ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ مسترد: سپریم کورٹ میں جمعرات کی سماعت کے دوران کب کیا ہوا؟

ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ مسترد: سپریم کورٹ میں جمعرات کی سماعت کے دوران کب کیا ہوا؟

سپریم کورٹ آف پاکستان نے تین اپریل کی ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے قومی اسمبلی بحال کر دی ہے۔ عدالت نے اسپیکر قومی اسمبلی کو حکم دیا ہے کہ نو اپریل کو وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف آنے والی تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کا عمل مکمل کرایا جائے۔

عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ جب ڈپٹی اسپیکر کا اقدام غیر آئینی تھا تو اس کے بعد وزیرِ اعظم کا اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے صدر کو ایڈوائس بھیجنا بھی غیر قانونی تھا۔ لہذٰا صدرِ مملکت کی جانب سے عبوری حکومت کے قیام کے لیے کیے گئے اقدامات بھی غیر آئینی تھے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ کے اس اہم فیصلے کو سنانے والے بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس منیب اختر، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل تھے۔

عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 58 اے کے تحت تحریکِ عدم اعتماد کے دوران وزیرِ اعظم پاکستان صدرِ مملکت کو اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس نہیں بھیج سکتے تھے۔ لہذٰا اب بھی وہ تحریکِ عدم اعتماد کی کارروائی مکمل ہونے تک صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس نہیں بھیج سکتے۔

عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ تین اپریل کو صدرِ مملکت کی جانب سے قومی اسمبلی توڑنے کا اقدام بھی آئین سے متصادم تھا، لہذٰا اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ اس لیےقومی اسمبلی تین اپریل سے لے کر سات اپریل تک بھی بحال تھی اور اب بھی بحال رہے گی۔

عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ وزیرِ اعظم سمیت تمام وفاقی وزرا، تین اپریل کی تاریخ پر اپنے عہدوں پر بحال تصور کیے جائیں گے۔

سپریم کورٹ کے پانچ رُکنی بینچ کے متفقہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اسپیکر کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ نو اپریل کو صبح ساڑھے دس بجے تک قومی اسمبلی کا اجلاس بلا کر تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کرائیں۔

عدالت نے حکم دیا ہے کہ ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے تک قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی نہیں کیا جائے گا۔ اگر تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے تو نئے قائدِ ایوان کا انتخاب اسی اسمبلی اجلاس کے دوران عمل میں لایا جائے۔ اگر تحریک کامیاب نہیں ہوتی تو اُمور مملکت معمول کے مطابق چلائے جائیں۔

سپریم کورٹ نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ نو اپریل کو تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لیے کسی بھی رُکن کو ووٹ ڈالنے سے نہ روکا جائے۔

‘خدا قسم قوم قیادت کے لیے ترس رہی ہے’

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے اسپیکر رولنگ از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

اس کیس میں اپوزیشن کے تمام وکلا نے اپنے دلائل مکمل کیے اور آخری دن اسپیکر کے وکیل نعیم بخاری، عمران خان کے وکیل امتیاز صدیقی اور اٹارنی جنرل خالد جاوید نے دلائل دیے۔


سماعت کے آخر میں کمرۂ عدالت میں جذباتی ماحول تھا جہاں اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے عدالت سے اپیل کی کہ آئین شکنی کےاس فیصلے کو خدارا واپس لیا جائے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیاست میں سب کا احترام ہے لیکن خدا قسم قوم قیادت کے لیے ترس رہی ہے۔

اسپیکر رولنگ غلط ہے: چیف جسٹس

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے دورانِ سماعت اٹارنی جنرل کے دلائل کے دوران ایک موقع پر ریمارکس دیے کہ ایک بات تو واضح نظر آ رہی ہے اور وہ یہ کہ اسپیکر رولنگ غلط ہے، دیکھنا ہے اب اس سے آگے کیا ہو گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اسمبلی بحال ہو گی تو بھی ملک میں استحکام نہیں ہوگا لیکن ملک کو استحکام کی ضرورت ہے جب کہ اپوزیشن بھی استحکام کا کہتی ہے، قومی مفاد کو بھی ہم نے دیکھنا ہے۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید نے بھی کہا کہ میں رولنگ کا دفاع نہیں کر رہا لیکن میرا مدعا نئے انتخابات ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے حالات و نتائج کو دیکھ کر فیصلہ نہیں کرنا ہے، عدالت نے آئین کو مدِنظر رکھ کر فیصلہ کرنا ہے، کل کو کوئی اسپیکر آئے گا وہ اپنی مرضی کرے گا، عدالت نے نہیں دیکھنا کون آئے گا کون نہیں اور ہم نتائج پر نہیں جائیں گے۔

عدالت اللہ اور پاکستان کے نام پر پارلیمنٹ کو بحال کرے:شہباز شریف

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے شہباز شریف کو روسٹرم پر بلایا جہاں بات کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ رولنگ ختم ہونے پر تحریکِ عدم اعتماد بحال ہو جائے گی اور اسپیکر کی رولنگ کالعدم ہو تو اسمبلی کی تحلیل ازخود ختم ہو جائے گی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں کمزور نہیں بلکہ مضبوط حکومت چاہیے۔

شہباز شریف نے کہا کہ اگر عدالت اسپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دیتی ہے تو نتیجتاً وزیر اعظم کے اقدامات ختم ہو جائیں گے اور اس کے نتیجے میں ختم کی گئی اسمبلی بحال ہوجائے گی، آئین کو جیسے توڑا گیا اور معطل کیا گیا وہاں نتائج بھی ہوں گے۔

شہباز شریف نے جذباتی ہو کر کہا کہ عدالت اللہ اور پاکستان کے نام پر پارلیمنٹ کو بحال کرے، پارلیمنٹ کو عدم اعتماد پر ووٹ کرنے دیا جائے۔شہباز شریف نے کہا کہ حکومت 174 ووٹوں پر قائم تھی اور ہمارے ممبر 177 ہیں، آئین کی بحالی اور عوام کے لیے اپنا خون پسینہ بہائیں گے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 2013 کے الیکشن میں آپ کی کتنی نشستیں تھیں؟ شہباز شریف نے کہا کہ گزشتہ انتخابات میں 150 سے زائد نشستیں تھیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اپوزیشن پہلے دن سے الیکشن کرانا چاہتی تھی، شہباز شریف نے کہا کہ مسئلہ آئین توڑنے کا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آئین کی مرمت ہم کر دیں گے۔

سپریم کورٹ کے باہر پولیس کی بھاری نفری بھی تعینات کی گئی تھی۔
سپریم کورٹ کے باہر پولیس کی بھاری نفری بھی تعینات کی گئی تھی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ عدم اعتماد اگر کامیاب ہوتی ہے تو اسمبلی کا کتنا دورانیہ رہے گا؟ شہباز شریف نے بتایا کہ ڈیڑھ سال پارلیمنٹ کا ابھی باقی ہے، اپوزیشن سے مل کر انتخابی اصلاحات کریں گے تاکہ شفاف الیکشن ہو سکے۔

انتخابی اصلاحات کے لیے حکومت چاہتے ہیں: بلاول بھٹو زرداری

کمرۂ عدالت میں بلاول بھٹو بھی پیش ہوئے اور کہا کہ اپنے لیے حکومت بنانا ہماری ترجیح نہیں، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غیر آئینی ہے اور اسی غیر قانونی رولنگ نے وزیرِاعظم کی جمہوریت پر سوال اٹھایا، ہم حکومت بنا کر اتنخابی اصلاحات کرنا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا انتخابی اصلاحات کی تجویز ٹیبل ہوئی؟ کیا انتخابی اصلاحات کے لیے کوئی بل جمع کروایا ہے؟ ہمیں پتا ہے آپ کے خاندان نے جمہوریت کے لیے قربانیاں دی ہیں، آپ کی سینیٹ میں جو انتخابی اصلاحات کی تجاویز ہیں وہ منگوا لیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بلاول بھٹو آپ کا شکریہ کہ آپ نے بہت زبردست بات کی اور آپ واحد ہیں جن کے چہرے پر مسکراہٹ تھی، ہمیں آئین پر سختی سے عمل کرتے ہوئے فیصلہ جاری کرنے دیں، فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق ہوگا۔ہمیں معلوم ہے کہ بلاول بھٹو کی تین نسلوں نے جمہوریت کی بقا کے لیے قربانی دی ہے۔

نعیم بخاری کے عدالت میں دلائل

اس سے پہلے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے وکیل نعیم بخاری نے پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کے میٹنگ منٹس سپریم کورٹ میں پیش کیے جس میں انکشاف ہوا کہ وزیرِ خارجہ اور مشیر قومی سلامتی اجلاس میں شریک نہیں تھے۔

میٹنگ منٹس پیش کیے جانے کے بعد عدالت نے استفسار کیا کہ کیا فارن منسٹر اس میٹنگ میں موجود تھے یا نہیں؟ نعیم بخاری نے جواب دیا کہ نوٹس بھجوایا گیا تھا۔ عدالت نے پھر استفسار کیا کہ نوٹس تو چلا گیا، ہمارا سوال یہ ہے کہ وہ قومی سلامتی میٹنگ میں موجود تھے یا نہیں؟ نعیم بخاری نے کہا کہ لگتا ہے اس میٹنگ میں موجود نہیں تھے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایڈوائزر قومی سلامتی معید یوسف کا نام بھی اس میں موجود نہیں ہے۔ نعیم بخاری نے فواد چوہدری کا پوائنٹ آف آرڈرکا ٹرانسکرپٹ بھی عدالت میں پیش کر دیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پوائنٹ آف آرڈر پر رولنگ کے بجائے اپوزیشن سے جواب نہیں لینا چاہیے تھا؟ نعیم بخاری نے کہا کہ پوائنٹ آف آرڈر پر بحث نہیں ہوتی۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ رولنگ ڈپٹی اسپیکر نے دی جب کہ رولنگ پر دستخط اسپیکر کے ہیں، رولنگ پر ڈپٹی اسپیکر کے دستخط کہاں ہیں، پارلیمانی کمیٹی میٹنگ منٹس میں ڈپٹی اسپیکر کی موجودگی بھی ظاہر نہیں ہوتی۔

عدالت نے صدر اور وزیرِ اعظم کے اقدامات کو بھی غیر آئینی قرار دے دیا ہے۔
عدالت نے صدر اور وزیرِ اعظم کے اقدامات کو بھی غیر آئینی قرار دے دیا ہے۔

نعیم بخاری نے کہا کہ جو دستاویز پیش کی ہے وہ شاید اصلی والی نہیں ہے۔

دلائل کے آغاز میں جسٹس جمال مندوخیل نےنعیم بخاری سے استفسار کیا تھا کہ کیا اسپیکر کا عدم اعتماد پر ووٹنگ نہ کرانا آئین کی خلاف ورزی ہے؟ نعیم بخاری نے سوالیہ انداز میں کہا کہ اگر اسپیکر پوائنٹ آف آرڈر مسترد کر دیتا تو کیا عدالت تب بھی مداخلت کرتی؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا زیر التوا تحریک عدم اعتماد پوائنٹ آف آرڈر پر مسترد ہو سکتی ہے؟

نعیم بخاری نے کہا کہ پوائنٹ آف آرڈر پر اسپیکر تحریک عدم اعتماد مسترد کر سکتا ہے، پہلے کبھی ایسا ہوا نہیں لیکن اسپیکر کا اختیار ضرور ہے، اب نئے انتخابات کا اعلان ہوچکا اور اب معاملہ عوام کے پاس ہے، اس لیے سپریم کورٹ کو اب یہ معاملہ نہیں دیکھنا چاہیے۔

ایوان کی کارروائی عدلیہ کے اختیار سے باہر ہے: وکیل عمران خان

وزیر اعظم عمران خان کے وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل میں کہا کہ عدالت نے ماضی میں بھی پارلیمان کی کارروائی میں مداخلت نہیں کی اور عدالت کے سامنے معاملہ ہاؤس کی کارروائی کا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے قومی مفاد کو دیکھنا ہے۔

امتیاز صدیقی نے دلائل میں کہا کہ ایوان کی کارروائی عدلیہ کے اختیار سے باہر ہے بلکہ عدالت پارلیمان کو اپنا گند خود صاف کرنے کا کہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ انتخابات کی کال دے کر 90 دن کے لیے ملک کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے اور اب وزیرِِاعظم صدر کی ہدایات پر کام کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بظاہر آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی ہوئی ہے، اگر کسی دوسرے کے پاس اکثریت ہے تو حکومت الیکشن اناؤنس کر دے۔

الیکشن کرانے پر قوم کے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں اور ہر بار الیکشن سے قوم کا اربوں کا نقصان ہوگا، یہ قومی مفاد ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اگر مخلوط حکومت بنتی ہے تو کیا ممکن ہے کہ سب سے بڑی جماعت کو دیوار سے لگا دیا جائے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ درخواست گزاروں کی جانب سے کہا گیا کہ لیو گرانٹ ہونے کے بعد رولنگ نہیں آ سکتی، درخواست گزاروں کا مؤقف ہے کہ 28 مارچ کو تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے پہلے رولنگ آ سکتی تھی، اس معاملے پر آپ کیا کہیں گے؟

وکیل وزیراعظم امتیاز صدیقی نے کہا کہ اپوزیشن نے ڈپٹی اسپیکر کی صدارت پر اعتراض نہیں کیا تھا، ڈپٹی اسپیکر نے اپنے ذہن کے مطابق جو بہتر سمجھا وہ فیصلہ کیا اور پارلیمان کے اجلاس میں ڈپٹی اسپیکر نے جو فیصلہ دیا اس پر وہ عدالت کو جوابدہ نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانون یہی ہے کہ پارلیمانی کارروائی کے استحقاق کا فیصلہ عدالت کرے گی اور عدالت جائزہ لے گی کہ کس حد تک کارروائی کو استحقاق حاصل ہے۔

امتیاز صدیقی نے دلائل میں کہا کہ اسپیکر کو اگر معلوم ہو کہ بیرونی فنڈنگ ہوئی یا ملکی سالمیت کو خطرہ ہے تو وہ قانون سے ہٹ کر بھی ملک کو بچائے گا اور اسپیکر نے اپنے حلف کے مطابق بہتر فیصلہ کیا جب کہ اسپیکر کا فیصلہ پارلیمنٹ کا اندرونی معاملہ ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ جن فیصلوں کا حوالہ دیا گیا سپریم کورٹ ان پر عمل کرنے کی پابند نہیں جس پر وزیرِاعظم کے وکیل نے کہا کہ معذرت کےساتھ مائی لارڈ، 7 رکنی بینچ کے آپ پابند ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ جن فیصلوں کا حوالہ دیا گیا ان میں آبزرویشنز ہیں اور عدالت فیصلوں میں دی گئی آبزرویشنز کی پابند نہیں۔

وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے نیشنل سیکیورٹی کمیٹی پر انحصار کیا اور نیشنل سیکیورٹی کمیٹی پر کوئی اثرانداز نہیں ہو سکتا۔

چیف جسٹس نے اسفتسار کیا کہ کیا ڈپٹی اسپیکر کے پاس کوئی مٹیریل دستیاب تھا جس کی بنیاد پر رولنگ دی؟ کیا ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ نیک نیتی پر مبنی تھی؟ ڈپٹی اسپیکر کے سامنے قومی سلامتی کمیٹی کے منٹس کب رکھے گئے؟

جواب میں وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کے معاملے پر مجھے نہیں معلوم، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جو آپ کو نہیں معلوم اس پر بات نہ کریں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے مطابق ڈپٹی اسپیکر کے پاس ووٹنگ کے دن مواد موجود تھا جس پر رولنگ دی۔ استفسار کیا کہ وزیراعظم نے آرٹیکل 58 کی حدود کو توڑا اس کے کیا نتائج ہوں گے؟

ڈپٹی اسپیکر کو 28 مارچ کو ووٹنگ پر کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن ووٹنگ کے دن رولنگ آئی۔ اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد 28 مارچ کو کیوں مسترد نہیں کی؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اسمبلی تحلیل نہ ہوتی تو ایوان ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ ختم کر سکتا تھا لیکن وزیرِاعظم نے صورتِ حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسمبلی تحلیل کی۔