے حملہ آور (جنہیں کونکونستا ڈور conquistadorکہا جاتا تھا) اس نئی دنیا میں پہنچے تو انہوں نے وہاں کے قدیم باشندوں (جن کو وہ ہندی سمجھتے تھے) کی بہت سی حیرت انگیز اور عجیب و غریب باتیں دیکھی اور سنیں۔ انہوں نے دیکھا کہ ان وحشی ریڈ انڈین قبائل کے ہاں سونے کی اشیاء کی اس قدر فراوانی ہے کہ جیسے مغربی دنیا میں لوہے کی اشیاء کی۔ انہوں نے ان قبائل کا محاصرہ کرلیا۔ ریڈ انڈینز بےچارے ایسی مخلوق کو پہلی مرتبہ دیکھ رہے تھے جس کے پاس چار ٹانگوں والا پھر تیلا سواری کا جانور (گھوڑا) تھا۔ انہوں نے بیلگاڑی کے پہیوں کی شکل اور جسمات کے سونے کے بڑے بڑے گول چکر ان ہسپانیوں کی خدمت میں پیش کیے تاکہ وہ ان علاقوں سے چلے جائیں مگر ان کو یہ حرکت بڑی مہنگی پڑی۔ ہسپانویوں نے اتنا سونا دیکھا تھا تو ان کی رال ٹپک پڑی اور پھر ان ریڈ انڈینز کا وہ حشر ہوا کہ توبہ ہی بھلی۔
ہسپانوی لٹیروں نے شمالی اور جنوبی امریکا کے سادہ لوح ریڈ انڈینوں سے پہلے پہل تو شیشے کے چمکدار ٹکڑوں کے عوض سونے کی اشیاء کا تبادلہ کیا۔ کیونکہ ریڈانڈین یہ جانتے ہی نہیں تھے کہ سونے کی ایک پیلی دھات نے سفید چمڑی والوں کے ہاں کس قدر طوفان مچا رکھا ہے۔ وہ شیشے کے چمکدار ٹکڑوں کو زیادہ قیمتی خیال کرتے رہے۔ مگر ہسپانوی اس سستے سودے پر مطمئن بھی نہیں تھے۔ بس ہوس تھی تو یہ کہ سونے کے تمام ذخائر پر قبضہ کرلیا جائے۔ہسپانویوں نے لاطینی امریکا کے قدیم باشندوں سے بہت زیادہ سونا اکٹھا کیا کہ انہیں یقین ہوگیا تھا کہ اس سرزمین پر سونے کے بےاندازہ ذخیرے کہیں موجود ہیں۔
ایل ڈوراڈو شہر کے حوالے سے سن گن پہلی بار 1531ء میں ملی، جب اس شہر کے مہا پجاری سے ملاقات کا ذکر ہسپانوی فوج کے ایک لیفٹیننٹ مارٹی نیز Martinez نے کیا ، اس کا اصل نام ڈائیگو ڈی اورڈاز Diego de Ordazتھا۔
اس کا بیان ہے کہ وہ ایک سمندری سفر پر کولمبیا جارہا تھا کہ ایک مقام پر اس کا بحری جہاز غرقاب ہو گیا تاہم الفِ لیلیٰ والے سندباد کی طرح لیفٹیننٹ مارٹی بھی بچ گیا، ساحل پر آنکھ کھلی تو خود کو ایک ایسے قبیلے میں پایا جس کا نام اسے بعد میں میوئسکا اور اس کے سردار کا نام، جو قبیلے کا مہاپجاری بھی تھا، ایل ڈوراڈو بتایا گیا،( بعد میں باہر کی دنیا میں اس شہر کا نام بھی ایل ڈوراڈو ہی مشہور ہوا)۔ لیفٹیننٹ مارٹی نے واپسی پر آ کر بتایا کہ یہ ایک سونے کا شہر ہے، جہاں ہر شے سونے کی ہے، اس کے بادشاہ ایل ڈوراڈو نے اس کی خوب خاطر تواضح کی۔
سیببستیان ڈی بین الکازر Sebastin de Belalczar ان ہسپانوی میں سے ایک تھا جنہوں نے ایک نئی دنیا دریافت کرنے کے بعد لاطینی امریکا میں سلطنت قائم کرلی۔ وہ ہسپانوی فاتح فرانسسکو پیزارو کا چیف لیفٹننٹ تھا، اس نے چند سرخ ہندی یا انڈین باشندوں کی زبانی سن کر ان کی دیومالائی اور لوک داستانیں قلمبند کیں۔ریڈ انڈینز کے مطابق ….
‘‘ہزاروں برس قبل زمین پر نہ جانور تھے نہ انسان ، چاند دیوتا کی آنکھوں سے ایک آنسو ٹپک کر زمین پر گرا اور جھیل گوآٹاویٹا وجود میں آئی۔ جو مقدس جھیل مانی جاتی ہے۔ چبچا قبیلے کے سرخ ہندی اسے قدرت کا تحفہ سمجھتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ اس جھیل کی تہہ میں ایک دیوی مہیب اژدھے کی صورت میں سورہی ہے، جو شخص اس جھیل کے ساکن پانی کو چھوتا ہے وہ اس دیوی کی نیند میں خلل ڈال کر جگا دیتا ہے او رپھر زندہ لوٹ کر نہیں آتا۔ ایک مرتبہ چبچا قبیلے کی ملکہ اور شہزادی بھی اسی طرح غائب ہوگئے، چنانچہ اس دیوی کے قہر سے بچنے کے لیے ہر سال چبچا قبیلے کا بادشاہ، اس دیوی کے لیے نذرانے چڑھاتا ہے جو آہستہ آہستہ ایک باقاعدہ رسم کی صورت اختیار کرگیا ۔ بعد میں آنے والے ہر بادشاہ نے اس رسم کو زندہ رکھا ۔یہ رسم کچھ یوں تھی کہ سردار گوآٹاویٹا دیوی کی قربان گاہ پر حاضری دیتا اور وہاں نذرانے چڑھاتا ۔ یہ رسم ایک بڑی جھیل کے عین درمیان میں ادا کی جاتی ۔ جہاں ایک بجرے کے ذریعے پہنچا جاتا تھا، یہ بجرا اندر سے گہرا رکھا گیا اور اسے قیمتی اشیاء سے سجا دیا گیا۔ اس موقع پر سردار کو خوش گوار عطریات اور تیل سے نہلایا جاتا اور اس کے جسم پر سونے کے زرات اس قدر ملتے ہیں کہ اب وہ سونے کا ایک جیتا جاگتا انسان نظر آتا تھا۔چنانچہ اسے ‘‘ایل ڈوراڈو ’’ (سونے سے بنا ہوا) کا لقب دیا گیا۔ پھر اسے بجرے میں سوار کر دیا جاتا اور اس کے قدموں میں سونے کا ڈھیر ، جواہرات وغیرہ رکھ دیے جاتے ، وہ اس میں گھٹنوں تک ڈوب جاتا۔ بجرہ دھیرے دھیرے ساحل سے جھیل کے وسط تک ایسے مقام پر پہنچ جاتا تھا جہاں سے اس کا فاصلہ ساحل سے ہر طرف یکساں تھا ۔ یہاں پہنچ کر ایل ڈوراڈو قدموں میں لگا سونے جواہرات کا ڈھیر پانی میں گرا دیتا اور اس کے بعد خود بھی پانی میں ڈپکی لگا دیتا اور اس کے جسم سے سونے کے ذرات پانی میں پھیل جاتے ، پھر بجرہ آہستہ آہستہ ساحل کی سمت آتا ۔ اس رسم سے واپس لوٹنے وال ایل ڈوراڈو دیوتائوں کا چہیتا اور سردار کہلاتا ۔
یہ کہانی سن کر سونے کے مہم جو متلاشی جوق در جوق عازم امریکا ہوئے جبکہ ان کے پہنچنے سے بہت پہلے ہسپانوی فاتحین (Conquistadores) نے میوئسکا قبیلے کے سونے کے ذخائر ان سے چھین چھان لیے تھے ۔ یہ سونا اور جواہرات اہل قبیلہ بیرونی دنیا کے ساتھ تجارت یعنی مال کے بدلے مال کی صورت میں حاصل کرکے جمع کیا کرتے تھے۔ ہسپانیوں نے قبیلے کے علاقے بھی اپنے قبضے میں لے لیے، معصوم قبائلی یا تو مارے گئے یا ہجرت کر گئے یا رعایا بنا لیے گئے۔ ان کا علاقہ، جو ان کی دیوی گوآٹا ویٹا کے نام پر ہے، آج بھی کولمبیا کے علاقے بوگوتا میںموجودہے۔
سونے کے حصول کے لیے ہسپانوی قزاق کو رٹیز Cortez میکسیکو کے ازٹک قبائل پر حملہ آور ہوگئے۔ انہوں نے ایک ایک اژٹک قبیلے کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ، لیکن سونے کے اصل ذخائر کا پتہ نہ چل سکا۔ اس دوران پورے یورپ میں انڈین اقوام کے پاس سونے کے ناقابل تصور ذخائر کی خبر پھیل چکی تھی۔ پھر کیا تھا لٹیروں کے گروہ در گروہ بہتی گنگا سے ہاتھ دھونے کو تیار ہوگئے۔
کتنے ہی لوگ اس تلاش میں نکلے۔ سونے کی تلاش میں بہت خاک چھانی، دربدر کی ٹھوکریں کھائیں مگر ایلڈوراڈو کا پتہ نہ پایا۔ان کی مہمات کے دوران ہر بار ایسا لگتا تھا کہ بس اب پہنچنے ہی والے ہیں، ایلڈوراڈو بس چند قدم کے فاصلے پر ہے، اگلی پہاڑی یا اگلے دریا سے آگے۔ مگر وہ اگلی پہاڑی یا اگلا دریا بھی ریگستان کے سراب کی طرح نظروں سے اوجھل ہوجاتے۔ ایلڈوراڈو بھی کسی خوابوں میں ہی بسا رہا، حقیقت بن کر نظروں کے سامنے کبھی نہ آیا۔
1536ء میں ایک سپاہی ‘‘گونزالوڈی قوئی ساڈا’’ اپنے ہمراہ چھ سو سپاہی اور 85 گھوڑے لے کر سونا لوٹنے نکل کھڑا ہوا۔ انہوں نے سن رکھا تھا کہ جنوبی امریکا میں اینڈیز پہاڑوں میں ایک بےپناہ دولت مند تہذیب موجود ہے جس کا بادشاہ ‘‘ایل ڈوراڈو’’ ہے۔ وہ اپنے جسم پر سونے کا براددہ چھڑک کر سونے اور جواہرات ساتھ لے کر ایک مقدس جھیل کواٹا ویٹا میں جاتا ہے اور یہ سب کچھ دیوتاؤں ے نام پر پانی میں پھینک دیتا ہے۔ قوئی ساڈا اور اس کے ہمراہیوں کا ارادہ ایلڈوراڈو سے یہی سونا چھیننے کا تھا اور جھیل مین ڈبوئے جانے والے سونے پر بھی ان کی نظر تھی۔
ہسپانوی لشکر سفر کی بےپناہ صعوبتیں اٹھاتا دلدلوں سے بچتا بچاتا جنوبی امریکا کے گھنے جنگلات میں سے نکل کر اندرونی میدانوں تک پہنچا تو اسے بدترین مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں ننگ دھڑنگ آدم خور وحشیوں نے ان پر زہریلے تیروں کی بوچھاڑ کردی۔ اس آفت سے چھٹکارا پانے کے بعد آخر وہ اینڈیز کے پہاڑوں میں جا پہنچے۔ اب تک ان کے دو سو ساتھی اس سفر میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ ان کا ارادہ ایلڈوراڈو سے جھڑپ کرنے کا تھا۔ مگر وہاں کوئی ایک ایلڈوراڈو تھا….؟ وہ علاقہ تو ریڈ انڈین قبائل سے بھرا پڑا تھا۔
یہاں ریڈ انڈین قبائل چبچا اور موئسکانے موجودہ کولمبیا کے دو علاقوں بگوٹا اور تنجہ پر حکمرانی قائم کر رکھی تھی۔ یہ لوگ آدم خوروں کے مقابلے میں نسبتاً مہذب تھے۔ لیکن ہسپانوی اور گھوڑے جیسی مخلوق دیکھ کر خوف.زدہ ہوگئے تھے۔ہسپانوی دھڑلے سے تنجہ میں داخل ہوگئے۔ بےچارے چب چا شہر سے بھاگ گئے تھے اور اپنا سونا پیچھے چھوڑ گئے تھے ۔ قوئی ساڈا نے یہاں زبردست لوٹ مار کے بعد بگوٹا کا رخ کیا۔ یہاں کے بادشاہ کو موت کے گھاٹ اتار دیا مگر اس وقت اس کی ساری امیدوں پر پانی پھر گیا جب اسے معلوم ہوا کہ شاہی خزانہ بڑی ہوشیاری سے غائب کردیا گیا ہے ریڈ انڈینوں پر بےپناہ تشدد کیا گیا لیکن انہوں نے خزانے کا پتہنہبتایا۔
1540 میں اِنکا (Inca) سلطنت کے ہسپانوی فاتح فرانسسکو پیزارو کے سوتیلے بھائی گونزالو پیزارو ایکویدور کے شمالی صوبے کوئٹو کا گورنر بنا کر بھیجا گیا۔ گونزالو نے وہاں کے باشندوں سے سنا کہ دور مشرق کی سمت ایک ایسی وادی ہے جو دارچینی اور سونے کے ذخائر سے مالا مال ہے۔ یہ باتیں تواتر سے سننے کے بعد گونزالو کے دل میں قسمت آزمانے کی سمائی۔ سو اس نے 340 سپاہی تیار کیے اور اپنے صوبے کے 4 ہزار افراد لیے اور 1541 میں سمتِ مشرق روانہ ہوا۔ اس کے ساتھ اس کا بھتیجا فرانسسکو دی اوریلانا بھی تھا۔
کام خاصا دشوار نکلا، رستے میں بھوک، پیاس، بیماریوں اور حملہ آوروں نے اس کے بہت سے ہم راہی مار دیے جس پر اس نے ایک مقام پر خود تو ہتھیار ڈال دیے البتہ اپنے بھتیجے کو مہم جاری رکھنے کا حکم دیا۔ اوریلانا کو کچھ ملایا نہیں البتہ چلتے چلتے اس نے ایمے زون کا علاقہ دریافت کر لیا۔ یہ لٹا پٹا لشکر جب اس علاقے میں پہنچا تو عورتوں کی ایک فوج نے ان پر حملہ کر دیا، اس پر اوریلانا نے انہیں ایمے زون کا نام دیا۔ یونانی دیومالا میں جنگ جُو عورتوں کی ایک قوم کا ذکر ہے جسے یونانی زبان میں ایمے زونی خواتین کا نام دیا جاتا ہے۔ اس علاقے میں بہنے والے دریا کا نام بھی ایمے زون پڑ گیا جو دنیا کا دوسرا سب سے طویل دریا تسلیم کیا جاتا ہے۔اس مہم کی ناکامی کے بعد سولہویں صدی کے وسط میں وینزوئلا کے ساحل کورو سے ایک گروہ اور دوسرا بوگوتا سے ایل ڈوراڈو کی تلاش میں نکلا۔ لیکن کچھ ہاتھ نہ آیا۔
اب سونے کے حصول کے لیے سب کی نگاہیں جھیل گواٹا ویٹا کی جانب اٹھیں۔ قدیم روایات کے مطابق ہر نیا بادشاہ اپنی حکومت کی ابتداء میں جھیل گواٹا ویٹا میں دیوی کے نام پر سونا اور قیمتی پتھر پھینکا کرتا تھا۔ اولین کوشش قوئی ساڈا کے بھائی ہرنن نے کی ۔اسے معلوم ہوا کہ 1550ء مین ایک شخص لیون نے کہا تھا کہ اگر جھیل سے پانی نکال دیا جائے تو خزانہ حاصل کرنا مشکل نہ ہوگا پس ہرنن نے بہت سے انڈین جمع کیے اور انہیں تھیلوں میں جھیل سے پانی نکال کر دور پھینکنے کے کام پر لگا دیا۔ مگر یہ کام موثر ثابت نہ ہوا اور ہرنن کو سونے کی تھوڑی سی مقدار ہی مل پائی۔ اس کے بعد ہسپانوی سوداگر سیپل ویڈا نے آٹھ ہزار انڈین مزدوروں کے ذریعے جھیل خالی کرانے کے عظیم منصوبے کا کام شروع کیا۔ ابتداء میں کامیابی ہوئی اور انڈین سرداروں کے چھاتی پر سجائے جانے والے سونے کے زیورات دریافت کیے گئے پانی کی سطح بھی بیس میٹر کے قریب گرا دی گئی۔ مگر ایک روز بڑا سخت حادثہ ہوا جھیل سے نکالا ہوا سارا پانی بند توڑ کر کئی مزدوروں کو ہلاک کرتا ہوا واپس جھیل میں بھر گیا۔ سیپل ویڈا کی کمر ٹوٹ گئی وہ بڑی کسمپرسی کے عالم میں مرا۔
1801ء میں ایک مشہور جرمن محقق الیگزنڈر ہمبولٹ نے جب یہ کہا کہ جھیل کی تہہ میں تین سو ملین ڈالر کا خزانہ موجود ہے تو اور بہت سے لوگوں کو بھی شوق چرایا۔ برطانوی بحریہ کے کپتان کا چرین نے جھیل کے پاس نہریں کھود کر پانی نکالنے کا منصوبہ تشکیل دیا۔ مگر جھیل کے پانی نے ان نہروں کوتوڑ کر کاچرین کا منصوبہ خاک میں ملا دیا۔
کیا جھیل خالی نہیں ہوسکتی….؟ اکثر لوگوں کا یہی خیال تھا اسی لیے کوئی بھی سرمایہ لگانے کے لیے تیار نہ تھا۔
مگر 1899ء میں سرمایہ داروں نے ایک انجینئر ہرنانڈوڈی ویلا کی خدمات حاصل کی۔ اس بیدار مغز شخص نے وہ کر دکھایا جو صدیوں سے مشکل تصور ہوتا تھا۔ اس نے زیر زمین ایک سرنگ کھدوائی جو جھیل کی تہہ میں ملتی تھی۔ جھیل کا سارا پانی اس زمین دوز سرنگ کے ذریعے باہر نکال دیا گیا۔ لیکن یہ دیکھ کر وہ بھونچکا رہ گئے کہ تہہ میں گاد اور کیچڑ کی ایک موٹی تہہ بچھی ہوئی ہے۔ اس میں سے خزانے کو کیسے نکالا جاتا….؟
رہی سہی امید اس وقت ختم ہوگئی جب دھوپ کی شدت سے کیچڑ کنکریٹ کی مانند سخت ہو کر خشک ہوگیا اور پھر کچھ ہی عرصے بعد جھیل دوبارہ پانی سے بھر گئی۔
1932ء میں غوطہ خوروں نے خزانہ نکالنے کی کوشش کی مگر کیچڑ کی تہہ دوبارہ آڑے آئی اور ان کی امیدوں پر اوس پڑ گئی۔ 1935ء میں بےشمار ناکامیوں کے بعد ایک اور بحری انجینئر ٹمپرلے نے جھیل کی تہہ پر فولاد کے ایک گولے پر پنجے نما ساختیں لگا کر ڈریج کا کام لیا مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ جھیل گواٹا ویٹا نے اپنے خزانے کو اگلنے سے انکار کردیا ہے۔
سب سے اہم تحقیق اپنے وقت کے بہت بڑے عالم فاضل، محقق، فلسفی اور شاعر سروالٹر ریلی نے 1595 ءمیں کی۔ انہوں نے دریافت کیا کہ ایل ڈوراڈو نام کا ایک شہر جنوبی امریکا کی ریاست گیانا کے دریائے اوری نوکو سے دور دراز پاریمے نامی ایک بڑی جھیل کے کنارے بھی واقع ہے۔ ایل ڈوراڈو ایک عرصے تک اس تحقیق کے باعث برطانوی اور دوسرے یورپی نقشوں کی زینت بنا رہا ، اگلی دو صدیوں میں خزانے کے حصول کی ناکام کوششیں جاری رہیں۔ تاہم بعد میں اٹھارہویں صدی کے اواخر میں جرمن محقق الیگژندرہمبولٹ نے خود لاطینی امریکا کا سفر کیا اور ایل ڈوراڈو کے وجود کا انکار کیا جس کے بعد یورپی نقشوں پر سے اس شہر ناموجود کو ہٹایا گیا۔ ادب و شعر کے علاوہ اس شہر پر درجن بھر فلمیں بھی بن چکی ہیں۔یہ تو ثابت ہو گیا کہ اس شہر کا کوئی وجود نہیں ہے تاہم ایل ڈوراڈو ایک استعارہ بن گیا۔
سینکڑوں برس گذر گئے لیکن آج بھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جو سونے کی سرزمین ایل ڈوراڈو کو حقیقی مانتے ہیں اور اس کی تلاش میں لگے رہتے ہیں، لیکن ایل ڈوراڈو کی سرزمین ایک ایسا خواب بن گئی ہے جس کی جستجو تو سب کو ہے مگر جس کو حاصل کرنا بہت مشکل بلکہ شاید نا ممکن ہے۔