کیا سپریم کورٹ کی جانب سے ’’نظریہ ضرورت ‘‘ کی تاریخ ایک مرتبہ پھر دہرائی جائے گی، کیا پس منظر میں رہ کر پیش منظر ترتیب دینے والے اس تاثر کو حقیقت کی شکل دیں گے جو ان کے بارے میں موجودہ حکومت میں قائم کیا گیا ہے۔
یہ اور اس طرح کے بہت سے خدشات اور وسوسے سپریم کورٹ کے فیصلے سے قبل صرف سیاسی حلقوں میں ہی نہیں بلکہ بالخصوص معاشی، کاروباری حلقوں اور مختلف طبقات اور شعبہ زندگی کے لوگوں میں بکثرت پائے جارہے تھے لیکن حکومت اور متحدہ اپوزیشن کے حامیوں سے قطع نظر دانشوروں، وکلاء برادری، صائب الرائے افراد اور متوازن سوچ رکھنے والی صاحب فکر شخصیات سے رابطوں میں گفتگو اور ان کی آراء (جو ان کی آوازوں میں محفوظ ہے) جو تصویر نظر آتی ہے وہ خاصی مختلف ہے۔
ان حلقوں کا کہنا ہے کہ فوج اور عدلیہ نے اپنے نیوٹرل ہونے کا ثبوت دیا ہے اور آخر وقت تک ایسی کوئی اطلاع نہیں ملی کہ عدلیہ پر کوئی دباؤ ہے‘ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کے لوگوں میں بے تحاشا مایوسی چھاگئی‘ پی ٹی آئی کے دوست حکومت کی حماقتیں اور غلطیاں گنوارہے تھے‘۔
یہ ہمیشہ سرپرائز کی بات کرتے رہے مگر سپریم کورٹ سے انہیں سرپرائز مل گیا‘ پہلا سوال جو سپریم کورٹ کے فیصلے سے متعلق تھا اس بارے میں کم و بیش تمام افراد نے اس فیصلے کی تعریف کی اور وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ نہ کرانے اور تحریک کو کالعدم قرار دینے سے پیدا ہونے والے بحران پر ازخود نوٹس لینے والے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ جو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں قائم کیا گیا تھا جس میں جسٹس اعجاز الحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل تھے کے متفقہ فیصلے کو سیاسی اور قومی بحران سے نکالنے کے لئے شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش اور یہ بھی کہا گیا کہ اس فیصلے سے معزز جج صاحبان نے جہاں ماضی کے بعض ’’متنازعہ فیصلوں‘‘ کے داغ دھوئے ہیں وہیں صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں انصاف کی فراہمی اور معاملہ فہمی سے عدلیہ کے وقار کو بلند کیا ہے۔
ان کا یہ فیصلہ صرف سیاسی ہی نہیں بلکہ قومی اور معاشی عدم استحکام کو ختم کرے گا اور ملک میں اس صورتحال سے جو غیریقینی حالات پیدا ہوئے ہیں وہ بھی معمول پر آئیں گے تاہم بڑی تعداد نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو اپنے مسائل بالخصوص ملک میں مہنگائی ختم کرنے کی خواہش کی توقع کے حوالے سے بھی دیکھا۔
کاروباری شخصیات جن میں چیمبر آف کامرس سے وابستہ شخصیات بھی شامل ہیں ان کی گفتگو میں اس حوالے سے خاصا اضطراب تھا کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے آج ہی جس مانیٹری پالیسی کا اعلان کیا ہے اس کے تحت شرح سود میں 250 بیسس (2.5 فیصد)کا اضافہ کر دیا گیا ہے جس سے شرح سود 12.25 فیصد ہوگئی ہے اور اس شرح سے اضافہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا ہے۔
ان شخصیات کے مطابق اس سے ایک طرف تو ملک بھر میں عام آدمی کیلئے مہنگائی کا طوفان آئے گا جس سے ان کا جینا دوبھر ہو جائے گا دوسرے کاروباری حلقے اب اس فیصلے سے ٹیکسوں میں خوفناک اضافے کے باعث اپنے کاروبار پاکستان سے ان ممالک یا ریاستوں میں منتقل کرنے کا سنجیدگی سے سوچیں گے جہاں کاروبار کیلئے پاکستان سے زیادہ مراعات اور ماحول موجود ہے۔
کاروباری طبقے سے تعلق رکھنے والے ان افراد کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت میں روپے کی قدر میں جس انداز سے کمی ہوئی ہے ایسا تو ممالک میں ہونے والی جنگوں کے دوران بھی نہیں ہوتا اور اب جبکہ ان کی حکومت رخصت ہونے والی ہے تو ڈالر کے ریٹ دو سو روپے کے لگ بھگ ہوچکا ہے۔
اس گفتگو میں کئے جانے والے دوسرے سوال کا موضوع اس تاثر کے بارے میں تھا جو موجودہ حکومت نے اپنے عوام مخالف اقدام پر مبنی پالیسیوں کی حمایت کے حوالے سے فوج کے ’’ ایک پیج‘‘ پر ہونے کے حوالے سے دے رکھا تھا اور اس تاثر کی بنیاد پر اپوزیشن کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا ’’ بہیمانہ سلسلہ‘‘ شروع دن سے ہی جاری رکھا ہوا تھا سیاسی مخالفین کو للکارنا، ان کی تضحیک کرنا اور دھمکیاں دینے کا سلسلہ حکمرانی کے روز اول سے ہی شروع کر دیا گیا تھا۔
جلسے جلوسوں، غیر ملکی دوروں، نجی محفلوں حتیٰ کہ غیر ملکی سربراہان سے ملاقاتوں میں بھی وہ اپنے سیاسی مخالفین کی کردار کشی کا تذکرہ کرنے سے نہیں چوکتے تھے اس حوالے سے ہونے والی گفتگو میں ان محب وطن، ملکی سالمیت اور قومی وقار کے حوالے سے فکرمند افراد کا کہنا تھا کہ عمران خان کو اقتدار میں لانے کیلئے ہوسکتا ہے کہ انہیں کوئی مددملی ہو اور اپوزیشن بھی اس حوالے سے تواتر کے ساتھ یہی موقف اختیار کرتی تھی جبکہ بلاول بھٹو نے تو انہیں ابتداء میں ہی ’’سلیکٹڈ وزیراعظم‘‘ قرار دے دیا تھا۔
تاہم اگر یہ درست بھی تھا تو یقیناً اس کا مقصد ایک سیاستدان کو اس کے بلند بانگ دعوئوں کی روشنی میں حکمرانی کرنے میں اس کا ساتھ دینا مقصود ہوسکتا ہے۔ لیکن اس جذبے کو عمران خان نے ایک پیج پر ہونے کا سلوگن دیکر اس تاثر سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔
نہ صرف وزیراعظم خود بلکہ بار بار اپنے وزراء سے بھی مختلف مواقعوں پر حکومت اور فوج کے ایک پیج پر ہونے کے دعوے کرتے اور کراتے، اب ظاہر ہے کہ فوج یا فوج کے سربراہ اس دعوے کی اعلانیہ تردید تو نہیں کرسکتے تھے تاہم فوج کا ترجمان ادارہ اس حوالے سے بین السطور کوئی بات اشارتاً کر دیا کرتا تھا۔
شعبہ سیاست اور عملی سیاست سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا تھا کہ اپنے مخالفین سے انتقام لینے کیلئے جس بیدردی سے اس تاثر کو استعمال کیا گیا اور اس سے بڑھ کر احتساب کے حوالے سے بھی اس تاثر کا حربہ اس طرح استعمال کیا گیا کہ فوج بھی سیاستدانوں کے احتساب کا یہی طریقہ چاہتی ہے حالانکہ یہ سارا عمل محض الزامات کی حد تک تھا اور پھر اپنی انتقامی کارروائیوں اور ناکامی کا الزام عدالتوں پر عائد کیا جاتا رہا۔
پانامہ کے نام پر احتساب کا نعرہ لگاکر اقامہ کی بنیاد پر کارروائی کی گئی۔ حالانکہ پراسیکیوشن حکومت کے اداروں کی ذمہ داری ہوتی ہے جن میں ایف آئی اے اور اس جیسے دیگر تحقیقاتی ادارے شامل ہوتے ہیں جو وفاقی حکومت کے کنٹرول میں (ماتحت) ہوتے ہیں۔
اس حوالے سے ایک ریٹائرڈ آرمی آفیسر کا کہنا تھا کہ موجودہ آرمی چیف نے بھی ہمیشہ سیاست کے حوالے سے فوج کے ’’نیوٹرل‘‘ ہونے کی بات کی ہے لیکن عمران خان نے غیرجانبداری کے اس مفہوم کا ’’خودساختہ ترجمہ‘‘ بھرے جلسہ عام میں جن الفاظ اور انداز میں کیا وہ ان کے منصب کیلئے باعث شرم تھا۔
پھر جب فوج نے ملک میں سیاسی استحکام کے حوالے سے انہیں حمایت کے ’’دست شفقت‘‘ سے محروم کیا تو پھر عمران خان نے ایوان میں اکثریت سے محروم ہونے کے باوجود ’’ سیاسی بدمعاشی‘‘ کے ذریعے اپوزیشن کی برتری کو تسلیم کرنے سے انکار کرنے کی فاش غلطی کی جس کا خمیازہ اب انہیں حکومت کی محرومی کی شکل میں بھگتنا پڑے گا اور تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے انہوں نے جو آئین شکنی کروائی اس کے نتائج بھی۔
تحریک انصاف کے چیئرمین کی حیثیت سے رفاقت رکھنے والی ایک شخصیت کا کہنا تھا کہ عمران خان کے اقتدار کے خاتمے میں دیگر بے شمار عوامل میں ایک اہم عنصر ان کے لب و لہجے اور طرزعمل کا بھی ہوگا جسے بدتمیزی ’’ منقتم مزاجی‘‘ اور احسان فراموشی بھی کہا جاسکتا ہے ان کی تمام اتحادی جماعتوں کے ارکان کا ان سے منحرف ہونا بھی اسی طرز عمل کی ایک بڑی وجہ تھی اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ارد گرد ایسا ہی مزاج رکھنے والے لوگوں کو پسند کرتے ہیں۔