پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے مستقبل سے متعلق امریکہ میں موجود سیکیورٹی اور سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ معاملات کو مزید بگڑنے سے بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔
دو اپریل کو پاکستان کے دارالحکومت میں منعقد ہونے والے ‘اسلام آباد سیکیورٹی ڈائیلاگ’ سے خطاب میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاک امریکہ تعلقات کی اہمیت پر زور دیا تھا۔ انہوں نے بعض امور میں مغربی ممالک کے پاکستان کے لیے عدم تعاون پر بھی تشویش کا اظہار کیا تھا۔
نیو لائنز انسٹی ٹیوٹ فار اسٹرٹیجی اینڈ پالیسی کے انالیٹکل ڈویلپمنٹ کے ڈائریکٹر کامران بخاری نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ عمران خان کی جانب سے دھمکی کے الزام کے بعد سے ‘ڈیمج کنٹرول’ یعنی حالات کو مزید بگڑنے سے بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جنرل باجوہ کی جانب سے روس کی مذمت اور پاکستان امریکہ تعلقات پر زور دینے سے انہوں نے امریکہ کو یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور دونوں ممالک کے مفادات مشترک ہیں۔
ان کے بقول جنرل باجوہ کی تقریر سے یہ پیؓغام دینے کی کوشش بھی کی گئی ہے کہ امریکہ اس وقت پاکستان میں درپیش سیاسی طوفان پر زیادہ دھیان نہ دے کیوں کہ یہ گزر جائے گا۔
جنرل باجوہ نے دو اپریل کو اپنے خطاب میں کہا تھا کہ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ دیرپا اور بہترین اسٹرٹیجک تعلقات رہے ہیں جو پاکستان کی سب سے بڑی ایکسپورٹ مارکیٹ ہے۔ پاکستان چین اور امریکہ دونوں کے ساتھ اپنے تعلقات میں وسعت کا خواہاں ہے، جو اس قیمت پر نہ ہوں جس سے کسی ایک ملک کے ساتھ ہمارے تعلقات متاثر ہوتے ہوں۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان مسلسل یہ الزام عائد کر رہے ہیں کہ امریکہ کی جانب سے ان کی حکومت گرانے کے لیے دھمکی دی گئی تھی۔ تاہم امریکہ ان الزامات کی بارہا تردید کر چکا ہے۔
ایسے میں جب پاکستان کے وزیرِ اعظم امریکہ پر الزامات عائد کر رہے ہیں وہیں فوج کے سربراہ پاک امریکہ تعلقات کی اہمیت پر زور دے رہے ہیں۔
لیکن کیا جنرل باجوہ کے پیغام کو امریکہ میں پذیرائی ملے گی؟ اس سوال پر تجزیہ کار منقسم نظر آئے۔
واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک یونائیٹڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ فار پیس میں جنوبی ایشیا کے لیے سینئر ایڈوائزر ڈینئل مارکی نے بذریعہ ای میل وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے خیال میں جنرل باجوہ کے حالیہ بیان کی وجہ سے پاک امریکہ تعلقات میں برف پگھلنے کے امکانات نہیں۔
ان کے مطابق دونوں ممالک کے تعلقات میں پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتِ حال سے پہلے ہی دباؤ پایا جاتا تھا۔ لیکن انہوں نے بھی کامران بخاری کے خیال سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن جنرل باجوہ کے بیان کو حالات مزید خراب ہونے سے بچانے کی کوشش کے طور پر دیکھے گا۔
امریکی ادارے سینٹر فار اے نیو امیرکن سیکیورٹی میں انڈو پیسیفک سیکیورٹی پروگرام کی ڈائریکٹر لیزا کرٹس نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے خیال میں پاکستان میں جاری سیاسی بحران کا پاک امریکہ تعلقات پر کم ہی اثر پڑے گا۔
ان کے بقول پاکستان کے نظام حکومت میں پاکستانی فوج کے پاس بہت زیادہ طاقت ہے۔ پاکستان کے سویلین سیاسی سیٹ اپ میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کا ان مسائل پر بہت ہی معمولی اثر پڑتا ہے جن سے امریکہ کا کوئی بھی تعلق بنتا ہو جیسا کہ بھارت اور چین کے ساتھ تعلقات۔
لیزا کرٹس کہتی ہیں امریکہ کے پاس پاکستان کی اندرونی سیاسی صورتِ حال میں دلچسپی لینے کی کوئی وجہ نہیں۔ یہ واقعی وہ چیز ہے جس کا فیصلہ پاکستان کے عوام کو کرنا ہے۔
ان کے بقول، “امریکہ پاکستان کے سیاسی بحران سے دور رہنا ہی مناسب سمجھے گا۔ اگر عمران خان امریکہ مخالف جذبات کو بھڑکانے کا انتخاب کرتے ہیں اور اگر لوگ احتجاج کے لیے باہر نکل آتے ہیں تو یہ واقعی ایک مسئلہ ہو سکتا ہے۔”
جنرل باجوہ نے اپنے خطاب میں اس بات کی بھی نشاندہی کی تھی کہ پاکستان کے ترکی سے ہیلی کاپٹرز لینے کے معاملے میں ان ہیلی کاپٹروں کے امریکی انجن کے استعمال کے لیے امریکہ سے تھرڈ پارٹی کلئیرنس درکارتھی۔ ان کے بقول امریکہ اور مغربی ممالک نے یہ کلئیرنس دینے میں تعاون نہیں کیا تھا۔
اس معاملے پر کامران بخاری کہتے ہیں جنرل باجوہ نے امریکی قیادت پر نہ صرف یہ واضح کیا تھا کہ ہم تعلقات بہتر کرنا چاہتے ہیں بلکہ وہ یہ بھی بتا رہے ہیں کہ کیسے تعلقات کی بہتری کی طرف قدم بڑھایا جا سکتا ہے۔
ان کے خیال میں فوجی ساز و سامان کی خرید و فروخت میں اجازت نامے نہ دینا، ایسے ہی اقدامات کسی بھی ملک پر دباؤ ڈالنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ لیکن ان کے مطابق جب مذاکرات شروع ہوں گے تو پھر اس قسم کی اجازتیں بھی دی جا سکتی ہیں۔
یاد رہے کہ امریکہ پاکستان کو2002 سے اب تک 14 ارب ڈالر کی عسکری امداد سمیت 33 ارب ڈالر امداد دے چکا ہے۔امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سال 2018 میں پاکستان کے لیے سیکیورٹی امداد پر پابندی عائد کر دی تھی
پچھلے برس اگست میں طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے ستمبر کے مہینے میں کانگریس میں ایک سماعت کے دوران کہا تھا کہ واشنگٹن پاکستان کے ساتھ تعلقات کا دوبارہ تعین کر رہا ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بحالی کے سوال پر کامران بخاری نے کہا کہ یہ عمل سفارتی سطح پر ہی شروع ہوسکتا ہے اور اس کا آغاز پاکستان میں نئی حکومت کے آنے کے بعد ہی ہوسکے گا۔
جنرل باجوہ کی جانب سے پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو زیادہ اہمیت دینے کے سوال پر ڈینئل مارکی کا کہنا تھا کہ امریکہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت سے زیادہ ہمدردی رکھتا ہے۔ لیکن پچھلے 20 برسوں میں واشنگٹن کی ان دونوں ملکوں سے متعلق پالیسی کو ‘ڈی ہائفینیشن’ کہا جا سکتا ہے، یعنی اس کا مقصد دونوں ملکوں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانا ہے۔
ان کے بقول امریکہ اور پاکستان کے مستقبل کے لیے بہتر راستہ ڈھونڈنے میں ناکامی کی بہت سی وجوہ ہیں، جن میں پاکستان کے اپنے فیصلے بھی شامل ہیں۔
ڈینئل مارکی کے خیال میں مستقبل میں پاکستان کو چین اور روس کے ساتھ اچھے تعلقات اور امریکہ سے دوری سے متعلق خطرات اور فوائد سے متعلق فیصلے کرنا ہوں گے۔لیکن کیا امریکہ سے دوری اس (پاکستان) کے مفاد میں ہے؟۔ اس کا جواب پاکستان کے پاس ہی ہے۔