’’سکولے‘‘ پاکستان کا آخری گاؤں!

’’سکولے‘‘ پاکستان کا آخری گاؤں!

لاہور: ’’سکولی‘‘ یا ’’سکولے‘‘ کو پاکستان کا آخری گاؤں کہتے ہیں چونکہ یہ پاکستان کی بلند ترین چوٹی کے ٹو کی جانب آخری انسانی آبادی ہے اور اس سے آگے دور دور تک بلند و بالا پہاڑوں اور بالخصوص سردیوں میں ہر طرف برف کا راج ہوتا ہے، اس لئے انسانی وجود نہ ہونے کے باعث اسے ’’پاکستان کا آخری گاؤں‘‘ کہا جاتا ہے، آئیے اب دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے اس آخری گاؤں تک پہنچنا آخر اس قدر کٹھن کیوں ہے۔

سکردو سے جب آپ کے ٹو اور کنکورڈیا کی جانب رواں دواں ہوتے ہیں تو دنیا کی 8 ہزار میٹر سے بلند 14 چوٹیوں میں سے 5 صرف پاکستان کے اسی حصے میں نظر آتی ہیں، حسن اتفاق کہ ان پانچ بلند ترین چوٹیوں میں سے چار کے ٹو اور کنکورڈیا کے راستے میں واقع ہیں، اس دوران اگر آپ کا رخ کے ٹو کی طرف ہے تو آپ کے سامنے ’’اینجل پیک‘‘ ہے جبکہ کے دائیں جانب براڈ پیک اور اس کے ساتھ ’’گیشا بروم‘‘ کا سلسلہ نظر آئے گا، یہ واحد پہاڑی سلسلہ ہے جہاں آپ کو امریکہ، برطانیہ، جرمن، جاپان اور دنیا کے بیشتر ممالک کے کوہ پیما نظر آئیں گے۔

برسبیل تذکرہ آپ کو بتاتے چلیں کہ اگرچہ 8848 میٹر بلندی کے ساتھ ماؤنٹ ایورسٹ دنیا کی بلند ترین چوٹی کا اعزاز تھامے ہوئے ہے لیکن کے ٹو کے مقابلے میں اسے سر کرنا انتہائی آسان ہے، اس کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ ماؤنٹ ایورسٹ کو ہر سال اوسطاً سو سے زیادہ کوہ پیما سر کرتے ہیں جبکہ کے ٹو کو کئی مرتبہ سال میں ایک کوہ پیما بھی سر نہیں کر پاتا۔

کے ٹو کا ذکر چل نکلا ہے تو آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ قدرت نے پاکستان کو حسیں وادیوں کے ساتھ ساتھ دنیا کی بلند ترین چوٹیوں سے بھی مالا مال کر رکھا ہے، کے ٹو جو 8611 میٹر بلندی کے ساتھ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ہے جبکہ نانگا پربت 8125 میٹر، گاشر برم ون 8068 میٹر، پراڈ پیک 8051 میٹر، گاشر برم ٹو 8035 میٹر، راکا پاشی 7788 میٹر اور ترچ میر 7708 میٹر بلندی کے ساتھ نمایاں چوٹیاں ہیں، یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ پاکستان کو صرف گلگت بلتستان میں سات ہزار میٹر سے زیادہ بلند 186 چوٹیوں کا اعزاز حاصل ہے۔

’’قاتل پہاڑ‘‘ کے نام کی شہرت والا پہاڑ نانگا پربت جو کئی کوہ پیماؤں کی زندگیاں ہڑپ کر چکا ہے وہ بھی قراقرم سلسلے کا ایک عالمی شہرت یافتہ پہاڑ ہے جو جتنا خطرناک ہے، اس سے کہیں زیادہ کوہ پیماؤں کی کشش کا باعث بھی ہے۔

’’سکولے‘‘ پاکستان کا آخری گاؤں!

جب آپ اس پہاڑی سلسلے کی جانب رواں دواں ہوتے ہیں، اگرچہ یہ سلسلہ کوہ آگے کی طرف بڑھتا ہوا اپنا سفر جاری رکھتا ہے لیکن ایک حد کے بعد آپ کو تین ہزار فٹ کی بلندی پر ایک محدود آبادی کا جو گاؤں نظر آئے گا وہ ’’سکولے‘‘ یا ’’سکولی‘‘ کے نام کی شناخت تو رکھتا ہی ہے لیکن اس کی وجہ شہرت پاکستان کے آخری گاؤں کی حیثیت سے بھی ہے، اس گاؤں کی محدود آبادی کی وجہ اس گاؤں کے بعد قراقرم سلسلے کی بلند و بالا چوٹیوں کا ایسا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جہاں عملاً انسانی آبادی ناممکن سمجھی جاتی ہے، یہاں پہنچ کر سمجھ آتا ہے کہ سکولے پاکستان کا آخری گاؤں کیوں کہلاتا ہے۔

’’سکولے‘‘ پاکستان کا آخری گاؤں!

طرز زندگی
یہاں کے لوگوں کا پیشہ باربرداری ہے، یہاں کی 70 فیصد آبادی کا پیشہ دور دراز سے آنے والے کوہ پیماؤں کا سامان اٹھا کر کے ٹو اور دیگر بلند و بالا چوٹیوں تک لے جانا ہے، یہ اس قدر کٹھن کام ہے جو ظاہر ہے ان کے بغیر ممکن نہیں، جس کیلئے دیگر ممالک سے آئے کوہ پیما انہیں منہ مانگے دام دیتے ہیں، ایک سو کے لگ بھگ گھرانوں پر مشتمل اس چھوٹے سے گاؤں کے باسیوں کیلئے گرمیوں کا موسم پرکشش ہوتا ہے جبکہ شدید سردی کے چار ماہ انتہائی مشکل اور تکلیف دہ ہوتے ہیں جب چار سو برف کا راج ہوتا ہے اور ان کے گاؤں کو ملانے والا واحد راستہ بند ہونے کی وجہ سے عملاً ان کا رابطہ پوری دنیا سے کٹ چکا ہوتا ہے۔

یہاں سب سے منفرد بات یہ ہے کہ ان چار مہینوں میں یہ لوگ صحن میں بنے تہہ خانوں میں منتقل ہو جاتے ہیں جہاں یہ چار ماہ تک ایک چھوٹے سے تہہ خانے میں بمع پالتو جانور (یاک) گزارتے ہیں، اس دوران ان کا گزر بسر یاک کے دودھ اور خشک اناج پر ہوتا ہے، تہہ خانے میں وقت گزاری کیلئے خواتین دھاگہ اور اون بنتی رہتی ہیں، عمر رسیدہ مرد سو کر وقت گزارتے ہیں جبکہ نوجوان مارخور کے شکار کیلئے پہاڑوں کا رخ کرتے ہیں جس کیلئے بعض اوقات انہیں کئی کئی ہفتے گھر سے باہر رہنا پڑتا ہے۔

’’سکولے‘‘ پاکستان کا آخری گاؤں!

یہاں کے باسی گرمیوں میں ہی کپڑے دھو کر اناج اور لکڑیاں اکٹھی کر کے سردیوں کی تیاری شروع کر دیتے ہیں، کھانے پینے اور دیگر ضروریات زندگی کی اشیاء کے ہفتے میں کم ازکم ایک دفعہ جیپوں کے ذریعے سکردو شہر کا رخ کرتے ہیں۔

گاؤں بارے دلچسپ حقائق
اس قدر دور دراز، پرخطر اور مشکل ترین راستوں کے بعد سکولے پہنچنے والوں کا تصور اس گاؤں کے باسیوں بارے اس کے علاوہ بھلا اور کیا ہو سکتا ہے کہ شاید قومی زبان سے نا آشنا مقامی زبان میں بات چیت کرتے تعلیم سے عاری یہ لوگ بڑی بڑی شلوار قمیضں پہنے محنت مزدوری کرتے نظر آتے ہوں گے؟

پہلی دفعہ سکولے جاتے لوگ جب یہاں کے بیشتر مقامی افراد کو غیرملکی برانڈڈ کپڑے پہنے انگریزی بولتے دیکھتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں، حقیقت تو یہ ہے کہ بیشتر مقامی افراد کے ملبوسات اور جوتے اس قدر بیش قیمت ہوتے ہیں کہ ایک عام پاکستانی ان کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔

’’سکولے‘‘ پاکستان کا آخری گاؤں!

دراصل یہاں کا رواج ہے کہ یہاں آئے غیر ملکی مہم جوؤں اور کوہ پیماؤں کی اکثریت جو قیمتی سامان سے لیس ہوتی ہے واپس جاتے وقت اپنا تمام سامان یہاں کے مقامی افراد کو دے جاتے ہیں، مقامی لوگ یہ قیمتی سامان خود استعمال کرتے ہیں یا کچھ عرصہ بعد یہ سامان سکردو کے بازاروں میں پہنچ جاتا ہے، جہاں پاکستان بھر سے آئے سیاح اور مقامی افراد یہ قیمتی سامان جن میں خیمے، کپڑے، جوگر، جیکٹس اور دیگر متفرق سامان انتہائی سستے داموں خرید لیتے ہیں جو بڑے شہروں میں اوّل تو دستیاب نہیں ہوتیں اور اگر ہوں بھی تو ان کی قیمتیں انتہائی بلند سطح پر ہوتی ہیں۔

یہاں کے باسی اردو سے زیادہ انگریزی سے اس لئے واقف ہیں کیونکہ کنکورڈیا اور بالتورو جانے والے کوہ پیما چونکہ انگریزی میں گفتگو کرتے ہیں تو بطور گائیڈ یا پورٹر مقامی لوگ کئی کئی دن ان کے ساتھ رہ کر ان کی زبان سیکھ جاتے ہیں، اس گاؤں کے باسیوں کا ذریعہ معاش کوہ پیمائی سے منسلک ہے اور یہ وطن عزیز پاکستان کا واحد علاقہ ہے جسے ’’کوہ پیماؤں کی سرزمین‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔