پاکستان کی تاریخ میں اسمبلیوں کی تحلیل ایک آئینی مسئلہ رہا ہے اور جب جب یہ فیصلہ ہوا اسے کسی نہ کسی طرح ملک کی اعلیٰ ترین عدالتوں سے توثیق حاصل ہوتی رہی۔لیکن 1993 میں نواز شریف کی حکومت کی برطرفی واحد ایک موقع تھا جب سپریم کورٹ نے اسمبلی توڑنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔
سپریم کورٹ سے بحالی کے بعد بھی یہ حکومت اپنی مدت پوری نہیں کر پائی تھی لیکن اس کے بعد سے پاکستان میں سیاسی کشمکش کے اس دور کا آغاز ہوا جسے آج بھی ’نوے کی سیاست‘ کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔
سیاسی کشمکش کا آغاز
طویل چپقلش کے بعد صدر غلام اسحاق خان نے آئین کی دفعہ 58 ٹو بی کے تحت پانچ اگست 1990 کو وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کردیا تھا۔غلام اسحاق خان کے ساتھ خارجہ پالیسی اور اقتدار کی شراکت کے میں اختلافات کے علاوہ بے نظیر بھٹو ان پر یہ الزام بھی عائد کرتی تھیں کہ وہ اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) پر مشتمل اپوزیشن اور بالخصوص اس کے قائد نواز شریف کی سرپرستی کررہے ہیں۔
اکتوبر 1990 کے انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد کو کامیابی حاصل ہوئی اور نواز شریف وزیرِ اعظم بن گئے۔ حکومت کے آغاز میں صدر غلام اسحاق خان اور وزیرِ اعظم نواز شریف کے درمیان تعلقات ساز گار رہے۔
اس انتخاب میں پیپلز پارٹی، پاکستان ڈیموکریٹک الائنس (پی ڈی اے) کے پلیٹ فورم سے شریک ہوئی تھی۔ پی ڈی اے میں پیپلز پارٹی کے ساتھ مسلم لیگ کے ملک قاسم گروپ، تحریکِ استقلال اور تحریکِ نفاذ فقہ جعفریہ شامل تھیں۔
معروف قانون دان حامد خان اپنی کتاب ’کونسٹی ٹیوشنل اینڈ پولیٹیکل ہسٹری آف پاکستان‘ میں لکھتے ہیں کہ پی ڈی اے نے 1990 کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے تھے۔ البتہ ان الزامات کے باوجود اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔
وہ لکھتے ہیں کہ اس دور میں یہ افواہیں بھی گردش میں رہیں کہ قائدِ حزب اختلاف بے نظیر بھٹو سیاسی اختلافات کے باوجود وزیر اعظم نواز شریف کو حکومت کی برطرفی کا صدراتی اختیار یعنی آئین کے آرٹیکل 58 ٹو بی کو ختم کرنے میں تعاون کی پیش کش کررہی تھیں۔
ان کی نظر مستقبل کے سیاسی منظر نامے پر تھی لیکن کیوں کہ نواز شریف کے لیے غلام اسحاق خان کے ہاتھوں پیپلز پارٹی کی حکومت کی برطرفی سے اقتدار کی راہ ہموار ہوئی تھی اس لیے انہوں نے یہ پیش کش اس وقت قبول نہیں کی۔
پہلی دراڑ
غلام اسحاق خان کے معتمد روئیداد خان اپنی یادداشتوں ’ڈریمز گون سار، پاکستان فرام ایوب ٹو لغاری‘ میں لکھتے ہیں کہ صدر اور وزیر اعظم نواز شریف کے تعلقات میں پہلی دراڑ 1991 میں سامنے آئی۔
روئیداد خان 1985 میں ریٹائرڈ ہوچکے تھے لیکن بعدازاں صدر غلام اسحاق خان نے اپنے دیرینہ دوست اور کئی اہم سرکاری مناصب پر خدمات انجام دینے والے سابق بیوروکریٹ کے لیے جنرل سیکریٹری وزارتِ داخلہ کا خصوصی عہدہ تشکیل دیا گیا تھا۔
وہ لکھتے ہیں کہ دسمبر 1991 میں پارلیمانی روایت کے مطابق صدر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنا تھا۔ اس اجلاس میں بے نظیر بھٹو کی قیادت میں اپوزیشن نے صدر کے خطاب کے دوران ’گو بابا گو‘ کے نعرے لگائے اور اجلاس میں بد مزگی ہوئی۔
روئیداد خان کے مطابق :’’میرے لیے یہ حیران کُن تھا کہ وزیرِ اعظم نواز شریف اور ان کی جماعت اس موقعہ پر خاموش تماشائی بنے رہے جو بظاہر اپوزیشن کے ساتھ ایک طے شدہ حکمتِ عملی معلوم ہوتی تھی۔‘‘
ایوان میں پیش آنے والے اس واقعے کے بعد روئیداد خان صدر غلام اسحاق خان سے ملے اور کہا کہ ان کے خیال میں صدر کے ساتھ نواز شریف کی وفا داری مشکوک ہو چکی ہے۔ لیکن صدر نواز شریف کو شک کا فائدہ دیتے رہے۔
روئیداد خان کے مطابق لیکن اس کے بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ دوریاں پیدا ہونا شروع ہوگئی تھیں۔ اس سلسلے میں وہ دسمبر 1992 میں ایک ملاقات کا تذکرہ کرتے ہیں جب پیٹرولیم کے وزیر اور نواز شریف کے قریبی ترین وزرا میں شامل چوہدری نثار علی خان ان سے ملے۔ یہ ملاقات تین گھٹنے تک جاری رہی جس میں اتفاق کیا گیا کہ صدر اور وزیرِ اعظم کے درمیان تعلقات سازگار رکھنے کی کوششیں جاری رکھی جائیں گی۔
آرمی چیف کی تقرری پر اختلاف
اس ملاقات کے ایک ہفتے بعد آٹھ جنوری 1993 کو پاکستان کے آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ اپنے دورۂ امریکہ سے قبل اچانک انتقال کرگئے۔ اس کے بعد فوج کے نئے سربراہ کے انتخاب پر صدر اور وزیرِ اعظم کے درمیان پیدا ہونے والا اختلاف تنازع کی شکل اختیار کر گیا۔
جنرل آصف نواز جنجوعہ کے بھائی اور دفاعی و سیاسی تجزیہ کار شجاع نواز اپنی کتاب ’کراس سورڈز‘ میں لکھتے ہیں کہ جب نئے آرمی چیف کی تلاش شروع ہوئی تو نواز شریف چاہتے تھے کہ سب سے سینئر کور کمانڈر محمد اشرف جنجوعہ یہ عہدہ سنبھالیں۔لیکن صدر غلام اسحاق خان لیفٹننٹ جنرل فرخ خان کی طرف مائل تھے۔
وزیر اعظم نے صدر سے اس بات پر شدید اختلاف کا اظہار کیا۔ کیوں کہ نواز شریف کا خیال تھا کہ آرمی چیف آصف نواز کے ساتھ ان کی اختلافات کے پیچھے لیفٹننٹ جنرل فرخ خان کا ہاتھ تھا۔ نواز شریف نے ایم کیو ایم سے اتحاد کیا تھا اور سندھ میں بد امنی کی وجہ سے آصف نواز جنجوعہ کو اس فیصلے پر تشویش تھی۔ لیکن نواز شریف کی خواہش کے برخلاف صدر غلام اسحاق خان نے عبدالوحید کاکڑ کو فوج کا سربراہ بنا دیا۔
شجاع نواز کی کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ نواز شریف اس سے پہلے بھی جنرل اسلم بیگ کی سبکدوشی کے بعد اپنی تجویز کے برخلاف جنرل آصف نواز کو آرمی چیف بنانے پر صدر سے خفا ہوگئے تھے۔
وہ لکھتے ہیں کہ نواز شریف سمجھتے تھے کہ صدر ہر اس تجویز کو قبول کرنے کے پابند تھے جو انہیں وزیر اعظم کی جانب سے بھجوائی جائے لیکن ساتھ ہی انہیں یہ بھی اندازہ تھا کہ صدر کے پاس حکومت برطرف کرنے کا آئینی اختیار ہے جو انہیں بہت طاقت ور بناتا تھا۔اس لیے نواز شریف نے حکومت برطرف کرنے اور مسلح افواج کے سربراہان کی تعیناتی کے صدر کے آئینی اختیار کو ختم کرنے کے لیے کوششوں کا آغاز کر دیا تھا۔
حامد خان اپنی کتاب میں مزید لکھتے ہیں کہ ان اختلافات کے ساتھ ساتھ صدر کو اس بات پر بھی تشویش تھی کہ وزیرِ اعظم نواز شریف اور ان کا خاندان فوج کے کور کمانڈرز پر اثرا انداز ہونے کی کوششیں کرتا رہا ہے۔
پسِ پردہ سیاسی کھیل
روئیداد خان لکھتے ہیں کہ جنوری 1993 میں پیپلز پارٹی کے سابق وزیرِ قانون افتخار گیلانی نے ایک تقریر کی جس میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مکالمے کے آغاز کی بات کی گئی تھی اور ایسی کوششوں کی مخالفت کرنے والوں کو ملک دشمن قرار دیا تھا۔ وزیر اعظم نے افتخار گیلانی کی اس تجویز کا مثبت انداز میں جواب دیا تھا۔
اس دوران ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ حیران کُن طور پر بے نظیر بھٹو قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے خارجہ امور کی سربراہ منتخب ہوگئیں۔ وزیرِ اعظم کے بھائی اور اس وقت رکنِ قومی اسمبلی شہباز شریف نے ان کے انتخاب کی حمایت کی تھی۔
سیاسی فضا میں ان تبدیلیوں سے فروری 1993 میں آٹھویں ترمیم کے تحت صدر کے حکومت برطرف کرنے کا اختیار ختم کرنے کا موضوع سیاسی مباحثوں کا محور بن گیا۔ اسی دوران بے نظیر کے شوہر آصف زرداری کو ضمانت پر رہا کیا گیا اور وہ لندن روانہ ہوگئے۔ وزیراعظم نے بچے کی پیدائش پر بے نظیر بھٹو کو گلدستہ بھجوایا اور انہی دنوں پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما فاروق لغاری نے بیان دیا کہ ان کی جماعت سیاسی مکالمے کی مخالفت نہیں کرے گی۔
روئیداد خان لکھتے ہیں کہ ان واقعات و بیانات سے سیاسی فضا میں تبدیلی کے اشارے مل رہے تھے۔ بے نظیر لندن میں بیٹھ کر صدر اور وزیر اعظم کے درمیان جاری کشیدگی میں اپنے سیاسی مفاد کو آگے بڑھانے کے لیے منصوبے پر کام کررہی تھیں۔
انہوں نے ایک جانب افتخار گیلانی کے ذریعے آٹھویں ترمیم کے خاتمے کے لیے وزیر اعظم نواز شریف کے نمائندوں سے بات شروع کردی تھی تو دوسری جانب وہ صدر غلام اسحق خان کو بھی سیاسی تعاون کا اشارہ دے چکی تھیں۔
اسی دوران فروری 1993 میں وزیر اعظم نے سینیٹ سے خطاب میں واضح طور پر آٹھویں ترمیم ختم کرنے کا اعلان کر دیا جس کے بعد صدر اور وزیر اعظم کے درمیان اختلافات کی شدت عروج پر پہنچ گئی۔
ایک اور ڈرامائی موڑ
آٹھویں ترمیم کے خاتمے کی بحث گرم تھی کہ حالات نے ایک اور ڈرامائی موڑ لیا۔ 21 مارچ 1993 کو پاکستان مسلم لیگ جونیجو کے سربراہ محمد خان جونیجو کا انتقال ہو گیا جس کے بعد نواز شریف نے پارٹی کی قیادت سنبھالنے کی کوششیں تیز کر دیں۔
پارٹی کے سینئر رہنما حامد ناصر چٹھہ نے حکومت سے راستے الگ کرلیے اور چار وزرا نے اپنے استعفے صدر کو ارسال کر دیے۔ دوسری جانب پنجاب میں بھی جماعت داخلی اختلافات کا شکار ہوگئی اور صوبے میں منظور وٹو نے مسلم لیگ کا الگ دھڑا بنا لیا۔ یہ دھڑا بھی نواز شریف کا حریف تھا اور پنجاب میں کمزور تصور کیے جانے والے وزیرِ اعلیٰ غلام حیدر وائیں کے خلاف سرگرم تھا۔
روئیداد خان کے مطابق اس دوران پیپلز پارٹی نے صدر کو پیغام دے دیا تھا کہ وہ نواز شریف کی صدارتی اختیارات محدود کرنے کی کوششوں کے خلاف مزاحمت اور صدر سے سمجھوتے کے لیے تیار ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ فاروق لغاری نے انہیں پیغام پہنچایا کہ وقت آ پہنچا ہے کہ بے نظیر بھٹو اور صدر مل کر نواز شریف کو اقتدار سے باہر کر دیں۔
وزیرِ اعظم کا اعلانِ جنگ
نواز شریف کو اس صورتِ حال کی بھنک پڑ چکی تھی اور اسی لیے انہوں نے واضح اقدام کرنے کا فیصلہ کیا۔ 17 اپریل 1993 کی شام کو ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب میں انہوں نے صدر غلام اسحاق خان پر کئی سنگین الزامات عائد کیے۔
وزیرا عظم نےاپنے خطاب میں کہا:’’ جو خود کو ملک میں جمہوریت کے محافظ اور وفاق کی علامت سمجھتے ہیں اپنی بے اصول اور غلیظ سیاست سے ملک و قوم کی خدمت کی میری کوششوں کو خاک میں ملانا چاہتے ہیں۔ مجھ پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ میں اپنے عہدے سے دستبردار ہو جاؤں۔ لیکن میں نہ تو استعفی دوں گا، نہ قومی اسمبلی توڑوں گا، نہ کسی آمرانہ حکم (ڈکٹیشن) کی تعمیل کروں گا۔‘‘
یہ صدر کے خلاف کھلا اعلان جنگ تھا اور وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں یہ بھی واضح کیا تھا کہ وہ مستقبل میں صدر کی مشاورت کے بغیر اقدامات کر سکتے ہیں۔
حامد خان لکھتے ہیں کہ صدر کے لیے یہ واضح دھمکی تھی۔ غلام اسحاق خان اقتدار کے کھیل کے ایک کہنہ مشق کھلاڑی تھے۔ وزیر اعظم کے اس اعلان کے بعد ہی انہوں نے اپنے آئندہ اقدام کی تیاری شروع کردی تھی۔
روئیداد خان کے مطابق اگرچہ غلام اسحاق اپنے قریبی ساتھیوں کی تجویز کے باوجود اسمبلی تحلیل کرنے کے اقدام کے لیے آمادہ نہیں تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ دوسری مرتبہ کلہاڑی چلانے کا ارادہ نہیں رکھتے لیکن جو کام صدارتی کیمپ کے سخت گیر عناصر اور آئینی ماہرین نہیں کراسکے تھے وہ نواز شریف کی 17 اپریل کی تقریر نے کر دکھایا۔
صدر نے اسمبلی توڑ دی
وزیر اعظم کی تقریر کے اگلے ہی روز 18 اپریل 1993 کو غلام اسحاق خان نے اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔ اس حکم نامے میں انہوں نے حکومت برطرف کرنے کے اسباب میں لکھا کہ انہیں اپوزیشن اور حکومتی ارکان اسمبلی کے خاطر خواہ استعفی موصول ہوچکے ہیں جس سے نئے مینڈیٹ کے حصول کی خواہش کا اظہار ہوتا ہے۔
صدر نے 17 اپریل کو وزیر اعظم کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں صدر مملکت پر جو ریاست کا سربراہ اور قومی وحدت کی علامت ہے، سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
اس صدارتی حکم نامے میں نواز شریف حکومت کی نااہلی، کرپشن اور بد انتطامی، حکومتی اداروں اور بینکوں کو سیاسی اور ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرنے جیسے الزامات بھی عائد کیے۔ اس کے علاوہ نجکاری کے عمل میں بے ضابطگیوں کا ذکر بھی کیا گیا تھا۔
اسمبلی تحلیل کرنے کے بعد غلام اسحاق خان نے سردار بلخ شیر مزاری کو نگران وزیرِ اعظم مقرر کردیا اور نگران کابینہ میں بے نظیر بھٹو کے شوہر آصف زرداری سمیت پیپلز پارٹی کے دیگر وزرا بھی شامل ہوئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صدر غلام اسحاق خان نے 1990 میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کو جن الزامات کی بنیاد پر برطرف کیا تھا اس میں ان کے شوہر کی مبینہ کرپشن کے الزامات بھی شامل تھے۔
اسمبلی بحال ہوگئی
صدر کے اقدام کے خلاف اسپیکر قومی اسمبلی گوہر ایوب نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ یہ درخواست ابھی زیرِ التوا تھی کہ برطرف وزیرِ اعظم نواز شریف نے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کو بنیاد بنا کر آرٹیکل 184 تین کے تحت سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی۔
اس وقت تک پاکستان میں جتنی بار بھی قومی اسمبلی تحلیل ہوئی تو سپریم کورٹ سے اس اقدام کی توثیق ہوتی رہی تھی۔ تین برس قبل چھ اگست 1990 کو غلام اسحاق خان ہی کے اسمبلی توڑنے کے اقدام کو سپریم کورٹ نے خواجہ احمد طارق رحیم بنام وفاقِ پاکستان کیس میں اکثریتی فیصلے سے برقرار رکھا تھا اور عدالت نے حکومت برطرف کرنے کے لیے صدر کے بیان کردہ اسباب کو درست تسلیم کیا تھا۔
اس سے قبل مئی 1988 جنرل ضیا الحق نے وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی حکومت کر برطرف کیا تھا۔ یہ فیصلہ لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج ہوا تھا جہاں فل کورٹ نے اس کی سماعت کی تھی۔ ہائی کورٹ نے حکومت برطرف کرنے کے صدارتی حکم نامے کی قانونی حیثیت تسلیم نہیں کی البتہ اس بنیاد پر اسے برقرار رکھا کہ انتخابات کا اعلان ہوچکا ہے اور نگران حکومت کو الیکشن کا انعقاد کرانے کی اجازت دے دی۔
لاہور ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج ہوا۔ حاجی محمد سیف اللہ بنام وفاقِ پاکستان مقدمے میں سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔ لیکن پہلی بار یہ وضاحت بھی کردی گئی تھی کہ 58 ٹو بی کے تحت حکومت برطرف کرنے کا صدارتی انتخاب حتمی یا مطلق نہیں ہے بلکہ عدالت کو اس کے اسباب و وجوہ کا جائزہ لینے کا اختیار حاصل ہے۔
قانون دان حامد خان کے مطابق حاجی سیف اللہ بنام وفاق کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد صدر کے لیے حکومت کو برطرف کرنے کے لیے بیان کردہ اسباب کو سپریم کورٹ میں ثابت کرنا لازمی قرار پایا تھا اور سپریم کورٹ سے اس کی توثیق ضروری قرار پائی۔
اسی بنیاد پر چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں 11 رکنی بینچ نے اکثریتی فیصلے میں نواز شریف کی حکومت برطرف کرنے کے اسباب کو ناکافی قرار دیتے ہوئے صدر غلام اسحاق کے اقدام کو کالعدم قرار دے دیا۔
اسی طرح پارلیمانی نظام حکومت میں وزیر اعظم انتظامی اختیارات رکھتا ہے جن میں وہ صدر کے ماتحت یا ان کو جواب دہ نہیں ہے۔
اکثریتی فیصلے میں یہ بھی قرار دیا گیا کہ انتظامی امور یا نج کاری میں عدم شفافیت کے بیان کردہ اسباب مبہم ہیں اور ان کی بنیاد پر 58 ٹو بی کے تحت حکومت کی برطرفی کے اختیار کا استعمال نہیں کیا جاسکتا۔
اس کے علاوہ یہ نکتہ بھی شامل کیا گیا کہ صدر کے عائد کردہ کرپشن، بدانتظامی، مالی، خارجہ اور انتظامی امور سے متعلق غلط پالیسوں کے الزامات نہ ہی آزادانہ طور پر ثابت کیے جاسکتے ہیں اور نہ ہی یہ آرٹیکل 58 ٹو بی کے تحت صدر کے دائرۂ اختیار میں یہ آتا ہے۔
یہ فیصلہ اس اعتبار سے تاریخی تھا کہ اس میں پہلی بار قومی اسمبلی اور حکومت کو برطرفی کے بعد بحال کیا گیا تھا البتہ اس میں دو اہم آرا بھی سامنے آئیں۔
فیصلے میں شامل اہم آرا
کیس کی سماعت کرنے والے 11 رکنی بینچ شامل رفیق تارڑ نے قرار دیا کہ 58 ٹو بی کے تحت صدر کو یہ اختیار ہی نہیں کہ وہ منتخب وزیرِ اعظم کو بالواسطہ یا براہ راست برطرف کرے۔
انہوں نے یہ رائے بھی دی کہ اس طرح اسمبلی برطرف کرنے پر آئین کو پامال کرنے کے جرم میں دستور کی دفعہ چھ کے تحت عدالتی کارروائی ہونی چاہے۔
جب کہ 11 رکنی بینچ میں فیصلے سے اختلاف کرنے والے واحد جج جسٹس سجاد علی شاہ نے اس پر ایک تفصیلی نوٹ لکھا جس میں انہوں نے 15 نکات اٹھائے۔ انہوں نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ فاضل بینچ نے وزیرِاعظم کی 17 اپریل کی تقریر کے لب و لہجے کا نوٹس نہیں لیا جس سے یہ بات واضح ہوچکی تھی کہ، قطع نظر اس سے کہ ان اختلافات کا ذمے دار کون ہے، وفاق کے دو اہم مناصب کے درمیان کشیدگی اتنی بڑھ چکی ہے کہ کاروباورِ ریاست معطل ہو کر رہ گیا ہے۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے یہ بھی لکھا کہ عدالت نے خواجہ احمد طارق بنام وفاق کیس میں فراہم کردہ مواد کو بے نظیر حکومت کی برطرفی کے فیصلے کی توثیق کے لیے کافی تسلیم کیا تھا جب کہ اس معاملے میں پیش کردہ مواد اس کے مقابلے میں زیادہ ٹھوس ہے۔
انہوں ںے یہ نکتہ بھی اٹھایا کہ کیوں کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ نے براہ راست سنا ہے اس لیے خواجہ طارق رحیم اور حاجی سیف اللہ کیس میں وضع کردہ اصولوں کے تحت اسمبلی توڑنے کے لیے فراہم کردہ مواد کا جائزہ لینا زیادہ اہم ہے کیوں کہ اب اس عدالت سے اوپر کوئی عدالت نہیں ہے۔
سندھی اور پنجابی وزیر اعظم
دیگر نکات کے ساتھ انہوں نے اس بات کی بھی نشاند دہی کی کہ اس کیس کو سننے والے 11 ججوں میں سے سات وہ ہیں جنہوں نے خواجہ طارق رحیم کیس کی بھی سماعت کی تھی۔ ان سات ججوں میں سے چھ نے بے نظیر حکومت کی برطرفی اور قومی اسمبلی کی تحلیل کے صدارتی فیصلے کی توثیق کی تھی۔
ان چھ ججوں کے علاوہ تین جج مزید ایسے ہیں جنہوں نے بے نظیر حکومت کی برطرفی اور قومی اسمبلی کی تحلیل کے مقدمے کو لاہور ہائی کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کے ججوں کی حیثیت سے بھی سنا تھا اس فیصلے کی توثیق کی تھی۔ چناں چہ اب یہ صورت پیدا ہوگئی ہے کہ مقدمہ سننے والے 11 ججوں میں سے نو ایسے ہیں جو خواجہ احمد طارق رحیم کے مقدمے میں حکومت کی برطرفی کے فیصلے کو درست قرار دے چکے ہیں۔ لیکن نواز شریف کی برطرفی کے مقدمے میں ان کا کہنا ہے کہ حکومت ہٹانے اور اسمبلی توڑنے کے لیے جو مواد پیش کیا گیا ہے وہ ناکافی ہے، جب کہ بے نظیر حکومت کی برطرفی مقدمے میں اسے کافی تسلیم کیا گیا تھا۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں ایک اور نکتہ بھی اٹھایا کہ نواز شریف اور بے نظیر حکومت کی برطرفی کے جواز کے لیے پیش کردہ مواد میں فرق نہیں۔ لیکن دونوں مقدمات میں پیش کردہ مواد کی جانچ پرکھ یکساں پیمانوں پر نہیں کی جارہی ہے۔
انہوں نے اپنے اختلافی نوٹ لکھا کہ اس سے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے آئین کی دفعہ 58 ٹو بی پر سندھ کے دو وزرائے اعظم کو تو قربان کردیا گیا لیکن جب پنجاب کے وزیرِ اعظم کی باری آئی تو پیمانہ بدل دیا گیا۔
بینچ میں شامل جسٹس سعد سعود جان نے عدالت کی رائے سے اتفاق کیا تاہم 184 تین کے تحت بنیادی حقوق کی پامالی کی بنا پر کیس کو قابلِ سماعت قرار دینے کی رائے سے اختلاف کیا۔ ان اختلافی نوٹس کے ساتھ اکثریتی فیصلے میں نواز شریف کی حکومت بحال کردی گئی اور نگران حکومت کی تشکیل بھی کالعدم ہوگئی۔
جسٹس سجاد علی شاہ بعدازاں بے نظیر کی حکومت میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنے لیکن ججوں کی تقرری پر وزیرِ اعظم سے ان کے اختلافات پیدا ہوئے اور جب 1996 صدر فارق لغاری نے بے نظیر بھٹو کی حکومت برطرف کی تھی، جسٹس سجاد علی شاہ نے اس فیصلے کے خلاف درخواست کی سماعت کو بار بار ملتوی کیا اور اسمبلیاں بحال نہیں کی گئیں جب کہ بینچ میں شامل رفیق تاررڈ 1998 میں مسلم لیگ نواز کی حکومت میں صدرِ مملکت بنے۔
اور حکومت کو جانا پڑا
مئی1993 میں عدالت سے حکومت بحال ہونے کے بعد صدر اور وزیرِ اعظم کے درمیان کشیدگی میں کمی نہیں آئی۔ اس دوران ملک کے سب سے بڑے پنجاب صوبے میں آئینی بحران پیدا ہوا۔
حکومت کی برطرفی کے بعد نواز شریف کے حریف منظور وٹو پنجاب میں وزیر اعلیٰ غلام حیدر وائیں کو ہٹانے میں کامیاب ہوگئے۔
حامد خان اپنی کتاب ’اے ہسٹری آف جوڈیشری ان پاکستان‘ کے مطابق نواز شریف کو اندازہ ہو چکا تھا کہ پنجاب میں مخالف حکومت کے ساتھ وہ وفاق میں بہ آسانی کام نہیں کر پائیں گے۔
اس لیے جیسے ہی عدالت سے وفاقی حکومت بحال ہوئی تو نوازشریف نے گجرات کے چوہدری برادران کی مدد سے پنجاب میں حکومت بدلنے کا فیصلہ کیا۔ حکومت کی برطرفی کے دنوں میں ان کی پارٹی میں سے چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الہی نے نواز شریف کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔
حامد خان کے مطابق پنجاب میں وزارتِ اعلیٰ کے لیے نواز شریف نے پرویز الہی کی نامزدگی کی حمایت کی یقین دہانی کرائی تھی۔ اس لیے منظور وٹو کے خلاف ارکان کو منحرف کرانے کے لیے چوہدری برادران میدان میں اترے۔
تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد وزیر اعلی منظور وٹو نے اس وقت کے گورنر پنجاب الطاف حسین کو اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز ارسال کردی جس پرعمل کرتے ہوئے انہوں نے صوبائی اسمبلی توڑ دی۔
آئین کے آرٹیکل 112 ایک کے تحت جس وزیرِ اعلیٰ کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کی جاچکی ہو وہ اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز نہیں دے سکتا۔ اس کے باجود اسمبلی توڑ دی گئی اور یہ معاملہ لاہور ہائی کورٹ میں چلا گیا۔
چوہدری پرویز الہی نے اس اقدام کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور عدالت نے ان کی درخواست پر پنجاب اسمبلی توڑنے کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دے کر اسمبلی بحال کردی۔ لیکن اس فیصلے کے ایک دو گھنٹے بعد ہی وزیر اعلیٰ منظور وٹو نے ایک بار پھر اسمبلیاں تحلیل کرنے کی سمری بھیجی جس پر گورنرنے اسمبلی توڑ دی۔
روئیداد خان لکھتے ہیں کہ دوسری بار پنجاب اسمبلی توڑنے میں صدر غلام اسحاق خان کی تائید شامل نہیں تھی۔ تاہم اس فیصلے پر وزیر اعظم نواز شریف نے 29 جون کو صدر سے رابطہ کیا اور ان سےمطالبہ کیا کہ وہ گورنر کو برطرف کردیں۔
وفاق اور صوبہ آمنے سامنے
ان کے مطابق سپریم کورٹ سے بحالی کے بعد نواز شریف کے حوصلے پہلے ہی بہت بلند ہوچکے تھے۔ اس لیے صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف کے کہنے پر گورنر کی برطرفی کے مشوروں کو مسترد کردیا۔
اس پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے نواز شریف نے پارلیمنٹ سے پنجاب حکومت کا انتظام وفاق کے سپرد کرنے کی قرار داد منظور کرالی اور صدر کی توثیق کے بغیر ہی اس پر عمل درآمد بھی کردیا۔
وفاقی حکومت نے صوبے کا انتظام و انصرام سنبھالنے کے لیے اپنے نمائندے نامزد کردیے اور وفاقی فورسز اور رینجرز کو ان کی مدد کرنے کے احکامات بھی جاری کردیے۔ وفاقی حکومت نے ہدایت جاری کی کہ اگر ضروری ہو تو گورنر اور وزیر اعلیٰ کو بزور طاقت ان کے کام سے روک دیا جائے۔
وزیر اعلیٰ نے صدر کی ایما پر صوبائی پولیس کو وفاقی حکومت کے اقدامات کے خلاف مزاحمت کا حکم جاری کردیا۔ ادھر فوج کی ہائی کمان نے رینجرز کو وفاقی حکومت کے احکامات پر عمل درآمد سے روک دیا۔
وحید کاکڑ فارمولا
اس صورتِ حال کے بعد یہ بحران ہر گرزتے دن کے ساتھ شدید تر ہوتا گیا۔ روئیداد خان کے مطابق صدر اور وزیرِ اعظم کے درمیان مصالحت کے لیے مولانا سمیع الحق متحرک ہوئے۔ انہوں ںے پہلے صدر سے رابطہ کیا۔
صدر کا موقف تھا کہ انہیں نواز شریف سے کوئی مسئلہ نہیں لیکن اپوزیشن کا خیال ہے کہ اس بحران کا واحد حل نئے انتخابات ہیں۔
سمیع الحق نے صدر کو بتایا کہ نواز شریف انتخابات کے لیے تیار ہیں لیکن ان کی شرط ہے کہ اس سے پہلے صدر مستعفی ہوجائیں۔ اس پر غلام اسحاق خان نے مستعفی ہونے پر رضا مندی ظاہر کی۔ 12 سے 15 جولائی 1993 کے درمیان صدر اور وزیرِ اعظم کی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا اور اس فارمولے پر اتفاق کرلیا گیا۔
روئیداد خان کے مطابق یہ معالات طے ہونے کے بعد اس کی جزئیات طے کرنے کے لیے آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ سامنے آئے۔ 18 جولائی کو وہ وزیرِ اعظم کو لے کر ایوانِ صدر پہنچے۔ نواز شریف نے اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز صدر کو بھجوا دی اور مستعفی ہو گئے۔ صدر نے اسمبلی تحلیل کرکے استعفی دے دیا اور سینیٹ کے چیئرمین وسیم سجاد نے قائم مقام صدر کی ذمے داری سنبھال لی۔
حامد خان لکھتے ہیں کہ غلام اسحاق خان کی صدارت کی مدت ختم ہونے میں صرف چھ ماہ ہی باقی رہ گئے تھے۔ سپریم کورٹ سے نواز شریف کی حکومت بحال ہوچکی تھی اور انہیں اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل تھی۔ لیکن صرف پنجاب میں حکومت بدلنے کے لیے ہارس ٹریڈنگ کی کوششوں نے اس بحران کو سنگین کردیا۔
ان کے مطابق صدر، صوبائی حکومت اور بالآخر فوج کے دباؤ کے سامنے ان حالات میں نواز شریف کو جس جرات کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا وہ نہیں کر سکے اور اپنی حکومت کا خاتمہ تسلیم کرلیا۔