کوہ پیما برادری ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کیے جانے کی 70 ویں سالگرہ منانے کی تیاری کر رہی ہے لیکن اس کے ساتھ دنیا کے اس سب سے اونچے پہاڑ پر درجہ حرارت میں اضافے، گلیشیئر اور برف کے تیزی سے پگھلنے اور موسم کے گرم اور غیر متوقع ہونے کے بارے میں تشویش بھی بڑھ رہی ہے۔
8849 میٹر یعنی 29032 فٹ بلند پہاڑ کی اس چوٹی کو پہلی بار نیوزی لینڈ کے ایڈمنڈ ہلری اور ان کے گائیڈ ٹینزنگ نورگے نے 1953 میں سر کیا تھا،جس کے بعد سے اب تک ہزاروں کوہ پیما اس کی چوٹی پر پہنچے جبکہ سینکڑوں اس کوشش میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔
ایورسٹ پر بگڑتے ہوئے حالات ،کوہ پیما برادری اور ان لوگوں کے لیے تشویش کا باعث ہیں جن کی روزی روٹی کا انحصار سیاحوں کی آمد پر ہے ۔
شرپا یا کوہ پیماؤں کی رہنمائی کرنے والے لوگوں کے لیے ،جو برف سے ڈھکے پہاڑ کے دامن میں پلے بڑھےہیں اور اس پہاڑ کو دنیا کی ماں کے طور پر پوجتے ہیں، یہ صورت حال دوسروں سے کہیں زیادہ پریشان کن ہے۔
ہمالیہ کی چوٹیوں اور آس پاس کے علاقوں کو گلوبل وارمنگ کے اثرات سے بچانے کے لیے برسوں سے مہم چلانے والے ممتاز شرپا اینگ شیرنگ کہتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات نہ صرف انٹارکٹکا کی مچھلیوں، وہیلوں یا پینگوئن پر پڑ رہے ہیں بلکہ اس کا براہ راست اثر ہمالیہ کے پہاڑوں اور وہاں کے لوگوں پر بھی ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تقریباً ہر سال، وہ اور ان کی ایشین ٹریکنگ ایجنسی صفائی مہم کا اہتمام کرتی ہے۔ اس مہم میں حصہ لینے والے اور گائیڈ یکساں طور پر ایورسٹ سر کرنے والی پچھلی پارٹیوں کے چھوڑے گئے کچرے اور کوڑے کو اٹھاتے ہیں ۔
اینگ شیرنگ کہتے ہیں کہ آب و ہوا کی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کے اثرات اس بلند ہمالیائی علاقے میں شدیدتر ہو رہے ہیں اور اس علاقے کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت، عالمی اوسط سے زیادہ ہے،جس وجہ سے برف اور گلیشئیرز زیادہ تیزی سے پگھل رہے ہیں اور جھیلیں خشک ہو رہی ہیں۔
پہاڑ کے دامن میں پلے بڑھے، انگ شیرنگ کو اپنے گاؤں کے قریب گلیشیئر پر پھسلنا اب بھی یاد ہےلیکن وہ کہتے ہیں کہ اب سب ختم ہو رہا ہے۔
دوسرے گائیڈز بھی ایسی ہی باتیں کرتے ہیں کہ انہوں نے بھی بیس کیمپ کے قریب ایورسٹ کے دامن میں کھمبو گلیشیر میں تبدیلیاں دیکھی ہیں۔
ایک شیرپا گائیڈ فربا ٹینجنگ نےبتایا کہ ہمیں یہ تبدیلیاں دیکھنے کے لیے آنے والے وقت کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں، ہم پہلے ہی یہ اثرات دیکھ رہے ہیں۔
فربا ٹینجنگ 17 سال کی عمر سے ایورسٹ پر چڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ برف اور گلیشئیر دونوں پگھل چکے ہیں اور برفانی راستے پر پانچ یا چھ گھنٹے کا ٹریک اب صرف آدھے گھنٹے میں طے ہو جاتا ہے ۔
حالیہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ ماؤنٹ ایورسٹ کے گلیشیئرز نے گزشتہ 30 برسوں میں اتنی برف پگھلائی ہے ، جتنی کہ 2000 سال میں پگھلا کرتی ہے۔
تحقیق کاروں کے مطابق ،پہاڑ پر سب سے اونچا گلیشیئر گزشتہ 25 سالوں میں 54 میٹر (177 فٹ) سے زیادہ موٹی برف کی تہہ کھو چکا ہے۔ 10 سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے گلیشیئر کا دورہ کیا اور وہاں موسم کی نگرانی کرنے والے دو اسٹیشن لگا کر 10 میٹر لمبی (33 فٹ) شیشے جیسی برف کی تہہ سے نمونے نکالے۔
2022 میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق، گلیشیئر، جو سطح سمندر سے تقریباً 7900 میٹر (26000 فٹ) بلند تھا، 80 گنا زیادہ تیزی سے پگھل رہا ہے۔
برطانیہ کی یونیورسٹی آف لیڈز کے ایک گلیشیالوجسٹ ڈنکن کوئنسی نے کہا کہ گلیشیئر جس شرح سے برف پگھلا رہے ہیں اس کی ممکنہ طور پر تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب اور خشک سالی دونوں کے مزید شدید ہونے کا امکان بھی موجود ہے۔
نیپال کی حکومت اور کوہ پیما برادری 29 مئی کو کھٹمنڈو کے گرد پریڈ اور کوہ پیماؤں اور تجربہ کار شیرپا یا گائیڈز کے اعزاز میں ایک تقریب کے ساتھ ایورسٹ ڈے منانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
(اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئیں ہیں)