پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف چار سال بعد آج وطن واپس آ رہے ہیں، وطن واپسی کے بعد انہیں مختلف کیسز کا سامنا کرنا پڑے گا۔
نواز شریف کو وطن واپسی پر توشہ خانہ سے مرسڈیز گاڑی لینے پر بنائے گئے نیب ریفرنس میں آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی کے ساتھ بطور ملزم ٹرائل کا سامنا کرنا ہوگا۔
سابق وزیر اعظم کو ایون فیلڈ اور العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنسز میں احتساب عدالت سے سنائی گئی سزائیں ختم کرانے کیلئے بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیلیں بحال کرانا ہوں گی۔
ایون فیلڈ ریفرنس میں ہائی کورٹ شریک ملزمان مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو پہلے ہی بری کر چکی ہے۔
پانامہ جے آئی ٹی کی تحقیقات کے بعد نیب نے نواز شریف کے خلاف احتساب عدالت میں تین ریفرنس دائر کیے تھے، احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ ریفرنس میں انہیں 10 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
اسی ریفرنس میں شریک ملزمان مریم نواز کو 7 سال جبکہ کیپٹن ریٹائر صفدر کو 1 سال قید کی سزا ہوئی۔
احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں نواز شریف کو 7 سال قید کی سزا سنائی جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کر دیا گیا تھا۔
نواز شریف کے علاج کیلئے بیرون ملک جانے سے قبل سزا کے خلاف دونوں اپیلیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت اورسزائیں معطل تھیں تاہم بیرون ملک ہونے کے باعث اپیلیں عدم پیروی پر خارج کردی گئی تھیں۔
عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ اپیل کنندہ جب واپس آئے تو وہ سزا کے خلاف اپیلیں بحال کرانے کیلئے درخواست دے سکتا ہے۔
نواز شریف کو اپیلیں بحال کرانے کے بعد اس پر فیصلے کا انتظار کرنا ہوگا تاہم اس دوران ان کی سزا معطل رہے گی۔
نواز شریف کے خلاف مارچ 2020 میں نیب نے توشہ خانہ ریفرنس دائر کیا تو وہ ملک سے باہر تھے، اس کیس میں شریک ملزمان آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی سمیت دیگر پر تو فرد جرم عائد ہوئی تاہم نواز شریف کو عدالت میں پیش نہ ہونے کے باعث اس ریفرنس میں اشتہاری قرار دے دیا گیا۔
نواز شریف کو وطن واپسی پر ٹرائل کورٹ میں اس ریفرنس کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔