انڈیا کے پاکستانی سر زمین پر پلے بڑھے سکھ وزیراعظم من موہن سنگھ جی کی وفات پر انڈیا جیسا ہی سوگ پاکستان میں بھی محسوس کیا گیا، چکوال کے اس گاؤں میں جہاں من موہن سنگھ جی پیدا ہوئے اور پلے بڑھے تھے، من موہن سنگھ کو اور ان کے ماں جی باپو جی کو آنکھوں سے دیکھنے والے اب باقی نہیں رہے تاہم لوگوں نے من موہن سنگھ جی کے چلانا کر جانے پر ایسا ہی افسوس محسوس کیا جیسا گاؤں کے کسی ہر دل عزیز بوڑھے کے چلے جانے پر ہوتا۔
من موہن سنگھ جی 92 سال کے ہو چکے تھے، عرصہ سے صاحبِ فراش تھے، کل جمعرات کے روز وہ دہلی کے ایک ہسپتال میں جہانِ فانی سے چلانا کر گئے۔ نئی دہلی سرکاری نے من موہن سنگھ جی کی سرکاری اعزاز کے ساتھ تدفین کے ساتھ ان کے جانے پر سات روز تک سرکاری سوگ کا اعلان کیا ہے۔
من موہن سنگھ 26 ستمبر 1932 کو ہمارے والے پنجاب کے ضلع چکوال کے گاؤں گاہ میں پیدا ہوئے تھے۔
من موہن سنگھ ن نے سکول کی تعلیم پشاور میں حاصل کی،اسی دوران 1947 میں انگلینڈ کا مقبوضہ ہند آزاد ہوا، پاکستان اور بھارت کی ریاستیں تشکیل ہوئیں تو تقسیم کے بعد من موہن سنگھ جی کا خاندان چکوال چھوڑ کر انڈیا منتقل ہو گیا۔
ماہر سماجیات جارج میتھیو 2004 مین من موہن سنگھ جی کے انڈا کا وزیر اعظم بننے کے بعد ان کی جنم بھومی کی کھوج کے لئے چکوال کے گاؤں ’گاہ‘ گئے تھے۔
ٹریبون انڈیا میں لکھے گئے جارج میتھیو کے مضمون کے مطابق یہاں سکول رجسٹر کے مطابق منموہن سنگھ کا نمبر 187 تھا، والد کا نام: گرمکھ سنگھ؛ ذات: [پنجابی کھتری] کوہلی: پیشہ: دکاندار: اور داخلے کی تاریخ 17 اپریل 1937 درج ہے۔
گاؤں میں منموہن سنگھ کے دوست شاہ ولی نے جارج میتھیو کو بتایا کہ ’دو کچے کمروں کے سکول میں تقریباً 100 طالب علم تھے۔‘
اس سکول کی موجودہ عمارت کئی سال بعد بنی۔
سکول کے داخلہ رجسٹر میں منموہن کا سیریل نمبر 187 ہتھا۔
شاہ ولی کا کہنا تھا کہ ’ہمارے استاد دولت رام اور ہیڈ ماسٹر عبدالکریم تھے۔ بچیاں اور بچے اکٹھے پڑھتے تھے۔‘
ٹریبون پاکستان میں چھپے ایک مضمون کے مطابق اُن کے دوست غلام محمد خان نے خبر رساں اے ایف پی کو بتایا کہ ’موہنا ہماری کلاس کے مانیٹر تھے اور ہم اکٹھے کھیلتے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا ’وہ ایک شریف اور ذہین بچہ تھا۔ ہمارے استاد نے ہمیشہ ہمیں مشورہ دیا کہ اگر ہم کچھ سمجھ نہ پائیں تو ان کی مدد حاصل کریں۔‘
چوتھی جماعت پاس کرنے کے بعد من موہن اپنے گھر والوں کے ساتھ اپنے گاؤں سے 25 کلومیٹر دور چکوال چلے گئے اور 1947 میں برطانوی ہندوستان کی انڈیا اور پاکستان میں تقسیم سے کچھ عرصہ قبل امرتسر چلے آئے۔
چکوال سے ہزار کلومیٹر دور چلے جانے باوجود من موہن سنگھ جی اور ان کے ماں جی، باپو جی اپنے گاؤں کو نہ بھلا سکے ۔ انہوں نے مئی 2008 میں اپنے بچپن کے دوست راجا محمد علی سے ملاقات کے دوران اس کا اعتراف بھی کیا کہ گاؤں یاد آتا ہے۔
راجا محمد علی، من موہن سنگھ سے ملنے نئی دہلی گئے تھے۔ انہوں نے اپنے بچپن کے دوست اور ہم جماعت من موہن سنگھ کو اپنے گاؤں گاہ کی مٹی اور پانی کے ساتھ چکوالی کے کاری گروں کا بنایا روایتی جوتا تبرکات کا تحفہ پیش کیا تھا۔ سو سال پرانی ایک چادر بھی ان تحائف میں شامل تھی۔
راجا محمد علی اپنے ساتھ اپنے گاؤں کی ایک فوٹو گراف بھی لے کر گئے تھے جو انہوں نے لنگوٹیئے یار من موہن کو پیش کی۔
انہوں نے من موہن سنگھ کی بیگم گورشرن کور جی کو ہاتھ کی چکوالی کڑھائی والی شلوار قمیص بھی تحفے میں دی تھی۔ منموہن سنگھ کی اہلیہ گرشرن سنگھ کا خاندان پنجاب کے ضلع جہلم کے گاؤں ڈھکو میں رہتا تھا اور تقسیم کے وقت وہ یہاں سے اٹھ کر انڈیا گئے تھے۔
اِن اَ ن مول تبرکات اور تحئف کے جواب میں من موہن سنگھ نے راجا محمد علی کو پگڑی، چادر اور ٹائٹن گھڑی کا سیٹ پیش کیا تھا۔
اس ملاقات نے دکھایا کہ “وزیراعظم “کے لئے بارڈر پار کی یادیں اور دوستی واقعی اہم تھی۔ دونوں دوستوں کی یہ ملاقات جذباتی لمحات سے بھری تھی۔
راجا محمد علی، من موہن سنگھ سے ملاقات کے بعد پاکستان آئے تو جب تک جیئے اس ملاقات کو یاد کرتے رہے اور اپنے بچپن مین من موہنے کے ساتھ گزرے دنوں کو بھی یاد کرتے رہے۔ راجا صاحب خود 2010 میں 78 سال کی عمر میں چل بسے اور چکوال میں آسودہ خاک ہوئے، ان کا بیلی من موہنا اس جمعرات کو کوچ کر گیا۔
من موہن سنگھ جی نے پاکستان آ کر اپنے گاؤں کی یاترا کی خواہش تو پاکستانی دوستوں سے شئیر کی تھی لیکن وہ دونوں اطراف اسٹیبلشمنٹوں کی کھڑی کی ہوئی اونچی دیوار کو عبور کر کے پاکستان کبھی نہ آ پائے۔ حالانکہ اس دوران بھارت کی سخت پاکستان دشمن جماعت کے کئی لیدر پاکستان کئی کئی بار آئے لیکن پاکستان کی دھرتی کا جَم پَل موہنا مرتے دم تک پاکستان آنے کی بس تانگھ کی کرتا رہا، کبھی آ نہیں پایا۔
اس تحریر میں واشنگٹن پوسٹ، انڈیا ٹوڈے، ٹائمز آف انڈیا، ہندوستان ٹائمز , بی بی سی اردو اور این ڈی ٹی وی کی شائع کردہ خبروں سے مدد لی گئی ۔