یہ ایسا فیصلہ ہے جو میں نے اپنے30 سالہ کیرئیر میں نہیں سنا، اس فیصلے نے سپریم کورٹ کے دامن پر لگے تمام داغ دھو دیے ہیں۔ یہ کہنا تھا ہمارے ساتھی صحافی راشد حبیب کا جو اس فیصلے کے بعد خاصے جذباتی نظر آرہے تھے۔
فیصلہ کے دن کے لیے تیاریاں گزشتہ شام سے جاری تھیں ،، عدالت پہنچے تو اس قدر رش تھا کہ سمجھ نہ آیا کہ کیا کیا جائے، سماعت سننے کے لیے سپریم کورٹ نے کورٹ روم نمبر ون کے علاوہ کورٹ روم نمبر چھ اور سات میں بھی انتظام کردیا تھا کہ جہاں سپیکر لگے ہوئے تھے اور سماعت سنی جاسکتی تھی۔ شروع کا کچھ وقت روم نمبر سات میں سپیکر پر سماعت سن کر کیا اور اس کے کچھ دیر بعد کورٹ روم نمبر ایک پہنچے جہاں ملکی تاریخ کا ایک بڑا اور اہم کیس سنا جارہا تھا۔
تمام ججز بہت انہماک سے کیس سن رہے تھے اور آخری دن تحریک انصاف کے وکلا اور اٹارنی جنرل نے ہی دلائل دینے تھے۔
نعیم بخاری عام طور پر عدالت میں اپنے چٹکلوں کی مدد سے عدالت کا ماحول بہت خوشگوار رکھتے ہیں لیکن جمعرات کے روز وہ کافی سنجیدہ نظر آئے اور سپیکر و ڈپٹی سپیکر کی نمائندگی کرتے ہوئے آرٹیکل 69 کے تحت ایوان کی کارروائی کے تحفظ کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔
اٹارنی جنرل جنہوں نے پہلے ہی کہہ رکھا تھا کہ بطور اٹارنی جنرل یہ ان کا آخری کیس ہوگا، انہوں نے بھی ایک مرحلہ پر رولنگ کا تحفظ کرنے سے معذرت کرلی اور اس وقت صورت حال بالکل ہی بدل گئی جب چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے بارے میں کہا کہ ایک بات تو واضح نظر آ رہی ہے اور وہ یہ کہ اسپیکر رولنگ غلط ہے۔ دیکھنا ہے اب اس سے آگے کیا ہو گا۔ ان جملوں کے بعد اپوزیشن ارکان کے چہرے کھلنے لگے اور تحریک انصاف کے کارکنوں اور وکلا کے چہرے مرجھا گئے ۔
اپوزیشن اس وقت کچھ دیر کے لیے پریشان نظر آئی جب چیف جسٹس نے کہا کہ اسمبلی بحال ہو گی تو بھی ملک میں استحکام نہیں ہوگا لیکن ملک کو استحکام کی ضرورت ہے، جب کہ اپوزیشن بھی استحکام کا کہتی ہے، قومی مفاد کو بھی ہم نے دیکھنا ہے۔اس کے فوراً بعد چیف جسٹس نے شہباز شریف کو روسٹرم پر آنے کی دعوت دی۔
شہبازشریف نے کہا کہ ہم پر غداری کا داغ لگایا جا رہا ہے
شہباز شریف نے اپنے روایتی انداز میں عدالت کے سامنے کہا کہ ہم سب پر غداری کا داغ لگایا جارہا ہے ، اگر یہ داغ ہم سے نہ ہٹا تو میں اپنے عوام کو کیسے فیس کروں گا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے مشہور انداز میں انگلی ہلاتے ہوئے کہا کہ اگر مجھ پر غداری کا الزام ثابت ہوجائے تو میں ہمیشہ کے لیے سیاست ہی چھوڑ دوں گا۔ تاہم عدالت نے اس پر کوئی ریمارکس نہ دیے۔
شہباز شریف نے جذباتی ہوکر عدالت سے یہ درخواست بھی کی کہ عدالت اللہ اور پاکستان کے نام پر پارلیمنٹ کو بحال کرے۔
بلاول صاحب صرف آپ ہی مسکرا رہے ہیں!
کمرہ عدالت میں موجود بلاول بھٹو زرداری کو بھی چیف جسٹس نے روسٹرم پر آنے کا کہا ۔چیف جسٹس نے کہا کہ بلاول صاحب صرف آپ ہی مسکرا رہے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نےکہا کہ آپ کے خاندان نے تین نسلوں سے اس ملک کے لیے قربانی دی ہے۔ بلاول نے اس موقع پر الیکشن کی بات کے حوالے سے کہا کہ جناب اس حکومت کو گرانے کا ہمارا مقصد صرف ایک ہے کہ صاف اور شفاف الیکشن کے لیے ہم انتخابی اصلاحات کریں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے اس پر کوئی مواد جمع کیا ہے۔ اس پر بلاول نے کہا کہ ہمارا اس بارے میں مکمل بل موجود ہے۔ چیف جسٹس نے انہیں اس بارے میں پیپر جمع کروانے کی ہدایت کی اور سماعت شام ساڑھے سات بجے تک ملتوی کردی۔
سماعت ملتوی ہونے کے بعد فوراً دفتر آئے اور ابتدائی سٹوری فائل کرنے اور اسی دوران بھاگتے ہوئے افطار کیا اور دوبارہ سپریم کورٹ پہنچے جہاں پارکنگ کی طرف جانے والا راستہ پولیس نے بند کردیا تھا۔ مجبوراً باہر سڑک کنارے گاڑی کھڑی کی اور اندر پہنچے تو دھکم پیل اپنے عروج پر تھی۔ کورٹ روم نمبر ون کی طرف جانے والے راستہ پر پولیس اور وکلا کے درمیان لڑائی بڑھتے بڑھتے ہاتھا پائی تک پہنچ چکی تھی۔ اس لیے کورٹ روم نمبر سیون میں پہنچے جہاں سننے کا بندوبست موجود تھا۔ ساڑھے سات بجے تمام صحافی اور وکلا کمرہ عدالت میں پہنچ چکے تھے۔
فیصلہ 40 منٹ کی تاخیر سے سنایا گیا اور اس دوران رش کم ہونے پر کورٹ روم نمبر ایک میں پہنچے جہاں تمام نشستیں بھر چکی تھیں۔ کمرہ عدالت میں مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے قائدین نظر آرہے تھے لیکن تحریک انصاف
کے صرف عامر کیانی ہی دکھائی دیے ۔
جج صاحبان کے آنے کے بعد اعظم نذیر تارڑ نے پولیس کے رویہ کی شکایت کی جس پر چیف جسٹس نے ان سے معذرت کی اور کہا کہ ہم نے پولیس کو کوئی ہدایت نہیں دی تھی۔
فاروق ایچ نائیک نے عدالت میں بلاول بھٹو کی طرف سے جمع کروائی گئی انتخابی اصلاحات کی دستاویز کے بارے میں بتایا جس کے بعد چیف جسٹس نے فیصلہ پڑھنا شروع کر دیا۔
بتایا گیا کہ فیصلہ متفقہ ہے
فیصلے کے لیے تمام لوگ توجہ سے چیف جسٹس کی بات سن رہے تھے اور میں باقی جج صاحبان کے چہروں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اتفاق کی بات ہے کہ جج صاحبان مسکرا رہے تھے اور جب متفقہ فیصلے کا کہا گیا تو تمام صحافی حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
فیصلہ سننے کے دوران مقامی چینلز کے صحافی فیصلہ سننے اور سمجھنے کے باوجود دوسروں سے کنفرم کررہے تھے بھائی اسمبلی بحال ہوگئی نا؟ رولنگ کالعدم ہوگئی نا؟ صدر کے سب احکامات ختم ہوگئے نا؟ دو سے تین گواہیاں ملنے کے بعد سب نے باہر کی طرف دوڑ لگائی اور بیپرز دینے لگے۔
فیصلہ سننے کے بعد ہم بھی تیزی سے باہر نکلے، لیکن رش اور بعض وکلا کی نعرہ بازی اتنی شدید تھی کہ باہر آنے میں کئی منٹ لگ گئے، اس دوران تحریک انصاف کے عامر کیانی کو پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ حفاظت سے سپریم کورٹ کی عمارت اور احاطہ سے باہر نکلتے دیکھا۔ اپوزیشن کے کارکنوں اور بعض وکلا کے نعروں سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ۔
سپریم کورٹ کے باہر مین روڈ بند ہوگئی اور کارکنوں نے وہاں خوشی سے نعرہ بازی شروع کردی۔ اپوزیشن کے حامی سینئر وکلا اور سیاسی قائدین میڈیا اور سوشل میڈیا کے چینلز کو انٹرویوز دینے لگے اور تحریک انصاف کی حمایت کرنے والے زیادہ تر وکلا نے فوری نکلنے کو ترجیح دی۔
زیادہ تر صحافی بھی اس فیصلے سے خوش نظر آرہے تھے۔ جیونیوز کے عبدالقیوم صدیقی بھی خاصے اچھے موڈ میں تھے اور بولے آج آئین بچ گیا ہے۔