حکومت کے لیے چیلنجز سے بھرپور رہا
2024 کا سال اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے اور 2025 شروع ہونے والا ہے ۔ کہتے ہیں کہ جب بھی نئے اہداف مقرر کرنے ہوں تو ماضی پر بھی نظر دہرا لینی چاہیے تاکہ اپنی کمی کوتاہیوں کو دیکھتے ہوئے اگلے اہداف بہتر انداز میں مقرر کرلیے جائیں ۔ سال 2024 تقریبا 70 ممالک میں انتخابات کا سال تھا ۔ یعنی 70 ممالک میں نئی حکومتوں کے آنے اور اقتدار کی منتقلی کی وجہ سے معیشت کی صورت حال کمزور رہی ۔ نئی حکومت جب بھی آتی ہے تو وہ خزانے اور بجٹ کو دیکھتے ہوئے نئے پروگرامز شروع کرتی ہے اور ملک کو نئی سمت دینے کی کوشش کرتی ہے ۔اس لیے ہر حکومت کے لیے پہلا سال چیلنجز سے بھرپور ہوتا ہے ۔ پاکستان میں بھی ایسی ہی صورت حال رہی
2024 کا آغاز ہوا تو نگران حکومت نے ملک کی باگ دوڑ سنبھالی ہوئی تھی اور ملک میں الیکشن کا شور برپا تھا ۔ 8 فروری کو پاکستان میں عام انتخابات ہوئے یعنی سیاسی ہلچل کے ساتھ نئے سال کا آغاز ہوا اور اختتام تک سیاسی ماحول گرم ہی ہے ۔ حکومت اور اپوزیشن مذاکرات کی میز پر آ رہے ہیں
2024 کے آغاز پر بات کریں تو سال نو کے 13ویں دن ہی سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کو غیر قانونی قرار دے دیا اور پی ٹی آئی کو بلے کے نشان سے محروم ہونا پڑا جس کے بعد انہوں نے آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا
30جنوری کو عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو “سائفر کیس” میں 10 سال قید کی سزاہوئی جبکہ 31جنوری کو توشہ خانہ کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کو 14 سال کی سزا اور 3فروری کو “غیر شرعی نکاح” کے مقدمے میں 7 سال کی سزا سنائی گئی۔
8فروری 2024 کو پاکستان میں عام انتخابات ہوئے ۔ جس میں مسلم لیگ ن نے زیادہ نشستیں حاصل کیں میں سادہ اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے حکومت سازی کے لیے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کا اتحاد ہوگیا ۔یوں مخلوط حکومت بن گئی ۔ پی ٹی آئی کے آزاد امیدوار کامیاب ہوئے مگر حکومت نہیں بنا پائے ۔
12جولائی کو سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے پی ٹی آئی کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور غیر مسلم نشستوں کے لیے اہل قرار دیا۔ لیکن فیصلے پر تاحال عملدرآمد نہیں ہو سکا
جولائی میں عمران خان اور ان کی اہلیہ کو 9 مئی کے کئی کیسز میں ٹرائل کورٹ نے بری کردیا لیکن گرفتاریوں اور نئے مقدمات کا تسلسل بھی جاری رہا
نو جولائی 2024 کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں سماعت کرنے والے نو رکنی بینچ نے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ریفرنس پر تفصیلی فیصلہ آیا جس میں کہا گیا کہ بھٹو کو فیئر ٹرائل کا حق نہیں ملا
12اگست کو سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو حراست میں لیا گیا ، جس کے بعد ان کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمات کی سماعت کا آغاز ہوا،فیض حمید کے مبینہ طور پر 9مئی کے حملے کی منصوبہ بندی میں کردار ادا کرنے کی بھی تحقیقات کی جارہی ہیں۔اور10دسمبر کو فیض حمید پر سیاسی معاملات میں مداخلت کے الزامات کے تحت باقاعدہ فردِ جرم عائد کی گئی ہے
6 ستمبر کو سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس کا فیصلہ حکومت کے حق میں دے دیا جس سے نیب کا دائرہ اختیار محدود ہوگیا ۔
ماہ ستمبر میں آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے 7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کی منظوری دی، جو معیشت کو بحال کرنے میں مدد کے لیے انتہائی ضروری تھا
پاکستان نے 15 اور 16 اکتوبر کو 23 ویں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کی کامیاب میزبانی کی جس دوران بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر کی شرکت اہم سفارتی لمحہ تھی۔اکتوبر میں 26 ویں آئینی ترمیم کا مسودہ سامنے آیا اور 20 اکتوبر کو 26 ویں آئینی ترمیم منظور ہوگئی ۔جس میں چیف جسٹس کے سوموٹو اختیارات کو بھی محدود کیا گیا ۔26اکتوبر کو جسٹس یحییٰ آفریدی پاکستان کے 30ویں چیف جسٹس مقرر ہوئے جو ایک خاص پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات کے تحت منتخب کیے جانے والے پہلے چیف جسٹس کہلاتے ہیں ۔
2024 کو جس طرح انتخابات کا سال کہا جاتا ہے اسی طرح پاکستان میں اس کو احتجاجی مظاہروں کا سال بھی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ کیونکہ اس سال کئی حتجاج کیے جاتے رہے جس میں بیشتر پی ٹی آئی کی جانب سے کیے گئے ۔
جن میں قابل ذکر 24 فروری کو پی ٹی آئی ، جماعت اسلامی ، جی ڈی اے کا مشترکہ احتجاجی مظاہرہ ہے جس میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں اسی طرح مارچ اور اپریل میں بھی پی ٹی آئی نے لاہور ، کراچی ، راولپنڈی سمیت کئی شہروں میں احتجاج کیے اور پولیس سے تصادم بھی کیا۔24 اور 27 نومبر کو بھی فائنل کال کے نام پر پی ٹی آئی نے اسلام آبا د مارچ کیا اور اس وقت بیلا روس کے صدر بھی پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے تھے ۔27 نومبر کو حکومت نے ڈی چوک خالی کروا کر کئی کارکنوں کو گرفتار بھی کیا ۔
2024 کو جہاں اے آئی نے اپنے قدم جمائے اور ڈیجیٹل دنیا میں پاکستانیوں نے خود کو منوانا شروع ہی کیا وہیں 8 فروری سے لے کر تاحال پاکستان میں انٹرنیٹ کی بندش سے لاکھوں صارفین متاثر ہوئے ہیں
2024 میں ملک کو دہشت گرد حملوں کا سامنا بھی کرنا پڑا جس میں اگست میں بلوچستان میں ہونے والے حملے ، کراچی میں چینی انجینئرز پر خودکش حملہ ،کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر حملہ شامل ہے
2025 پر حکومت کئی نئے پروگرامز لا رہی ہے اور امید ہے کہ آئندہ برس کے لیے حکومت نے جو اہداف رکھے ہیں وہ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں گے ۔