پنجاب میں پے در پے سیاسی بحران: 'اسمبلی ایک دوسرے کو ہٹانے، گرانے کے لیے استعمال ہو رہی ہے'

پنجاب میں پے در پے سیاسی بحران: ‘اسمبلی ایک دوسرے کو ہٹانے، گرانے کے لیے استعمال ہو رہی ہے’

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں سیاسی اور آئینی بحران تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔گورنر پنجاب کی تعیناتی کا معاملہ جہاں التوا کا شکار ہے وہیں اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحاریک نے سیاسی کشیدگی میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

مبصرین کے خیال میں بروقت سیاسی فیصلے نہ ہونے کے باعث صوبے میں مسائل بڑھتے جا رہے ہیں اوراداروں میں بے یقینی کی سی کیفیت ہے۔

اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی نے اتوار کو اسمبلی کے مختصر اجلاس میں حکومتی ارکان کی عدم موجودگی میں اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کو تکنیکی بنیادوں پر ناکام بنا دیا تھا جس کے بعد پنجاب اسمبلی پر اُن کی گرفت مضبوط ہو گئی۔

چوہدری پرویز الٰہی کے خلاف تحریک عدم اعتماد غیر مؤثر ہونے پر پاکستان مسلم لیگ (ن)نے دوبارہ اُن کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی ہے جب کہ ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کے خلاف پہلے سے جمع شدہ تحریکِ عدم اعتماد پر کارروائی ہونا باقی ہے۔

خیال رہے پنجاب اسمبلی کا اجلاس 23 مئی کو طلب کیا تھا لیکن الیکن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے تحریکِ انصاف کے 25 منحرف ارکان کو اُن کی نشستوں سے ہٹائے جانے کے فیصلے کے بعد یکا یک پنجاب اسمبلی کے اجلاس کو 22 مئی کو طلب کیا گیا۔

تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ پنجاب اسمبلی میں جس طرح پرویز الٰہیی نے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنایا ہے۔ اس کے بعد وہ حمزہ شہباز کی حکومت کے لیے قانونی، آئینی اور سیاسی مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے خیال میں پنجاب کی سیاست میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اُس سے اسپیکر کو ہٹایانہیں جا سکتا۔کسی بھی طریقے سے اسپیکر کو ان کے عہدے سے ہٹانے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ اس کا توڑ نکال لاتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آئین کے اندر اسپیکر کو عہدے سے ہٹانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے؟ اگر اس حوالے سے کوئی ابہام ہے تو اس کی تشریح کی ضرورت ہے۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ پنجاب اسمبلی ایک دوسرے کو بچھاڑنے کےلیے تماشہ گاہ بنی ہوئی ہے اور کروڑوں روپے پنجاب کےخزانے سے خرچ ہو ہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ جس ایوان نے صوبے کے مسائل زدہ عوام کی آواز بننا ہے وہ سیاست زدہ ہو کر ایک دوسرے کو ہٹانے، گرانے اور مٹانے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔

خیال رہے وزیراعلٰی پنجاب حمزہ شہباز نے 23 اپریل کو اپنے عہدے کا حلف اُٹھایا تھا لیکن تاحال وہ اپنی کابینہ نہیں بنا سکے۔

دوسری جانب ایوانِ صدر اور وزیراعظم ہاؤس کے درمیان گورنر پنجاب کی تعیناتی پر کشمکش جاری ہے۔ایوانِ صدر کی جانب سے وزیراعظم کی ہدایت پر بلیغ الرحمٰن کو گورنر لگائے جانے پر اعتراض اٹھایا گیا ہے۔ جس کے بعد وزیراعظم ہاؤس نے دوبارہ بلیغ الرحمٰن کا نام تجویز کیا ہے۔

سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کی درخواست لارجر بینچ تشکیل

اس سے قبل لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر وزیراعلٰی پنجاب کا انتخاب ہوا تھا اور عدالت کے حکم پر ہی اُن سے حلف لیا گیا تھا۔صوبے کی سیاسی صورتِ حال کے باعث سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے بھی اپنی برطرفی کے خلاف عدالت سے رجوع کر رکھا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمر سرفراز چیمہ کی درخواست پر لارجر بینچ تشکیل دے دیا ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل تین رکنی لارجر بینچ منگل کو سماعت کرے گا۔

مبصرین سمجھتے ہیں کہ اگر پنجاب میں سیاسی بے یقینی کی کیفیت کا یہ مسئلہ حل ہو جائے تو حکومت کو معیشت کی بہتری کے لیے اقدام کرنے، سخت اور کڑے فیصلے لینے میں آسانی ہو گی۔

سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ جو سیاسی صورتِ حال بنی ہوئی ہے۔ اُس سے صوبائی اداروں کی کارکردگی متاثر ہو رہی ہے۔ دِن بہ دن نقصان ہو رہا ہےاور اس کا اثر وفاق پر بھی پڑ رہا ہے۔

ان کے خیال میں پنجاب حکومت سے فیصلے ہو رہے ہیں، نہ پالیسیاں بن پا رہی ہیں اور نہ ہی ادارے بہتر انداز میں کام کر پا رہے ہیں۔ اِس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ صوبے میں نہ گورنر ہے اور نہ ہی صوبائی کابینہ۔