پاکستان کی قومی اسمبلی میں حکومت کی مدت ختم ہونے سے قبل درجنوں بلوں کی منظوری کا معاملہ عوامی اور سماجی حلقوں میں موضوعِ بحث ہے۔
نئی قانون سازی کے معاملے پر اپوزیشن اراکین کے ساتھ ساتھ حکومتی جماعت سے تعلق رکھنے والے اراکین بھی تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔
پاکستان کی قومی اسمبلی نے صرف دو روز میں 53 قوانین منظور کیے جب کہ سینیٹ میں بھی گزشتہ ماہ جولائی سے اب تک 20 سے زائد بل منظور کیے جا چکے ہیں۔
جن بلز پر اعتراض سامنے آیا ہے ان میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ ترمیمی بل بھی شامل ہے جس میں زمانۂ جنگ کے ساتھ زمانۂ امن کو بھی شامل کیا جا سکے گا۔ حکومت کو حالت امن میں بھی کسی بھی جگہ، علاقے، بری یا بحری راستے کو ممنوع قرار دینے کا اختیار حاصل ہوگا۔
بل کے مطابق سیکیورٹی فورسز اور خفیہ اداروں کو بغیر وارنٹ کے چھاپہ مارنے اور دستاویزات قبضے میں لینے کا اختیار ہوگا۔
اس بل کے ذریعے سیکریٹ ایکٹ کے 1923 کے قانون میں مزید ترامیم کی گئی ہیں۔
پاس کیے گئے بلوں میں پاکستان ایئر سیفٹی انویسٹی گیشن، پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی بل، سائبر سیکیورٹی، پاکستان ساورن ویلتھ فنڈ بل اور نیشنل کمیشن برائے انسانی ترقی ترمیمی بل بھی شامل ہیں۔
ارکانِ اسمبلی کے تحفظات
ارکانِ پارلیمنٹ کے مطابق انہیں بلز کی کاپیاں دی جا رہی ہیں نہ ہی نئی قانون سازی کے بلز متعلقہ کمیٹیوں کو بھیجے جا رہے ہیں۔ ارکانِ پارلیمنٹ کی اکثریت یہ گلہ کرتی نظر آتی ہے کہ نئی قانون سازی پر ایوان میں بحث بھی نہیں کرائی جا رہی ہے۔
ماضی میں یہ بھی روایات موجود رہی ہیں کہ عجلت میں بل منظور کرائے گئے۔ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے دورِ حکومت میں بھی نومبر 2021 میں بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کے حق اور الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال سمیت 60 بل منظور کیے گئے تھے۔
ماہرین سمجھتے ہیں کہ جلد بازی میں کی گئی قانون سازی کے منفی اثرات ہوں گے۔
‘آگے چل کر اس کے اثرات سامنے آئیں گے’
تجزیہ کار اور سینئر صحافی مظہر عباس سمجھتے ہیں کہ ایسے قانون بھی منظور کیے گئے ہیں جن پر آگے چل کر اس کے منفی اثرات کا اندازہ ہو گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ بعض بل ایسے ہیں جس میں شخصی آزادی، شہری آزادی، بنیادی حقوق اور جمہوری حقوق متاثر ہوں گے۔
مظہر عباس کا مزید کہنا تھا کہ جس جلد بازی سے موجودہ حکومت بل پاس کر رہی ہے اُس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اِن بلوں کی منظوری اور اُن سے پیدا ہونے والے مسائل سے موجودہ پارلیمنٹ بری الذمہ نہیں ہو سکے گی۔
‘کچھ معاملات میں قانون سازی ریاست کی ضرورت ہے’
سینئر صحافی سلمان غنی کہتے ہیں کہ کچھ معاملات میں قانون سازی ریاست کی ضرورت ہے۔ لیکن جس تیزی سے یہ سارا عمل ہوا ہے، اس پر سوال اُٹھتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ تیزی سے کی جانے والی قانون سازی اور بعض حساس معاملات پر قانون سازی نے خود حکومتی اتحادیوں کو بھی الرٹ کر رکھا ہے اور وہ بھی اب تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ اب یہ سلسلہ ایسے ہی چلے گا اور چلائیں گے وہی جو ملک میں بااختیار ہیں اور خود یہ احساس سیاسی جماعتوں کے اندر بھی پیدا ہو چکا ہے۔
مظہر عباس کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومتی اتحاد میں سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔ لیکن ایسے بل پاس کر رہی ہیں جس سے جمہوریت اور سیاست کو مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ ایوان سے بلوں کی منظوری ایک مرحلہ ہے اور جب تک صدر بلوں پر دستخط نہیں کر دیتے وہ قانون نہیں بنیں گے۔
اُن کا کہنا تھا کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ پاس ہونے والے سارے موجود بل اگلی پارلیمنٹ تک جائیں گے۔ اگلی پارلیمنٹ ہی اِن بلوں پر حتمی کام کرے گی۔
سابق وزیرِاعظم عمران خان نے بھی اِس بل کی منظوری پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ملک سے جمہوریت ختم ہو گئی ہے۔
البتہ وفاقی حکومت نئی قانون سازی سے متعلق اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے واضح کر چکی ہے کہ ملک و قوم کے مفاد میں قانون سازی کی جا رہی ہے۔