پاکستان کے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبوں کی سیکیورٹی کا جائزہ لینے کے لیے عید کی تعطیلات کے بعد ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس طلب کیا ہے جس میں وزیرِ داخلہ سمیت کئی دیگر اعلیٰ عہدیدار شرکت کریں گے۔
یہ اجلاس ایسے وقت میں طلب کیا گیا ہے جب حال ہی میں کراچی یونیورسٹی میں ایک خود کش حملے میں تین چینی باشندوں سمیت چار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ایک سرکاری بیان کے مطابق اجلاس میں کراچی یونیورسٹی میں ہونے والے حالیہ دہشت گرد حملے کے بعد سی پیک منصوبوں اور پاکستان میں مقیم چینی شہریوں کو فراہم کی جانے والی سیکیورٹی کا جائزہ لیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ا جلاس کو کراچی یونیورسٹی حملے کی تحقیقات میں اب تک ہونے والی پیش رفت سے بھی آگاہ کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ 26 اپریل کو کراچی یونیورسٹی میں خاتون نے خود کش حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں تین چینی اساتذہ سمیت چار افرادہلاک ہو گئے تھے۔ اس واقعے کی ذمہ داری کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی تھی۔
چین کی وزارتِ خارجہ نے کراچی حملے کی شدید مذمت کی تھی اور پاکستان کے حکام سے حملے میں ملوث دہشت گرد تنظموں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
یہ حملہ ایک ایسے وقت کیا گیا تھا جب پاکستان کے وزیرِاعطم شہباز شریف کی طرف سےسی پیک کے منصوبوں پر کام کی رفتار کو تیز کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا تھا۔
بعض مبصرین کاخیال ہے کہ بلوچ انتہا پسند عناصر کی طرف سے چینی اہداف کو نشانہ بنانے کی وجہ سے نہ صرف سی پیک کے منصوبے پر اثر پڑے گا بلکہ اس سے پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری بھی متاثر ہو سکتی ہے۔
‘سیکیورٹی خدشات کے باوجود چین سی پیک منصوبوں پر کام جاری رکھے گا’
پاکستان کے بورڈ آف انویسٹمنٹ کے سابق سربراہ ہارون شریف کہتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں چین ان ممالک میں سرمایہ کاری کررہا ہے جہاں بیرونی سرمایہ کاری کے لیے خطرات کم ہیں جن میں مشرق بعید کے ممالک سرِفہرست ہیں۔ البتہ سی پیک کے آغاز کے چند برسوں کے بعد پاکستان میں چینی سرمایہ کاری میں کمی آئی ہے۔
ہارون شریف سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں سیکیورٹی خدشات کے باوجود چین سی پیک منصوبوں پر کام جاری رکھے گا کیوں کہ سی پیک چین کے وسیع ‘بیلٹ اینڈ روڈ’ منصوبے کا اہم حصہ ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں چارصوبوں میں قائم ہونے والے اقتصادی زونز میں چینی سرمایہ کاری کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان کوسیکیورٹی کے مؤثر انتظامات کرنا ہوں گے۔
کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر نعیم احمد کہتے ہیں کہ حکومتِ پاکستان کو سیکیورٹی کے مزید سخت اقدامات کرنا ہوں گے۔ کیوں کہ اب چینی باشندوں کے خلاف حملوں میں تیزی آ رہی ہے۔
سیکیورٹی امور کے تجزیہ کار اکرام سہگل کہتے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات حکومت کے لیے چیلنج بنتے جارہے ہیں۔ ان کے مطابق تمام تر خطرات کے باوجود چین کے لیے سی پیک اہم ہے۔
ان کے بقول پاکستان میں سی پیک کے منصوبوں کے خلاف بڑھتے ہوئے خطرات کے پیشِ نظر چین صورتِ حال کا پوری طرح جائزہ لے گا کہ پاکستان میں کام کرنے والی چینی شہری محفوط رہیں۔ چین کے لیے سی پیک کی اسٹریٹجک اہمیت ہے اور وہ کسی صورت اس منصوبے کو ختم نہیں کرےگا۔
اکرام سہگل کہتے ہیں کہ روس یوکرین جنگ کی وجہ سے چین کے لیے یورپی روٹ میں رکاوٹیں پید ا ہو گئی ہیں، ا س لیے چین کے لیے سی پیک کے ذریعے یورپ تک ایک اہم متبادل روٹ موجود ہے اور وہ پاکستان، ایران اور ترکی کے ذریعے یورپ تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان میں بلوچ علیحدگی پسند عناصر بلوچستان میں سی پیک منصوبوں میں چینی سرمایہ کاری پر تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
ان کا مؤقف ہے کہ ان منصوبوں کی وجہ سے وہ اپنے وسائل سے مبینہ طور پر محروم ہو سکتے ہیں اور پاکستان کے دوسرے صوبوں سے لوگ یہاں منتقل ہونے کی صورت میں بلوچ اپنے ہی صوبے میں اقلیت بن سکتے ہیں۔
ہارون شریف کا کہنا ہے کہ سی پیک کے بارے میں مقامی اور بین الاقوامی سطح پر بھی کہیں غلط فہمیاں موجود ہیں اور انہیں دور کرنا ضروری ہے۔
اگرچہ پاکستان کی حکومت یہ باور کراتی رہتی ہے کہ سی پیک کے منصوبے نہ صرف پاکستان کی معیشت کےلیے ضروری ہیں بلکہ اس سے بلوچستان کے مقامی افراد کے لیے روزگار کے مواقع بھی میسر ہوں گے۔ لیکن حکومت کی کوششوں کی باوجود سی پیک کے بارے میں غلط فہمیاں بدستور موجود ہیں۔
یاد ر ہے کہ بی ایل اے نے رواں برس بلوچستان میں متعدد حملے کیے ہیں جن میں نوشکی اور پنجگور کے اضلاح میں سیکیورٹی فورسز کے کیمپ پر ہونے والے دوحملے بھی شامل ہیں ۔سن 2020 میں بھی بی ایل اے نے کراچی اسٹاک ایکسچینج کی عمارت کو نشانہ بنایا تھا۔
بلوچ حلقوں کی مبینہ محرومیاں کئی دہائیوں پر محیط ہیں لیکن وہ فوری طور پر لاپتا افراد کے معاملے کا مستقل حل چاہتے ہیں۔
پروفیسر نعیم احمد کہتے ہیں کہ اگر لاپتا افراد کا معاملہ حل کرلیا جائےتو بلوچ عوام کی ناراضی میں کسی حد تک کمی آ سکتی ہے۔
یاد رہے کہ ماضی کی مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے لاپتا افراد کے معاملے کو حل کرنے کے لیے عزم کا اظہار کیا تھا لیکن ابھی تک یہ معاملہ حل نہیں ہو سکا ہے۔
نعیم احمد کہتے ہیں کہ حکومت کو ایک جامع منصوبہ اور حکمتِ عملی کے ذریعے بعض بلوچ نوجوانوں کی سیاسی، سماجی اور معاشی محرومیوں کا حل ڈھونڈنا پڑے گا تاکہ ان کی ناراضی کو دور کیا جاسکے۔
حکومت کا مؤؑقف رہا ہے کہ بلوچ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے اور انہیں پاکستان کی فوج اور دیگر سیکیورٹی اداروں میں شامل کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں اور صوبے میں سرمایہ کاری کے ذریعے مقامی بلوچ افراد کو روزگار کے مواقع ملیں گے۔