دنیا بھر میں آج ہماری زمین کے تحفظ اور اس سے محبت کا شعور اجاگر کرنے کے لیے عالمی یوم ارض یعنی زمین کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔
عالمی یوم ارض سب سے پہلے سنہ 1970 میں منایا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب تحفظ ماحولیات کے بارے میں آہستہ آہستہ شعور اجاگر ہو رہا تھا اور لوگ فضائی آلودگی اور دیگر ماحولیاتی خطرات کا بغور مشاہدہ کر رہے تھے۔
گوگل ڈوڈل میں چھپا خطرہ
رواں برس یوم ارض کے موقع پر ایک خاص گوگل ڈوڈل پیش کیا گیا ہے۔
گوگل ڈوڈل پر بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے خطرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے گوگل ارتھ سے لی گئی ٹائم لیپس تصاویر جاری کی گئی ہیں۔
اس ڈوڈل میں موجود تصاویر میں 4 مقامات پر کلائمٹ چینج سے ہونے والے اثرات کو دکھایا گیا ہے۔
پہلی تصویر افریقی ملک تنزانیہ کے پہاڑ ماؤنٹ کلی منجارو کی سنہ 1986 سے 2020 تک کی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ برف سے ڈھکے گلیشیئر کا حجم کس طرح کم ہوتا گیا۔
دوسری تصویر گرین لینڈ کی ہے جہاں کی برف سنہ 2000 سے 2020 کے دوران خطرناک حد تک پگھلی۔
تیسری تصویر آسٹریلیا میں واقع دنیا کے سب سے بڑے مونگے کے چٹانی حصے گریٹ بیریئر ریف کی ہے جس میں سنہ 2016 کے صرف 3 ماہ میں چٹانوں کو بے رنگ ہوتے دیکھا جاسکتا ہے، اس عمل کو بلیچنگ کا عمل کہا جاتا ہے اور اس کی وجہ سمندری پانی کا گرم ہونا ہے جو سمندری حیات کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔
آخری تصویر جرمنی کے ہرز جنگلات کی ہے جہاں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور خشک سالی کی وجہ سے سنہ 1995 سے 2020 کے دوران جنگلات کے رقبے میں تشویشناک کمی واقع ہوئی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج کے ہولناک خطرے سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر کام شروع کرنا ہوگا ورنہ ہماری زمین رہنے کے لیے ناقابل ہوجائے گی۔