پاکستان میں اپوزیشن جماعتوں نے وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد پیش کر رکھی ہے جس پر تین اپریل کو ووٹنگ کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں نئے وزیرِ اعظم کے انتخاب تک کے درمیانی عرصے میں کیا ہو گا؟
تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں آئینی مراحل کیا ہوں گے؟ جب ملک کا وزیرِ اعظم نہیں ہو گا تو پھر اہم فیصلے کون کرے گا؟ نئے وزیرِ اعظم کا انتخاب کیسے ہو گا؟ ان سوالات کے جواب جاننے کے لیے وائس آف امریکہ نے قانونی اور پارلیمانی اُمور کے ماہرین سے گفتگو کی ہے۔
تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد کیا ہو گا؟
ماہرِ قانون سلمان اکرم راجہ کہتے ہیں کہ اگر تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے تو موجودہ وزیرِ اعظم اپنے عہدے سے سبک دوش ہو جائیں گے اور ملک کا کوئی وزیرِ اعظم نہیں ہو گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ ایسی صورت میں صدرِ مملکت کے لیے لازم ہو گا کہ وہ فوری طور پر قومی اسمبلی کا اجلاس بلائیں جس میں نئے قائدِ ایوان کا انتخاب ہو، لیکن بہرحال اس میں چند روز لگ سکتے ہیں۔
سلمان اکرم راجہ کے مطابق اگر عمران خان اعتماد کا ووٹ نہ لے سکے تو پھر تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے والے اسپیکر
اور ڈپٹی اسپیکر کے خلاف بھی تحریکِ عدم اعتماد آ سکتی ہے
تحریک عدمِ اعتماد کی کامیابی کے بعد وزیرِ اعظم کو اُن کے عہدے سے ڈی نوٹیفائی کیا جائے گا اور اس کے بعد اسمبلی کا سیشن طلب کیا جائے گا۔
قائدِ ایوان کے انتخاب کے لیے وہی طریقۂ کار اختیار کیا جائے گا جو انتخابات کے بعد اختیار کیا جاتا ہے۔قومی اسمبلی میں موجود سب جماعتوں کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ اپنا اُمیدوار نامزد کریں اور اس حوالے سے سیاسی جماعتیں اپنے اپنے اُمیدوار کے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائیں گی۔
حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد نے بارہا یہ کہا ہے کہ قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف ان کی طرف سے وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار ہوں گے۔ تاہم اس سے قبل اپوزیشن کو ایوان میں عددی اکثریت ثابت کرنا ہو گی۔
نئے قائدِ ایوان کا انتخاب شو آف ہینڈ کے ذریعے ہو گا اور جو اُمیدوار 172 اراکین کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا، صدر مملکت اسے حکومت بنانے کی دعوت دیں گے۔
ماہرِ قانون عرفاق قادر کہتے ہیں کہ پاکستان میں وزیرِ اعظم اور وزیرِ اعلٰی کا انتخاب ہی صرف شو آف ہینڈ کے ذریعے ہوتا ہے اس کے علاوہ تمام انتخابات خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوتے ہیں۔
اُن کے بقول اگر قائدِ ایوان کے انتخاب کے لیے اُمیدوار مطلوبہ اکثریت حاصل نہ کر سکے تو اسمبلی کا اجلاس دوبارہ طلب کیا جاتا ہے اور پھر شو آف ہینڈ ہوتا ہے اور اگر کوئی بھی اُمیدوار 172 اراکینِ قومی اسمبلی کی حمایت حاصل نہ کر سکے تو آرٹیکل 58 کے تحت صدرِ مملکت اسمبلی تحلیل کر سکتے ہیں اور ملک نئے انتخابات کی جانب بڑھ جاتا ہے۔
سابق چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد کہتے ہیں کہ گو کہ آئین میں کوئی مدت درج نہیں ہے کہ صدر کتنے روز کے اندر قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے پابند ہیں، تاہم روایت یہی رہی ہے کہ دو، تین روز کے اندر صدر قومی اسمبلی کا اجلاس بلا لیتے ہیں۔
وزیرِ اعظم کے بغیر ایگزیکٹو اتھارٹی کا خلا کون پر کرے گا؟
اس سوال کے جواب میں ماہرِ قانون سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا اس حوالے سے آئینِ پاکستان میں ابہام ہے۔اُن کے بقول پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں ماضی میں بھی ایسے مواقع آتے رہے ہیں جب چند روز کے لیے ملک میں کوئی وزیرِ اعظم نہیں تھا، لیکن اس دوران کبھی یہ نوبت نہیں آئی کہ اس دوران کوئی ملکی سلامتی کا فیصلہ درپیش ہو۔
ماہرِ قانون یہ بھی کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ آئین میں یہ درج ہے کہ قومی سلامتی اور ملک کے اہم
فیصلے وزیرِ اعظم سے مشاورت کے تابع ہیں۔
حامد ناصر چٹھہ کے خیال میں نئے وزیرِ اعظم کے انتخاب کے عمل میں زیادہ وقت نہیں لگتا اور بہت جلد ایگزیکٹو اتھارٹی آ جاتی ہے اور اس دوران سربراہِ مملکت یعنی صدر مملکت تو موجود ہوتے ہیں۔ تاہم سابق چئیرمین سینیٹ وسیم سجاد کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم کی غیر موجودگی میں حکومت کا نظام چلانا ناممکن ہوتا ہے۔
‘صدر سبکدوش وزیرِ اعظم کو ہی چند روز کے لیے کام جاری رکھنے کا کہہ سکتے ہیں’
ماہرِ قانون اور سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کہتے ہیں کہ جب تک نیا وزیرِ اعظم حلف نہیں اُٹھا لیتا اس وقت تک آئین کے آرٹیکل 94 کے تحت صدر موجودہ وزیرِ اعظم کو ہی کام جاری رکھنے کا کہہ سکتے ہیں۔
وسیم سجاد کے بقول گو کہ صدرِ مملکت عبوری عرصے کے دوران سبک دوش وزیرِ اعظم کو بھی کام جاری رکھنے کا کہہ سکتے ہیں۔ لیکن یہ کوئی اچھا انتظام نہیں ہو گا کیوں کہ اُن کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہو چکی ہوتی ہے۔ لہذٰا مناسب یہی ہو گا کہ جلد از جلد اکثریتی اراکین کی حمایت حاصل کرنے والا نیا قائدِ ایوان ہی اپنا کام سنبھالے۔
کیا صدرِ مملکت اور اسپیکر قومی اسمبلی اس عمل میں تاخیر کر سکتے ہیں؟
عرفان قادر کہتے ہیں کہ آئین میں سارا طریقۂ کار درج ہے جس میں اسپیکر کے لیے کوئی گنجائش نہیں کہ وہ تاخیری حربے استعمال کر سکیں۔
اُن کے بقول اگر کسی وجہ سے تاخیر ہو بھی جائے تو بہر حال یہ عمل تو مکمل ہونا ہی ہے اور اگر اسپیکر اس میں تاخیر کرتا ہے تو وہ اپنے آئینی اختیار سے تجاوز کر ے گا اور ایسی صورت میں اسپیکر کے خلاف بھی تحریکِ عدم اعتماد آ سکتی ہے۔
وسیم سجاد کہتے ہیں کہ اسپیکر کا آئینی کردار تو یہی ہے کہ وہ پارٹی نہیں بن سکتا اور اسے آئینی معاملات کو بہرحال آگے بڑھانا پڑتا ہے چاہے اس کی سیاسی وابستگی کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو ورنہ وہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو تا ہے۔
سلمان اکرم راجہ کہتے ہیں کہ یہ آئینی اور پارلیمانی معاملہ ہے اور اس میں کوئی عدالت مداخلت نہیں کر سکتی، لہذٰا عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد نیا قائدِ ایوان ہی اپنی حکومت بناتا ہے۔