تحریک عدم اعتماد کی کامیابی: نئی حکومت کو کن معاشی چیلنجز کا سامنا ہو سکتا ہے؟

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی: نئی حکومت کو کن معاشی چیلنجز کا سامنا ہو سکتا ہے؟

پاکستان میں بائیسویں وزیراعظم عمران خان کے خلاف متحدہ اپوزیشن کی پیش کردہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد عمران خان اب وزیراعظم نہیں رہے ہیں۔ اس تحریک کی حمایت میں 174 اراکین نے ووٹ دیے۔

ہفتے اور اتوار پاکستان میں سیاسی ماحول کے لحاظ سے غیرمعمولی دن رہے اور ہفتے کی صبح دس بجے شروع ہونے والا قومی اسمبلی کا اجلاس کئی مرتبہ ملتوی ہونے کے بعد اتوار کو ختم ہوا۔ جہاں عمران خان کے خلاف متحدہ اپوزیشن کی پیش کردہ عدم اعتماد کی قرارداد پر ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب ووٹنگ ہوئی ۔ جس میں اپوزیشن جماعتوں اور سابق حکومتی اتحادی پارٹیوں کے اراکین نے ووٹ کاسٹ کیے جب کہ تحریک انصاف کے اراکین ایوان سے واک آؤٹ کر گئے۔اب قومی اسمبلی میں پیر کو نئے قائدایوان کا انتخاب ہونے جا رہا ہے جہاں متحدہ اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف ہیں۔

پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت نے ساڑھے تین سال سے زائد عرصہ اقتدار میں گزارا، اس دوران جہاں اسے سیاست، خارجہ امور اور داخلی سطح پر مختلف چیلنجز کا سامنا رہا وہیں معیشت کے اہم میدان میں بھی اسے سخت تجربات سے گزرنا پڑا۔اور اب جب عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہو چکا ہے تب بھی ماہرین اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ملک کی مشکلات کا توڑ نکالنے کے لیے نئی حکومت کو بھی اسی طرح کے سخت چیلنجز کا سامنا رہے گا۔

معاشی تجزیہ کار اور اقبال اسماعیل سیکیورٹیز میں ہیڈ آف ریسرچ فہد رؤف کہتے ہیں کہ نئی حکومت کے بعد بھی معیشت کو درپیش چیلنجز اپنی جگہ باقی رہیں گے۔ ان کے بقول سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ پی ٹی آئی حکومت نے گزشتہ ماہ جو سبسڈیپیکج دیا تھا جس کے تحت پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی کی قیمتیں کم کی گئی تھیں۔ کیا وہ یہ سبسڈی جاری رکھ پائی گے؟

انہوں نے رواں ہفتے ہونے والی پیش رفت اور سپریم کورٹ کے جمعرات کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اس فیصلے سے کسی حد تک سیاسی بے یقینی کا ضرور خاتمہ ہوا تھا۔

انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے ـ(آئی ایم ایف)جیسے ادارے بھی اس انتظار میں ہیں کہ اب قرض کی اگلی قسط کے اجرا کے لیے نئی حکومت سے ہی بات چیت کی جائے۔

پی ٹی آئی حکومت کی دی گئی سبسڈی پر ان کا کہنا تھا کہ انہیں نہیں لگتا کہ کوئی بھی حکومت اسے جاری رکھنے کی پوزیشن میں ہوگی کیوں کہ ایسا کرنا آئی ایم ایف کے پروگرام کے برخلاف اور فی الحال معیشت کے لیے ممکن نہیں ہے۔ ان کے بقول اس پروگرام کے تحت پاکستان کا قرضہ اسی وجہ سے رکا ہوا ہے۔جب کہ بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کی شرح مزید بڑھنے کے امکانات ہیں۔

البتہ ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی کے منظر نامے کو دیکھتے ہوئے حکومت یہ ضرور کرسکتی ہے کہ گندم اور فرٹیلائزرز کی اسمگلنگ کو روکے تاکہ ملک میں غذائی اشیا کی قیمتیں کسی حد تک مستحکم رہیں۔

ماہرینِ معیشت کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال اور اگلے برس پاکستان کو اب تک کے تخمینوں کے مطابق لگ بھگ30 ارب

ڈالرز کی رقم واپس کرنی ہے۔

تاہم فہد رؤف کا خیال ہے کہ اگر خطے میں کوئی بڑی جیو پولیٹیکل صورتِ حال تبدیل نہ ہوئی تو آئی ایم ایف و دیگر مالیاتی ادارے اور ممالک پاکستان کے واجب الادا قرضوں کو ری شیڈول کردیں گے کیوں کہ قرض دہندگان کے لیے قرض پر سود کمانا بھی اہم ہوتا ہے اور جیو پولیٹیکس قرضوں کی واپسی کے معاملات میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔

واضح رہے کہ چین نے حال ہی میں پاکستان پر واجب الادا قرض کی ادائیگی مؤخر کی ہے۔ تیس مارچ کو وزارتِ خزانہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کو مارچ میں چین کو چار ارب تیس کروڑ ڈالرز کی ادائیگی کرنا تھی جس میں سے پاکستان نے دو ارب ڈالرز کا قرضہ رول اوور یعنی مؤخر کیا جب کہ دو ارب تیس کروڑڈالرز کی ادائیگی کو مؤخر کرنے کا عمل جاری ہے۔ یہ سہولت ملک کی ادائیگیوں کے توازن کو بہتر بنانے اور بجٹ سپورٹ میں استعمال کی

جائے گی۔

روپے کی قدر میں گراوٹ سے ملکی معیشت کو درپیش خطرات

ماہرینِ معیشت کا کہنا ہے کہ ملکی معیشت کو اس وقت ایک اور اہم خطرہ روپے کی گرتی ہوئی قدر سے بھی لاحق ہے۔ ایک جانب امریکی ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری جانب پاکستان کے غیرملکی زرِمبادلہ کے ذخائر کچھ ہفتوں میں پانچ ارب ڈالرز کے قریب گرچکے ہیں، یہی وجہ ہے کہ لوگ ڈالرز خریدنے کو بےچین تھے۔جب کہ اس کی تیسری بنیادی وجہ ملک میں حالیہ سیاسی بے یقینی کی فضا تھی۔

ماہرین کے مطابق پاکستان کی سیاسی فضا میں کسی حد تک غیر یقینی کم ہونے سے کچھ بہتری ضرور آئے گی لیکن بین الاقوامی مارکیٹ میں امریکی ڈالر کی قدر میں اضافے کی وجہ سے پاکستانی کرنسی سمیت دنیا بھر کی کمزور اور

طاقتور کرنسیز کی گراوٹ کا عمل کسی حد تک جاری رہے گا۔

تجارتی خسارہ اور بیرونی ادائیگیوں کا عدم توازن

پاکستان کے تجارتی خسارے میں بھی مسلسل اضافے کا سلسلہ جاری ہے۔ رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ کے دوران پاکستان کو ریکارڈ 35 ارب ڈالرز کے تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔ پاکستان نے نو ماہ میں 23 اعشاریہ 29 ارب ڈالرز کی برآمدات کیں جب کہ اس کے مقابلے میں درآمدات 58 ارب ڈالرز سے تجاوز کرچکی ہیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ برس اسی عرصے میں تجارتی خسارہ 20 ارب ڈالرز تھا۔ تاہم مارچ میں سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کو ادائیگیوں کے توازن میں رواں برس کے آٹھ ماہ میں اب تک 12 ارب ڈالرز کے خسارےکا سامنا ہے۔

فہد رؤف کا کہنا ہے کہ ادائیگیوں میں توازن کی بڑی وجہ تو عالمی مارکیٹ میں اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہے ۔ ان کے بقول اسٹیٹ بینک نے جمعرات کو پُرتعیش اشیا پر کیش مارجن بڑھایا ہے جب کہ اکنامک ری فنانس اسکیم پر شرح سود بھی بڑھائی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ شرح سود میں اضافے سے ملک میں طلب میں بھی کمی واقع ہوگی جس سے درآمدی بل میں کسی حد

تک کمی آنے کی توقع ہے اور جاری کھاتوں کا خسارہ اس حد تک ہوجانے کا امکان ہے جہاں اسے مینج کیا جاسکے۔

دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ معیشت کودرست سمت پر استوار کرنے اور لوگوں کو مہنگائی سے نجات دلانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔

سابق وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آتے ہی شرح سود میں 2.5 فی صد کے بڑے اضافے کے باوجود جہاں اسٹاک مارکیٹ میں تیزی دیکھی گئی وہیں روپے کی بھی کوئی ہوئی قدر بحال ہونا شروع ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی بھرپور کوشش ہوگی کہ اگر ان کی حکومت آنے والے بجٹ تک رہی اور مالی گنجائش بھی ہوئی تو تنخواہ دار طبقے کو انکم ٹیکس کی مد میں رعایت دیں۔

نئی حکومت اورمیثاقِ معیشت

پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے بعض رہنما میثاقِ جمہوریت کی طرز پر ایوان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ میثاقِ معیشت پر بھی زور دیتے آئے ہیں۔ لیکن اب تک اس حوالے سے عملی پیش رفت نہیں نظر آئی۔

معاشی ماہر اور سابق وزیرِ خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کی معیشت سے متعلق حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب میں کہا گیا ہے کہ ملک کو موجودہ معاشی صورتِ حال سے نکالنے کے لیے سیاسی اتفاق رائے اور سول سوسائٹی کی حمایت سے معیشت کی بہتری کے لیے چارٹر آف اکانومی کی ضرورت ہے۔

ان کے خیال میں ایسے چارٹر میں اصلاحات کی نشاندہی کی جائے۔ معاشی ترقی کے لیے پالیسیاں بنائی جائیں جن سے عدم مساوات کا خاتمہ، روزگار کے مواقع، غربت ختم اور غذائی سیکیورٹی کی صورتِ حال میں بہتری کے ساتھ انسانی ترقی کو فروغ دیا جاسکے۔

ڈاکٹر حفیظ پاشا کے خیال میں اس بارے میں مذاکرات، مشترکہ کوششیں اور تیز تر تبدیلی کے ذریعے پائیدار اور شمولیتی ترقی کے مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے جن معاشی مسائل سے گزر رہا ہے وہ گزشتہ حکومتی دعووں اور وعدوں کے باوجود بھی ہر گزرتے مہینے اور سال میں مزید سنگین ہو رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں بے روزگاری کی شرح بلند جب کہ خطِ غربت سے نیچے رہنے والی آبادی 38 فی صد بتائی جاتی ہے۔

علاوہ ازیں ملک کی برآمدات بڑھنے میں اب تک کوئی خاص پیش رفت نظر نہیں آئی اور وہ پچھلے کئی برسوں سے 20 سے 25 ارب ڈالرز کے درمیان ہی منجمند ہیں۔

دوسری جانب پاکستان کا بجٹ خسارہ اس کی مجموعی ملکی پیداوار یعنی جی ڈی پی کے سات سے نو فی صد کے درمیان بتایا جاتا ہے۔ اسی طرح جی ڈی پی کے مقابلے میں ٹیکس ادا کرنے کی شرح میں بھی کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔

ملکی آمدن سے قرضوں کی ادائیگی میں تیزی دیکھی جارہی ہے جب کہ ترقیاتی اخراجات بھی تیزی سے کم کیے گئے ہیں اورحکومتی قرضے ملکی قانون (فِسکل رسپانسیبلٹی اینڈ ڈیٹ لمیٹیشن ایکٹ) میں دی گئی حد سے کہیں زیادہ تجاوز کرچکے ہیں۔