یہ درست ہے کہ کسی بھی ملک میں مضبوط جمہوریت کے لیے مستعد اور فعال اپوزیشن ضروری ہوتی ہے جو حکومت کی کارکردگی پر نظر رکھتے ہوئے اس پر عوامی فلاح و بہبود کے کاموں اور انتخابی مہم کے دوران عوام سے کیے گئے وعدوں کی تکمیل کے لیے دباؤ ڈالتی ہے۔
لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں اپوزیشن اور حکومت کا کردار کبھی دو انتہاؤں پر ہوتا ہے تو کبھی ایسا کہ لگتا ہی نہیں کہ ملک میں کسی اپوزیشن کا وجود ہے۔ یہاں 90 کی دہائی اگر سیاسی رسہ کشی میں گزری تو گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصہ اپوزیشن کے بارے میں یہی تاثر قائم رہا کہ یہ فرینڈلی اپوزیشن ہے اور اس تاثر کو خود اپوزیشن نے اپنے اقدامات سے تقویت دی۔
پاکستان میں اپوزیشن کے بارے میں ایک تاثر یہ بھی ہے کہ وہ ایک خاص وقت پر اشارہ پاتے ہی سڑکوں پر نکل آتی ہے اور حکومت کے خلاف اپنے احتجاج کو عوام کے مسائل اور ان کی مشکلات سے جوڑتی ہے۔
ہمارے بلاگ کے عنوان سے واضح ہے ہم اپوزیشن کی جانب سے وزیرِ اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کے نتائج پر نہیں بلکہ اس کی ٹائمنگ اور ان حالات پر بات کریں گے جن میں اپوزیشن جماعتوں نے تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنے پر اتفاق کیا۔
گزشتہ سال اپریل میں جب حکومت مخالف اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم میں ٹوٹ پھوٹ ہوئی تو حکومتی حلقوں نے سکون کا سانس لیا تھا وجہ صاف تھی کہ پی ڈی ایم نے حکومت کو ہٹانے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنے کا اعلان کیا تھا اور اپنی سرگرمیوں کے آغاز کے ساتھ کئی بڑے جلسے بھی کیے تھے جس نے حکم راں جماعت کو دباؤ میں لے لیا تھا، لیکن جب ذاتی مفاد کے لیے ایک بڑی ملکی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے دوسری بڑی پارٹی ن لیگ کو بائی پاس کر کے یوسف رضا گیلانی کو حکومت کی مدد سے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بنوایا تو گویا پی ڈی ایم میں انتشار پیدا ہوگیا جس کے نتیجے میں پی پی پی اور اے این پی کو اس اتحاد سے نکلنا پڑا اور پی ڈی ایم عملاً ٹوٹ گئی۔ کیوں کہ پی ڈی ایم بنانے کے فیصلے میں بھی پی پی پی پیش پیش تھی اور 20 ستمبر 2020 کو بلاول بھٹو کی میزبانی میں ہونے والی اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس میں اس کی تشکیل کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
بہرحال پی پی پی کے اس اتحاد سے علیحدہ ہونے کے بعد پی ڈی ایم میں شریک تمام جماعتیں جو پہلے حکومت کے خلاف صف آرا تھیں، ایسا لگنے لگا کہ ان کا ہدف اب حکومت نہیں رہی، خاص طور پر ن لیگ اور پی پی پی نے تو ایک دوسرے کو نشانے پر رکھ لیا اور وہ گولہ باری ہوئی کہ حکومتی ایوانوں میں تو شادیانے بج گئے۔ اس دوران کبھی کبھار منہ کا ذائقہ تبدیل کرنے کے لیے پی پی اور ن لیگ قیادت کے ساتھ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن بھی حکومت کے خلاف بیانات داغ دیتے لیکن مجموعی طور پر اپوزیشن آپس ہی میں گتھم گتھا نظر آئی جس کا حکومتی جماعت نے کئی بار فائدہ بھی اٹھایا۔
قصہ مختصر اپریل میں پی ڈی ایم ٹوٹنے کے بعد حکومتی حلقوں میں بے چینی ختم ہوگئی اور ملکی فضا میں جو سیاسی ہلچل پیدا ہوئی تھی وہ صرف اپوزیشن کیمپ تک ہی محدود رہی۔
اپوزیشن کی باہمی ’’تُو تُو مَیں میں‘‘ جاری تھی کہ اسی دوران 16 ستمبر 2021 کو عمران خان اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے درمیان ملاقات ہوتی ہے۔ روسی صدر کی طرف سے دعوت کو عمران خان قبول کر لیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ دورہ پاکستان کی معیشت کی بحالی کے لیے بہت اہم ہے۔ وزیرِاعظم کسی بھی صورت اس موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتے ہیں۔ یہ تاریخی دورہ فروری 2022 کے اواخر میں طے پاتا ہے اور دونوں طرف گرم جوشی نظر آتی ہے۔ لیکن جیسے جیسے دورے کا وقت قریب آتا ہے ایسا لگتا ہے کہ ملکی سیاست میں اچانک بھونچال آگیا ہے، ایک دوسرے کی مخالفت میں آگے سے آگے بڑھ جانے والی پارٹیاں توقع کے بَرخلاف ایک دوسرے کے لیے محبت سے بانہیں پھیلا لیتی ہیں اور ایک دوسرے کے ہاں سیاسی آنیاں جانیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ اسی ماحول میں پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کردیتے ہیں اور اس کے لیے اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ حکومتی اتحادی جماعتوں کے ساتھ بھرپور رابطوں کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
بلاول بھٹو کے اس اعلان کے بعد پی پی پی پارلیمنٹرین کے صدر آصف علی زرداری جو کہ کافی عرصہ سے صاحب فراش ہونے کے ساتھ سیاسی منظر نامے سے بھی غائب ہیں اچانک تندرست ہوکر سیاسی میدان میں ظاہر ہوتے ہیں اور اپنے مفاہمتی بلے سے ایک اور اننگ کھیلنے کا آغاز کرتے ہیں۔ لیکن حیرت انگیز لمحہ وہ ہوتا ہے کہ جس بات پر پی ڈی ایم میں پہلی دراڑ پڑی تھی یعنی گزشتہ سال پی پی کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کی تجویز کو ن لیگ نے سختی سے رد کردیا تھا اب چند ملاقاتوں کے بعد ن لیگ پی پی کے اس فارمولے پر من وعن راضی ہوجاتی ہے اور پہلے اس تجویز کے شدید مخالف نواز شریف اس کی منظوری بھی دے دیتے ہیں پھر اس کے بعد کیا ہوتا ہے یہ تماشا پوری قوم گزشتہ ایک ڈیڑھ ماہ سے دیکھ رہی ہے۔
متحدہ اپوزیشن کے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے اعلان کے بعد حکومت پر دباؤ بڑھتا ہے اور عین دورہ روس سے چند روز قبل یہ سرگرمیاں اتنی عروج پر پہنچتی ہیں کہ عوام بھی حیران رہ جاتے ہیں کہ ایسا کیا ہوگیا کہ چند ماہ قبل ایک دوسرے کے گریبان پکڑنے والے اب ایک دوسرے کے دست و بازو بن رہے ہیں۔ وہ تماشا لگتا ہے کہ کبھی اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم کے دورہ روس کے دوران تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی بات کی جاتی ہے تو مارچ کے آخری ہفتے میں پی ٹی آئی حکومت کے خلاف وفاقی دارالحکومت میں احتجاج کا اعلان ہوتا ہے۔ یہاں بتاتے چلیں کہ 22 اور 23 مارچ تک اسلام آباد میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہونا ہے۔
اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم کے خلاف اپنی تحریک عدم اعتماد جمع کراچکی ہیں حکومت اور اپوزیشن دونوں کی جانب سے نمبرز پورے ہونے کے دعوے کیے جارہے ہیں۔ بہرحال عمران خان دورہ روس مکمل کرکے آجاتے ہیں اس کے بعد تو گویا سیاسی پیالی میں وہ طوفان برپا ہونا شروع ہوتا ہے کہ عوام کو لگتا ہے کہ حکومت تحریک عدم اعتماد سے قبل ہی اب گئی کہ تب گئی۔ اس بلاگ کی اشاعت تک اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد جمع کراچکی ہیں اور اسپیکر قومی اسمبلی نے جمعہ 25 مارچ کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا ہے۔ 25 مارچ ویسے ہی عمران خان کے لیے تاریخی دن ہے کہ 30 سال قبل اسی روز پاکستان کرکٹ کا عالمی چیمپیئن بنا تھا اور اس وقت کے کپتان عمران خان نے عالمی کرکٹ کپ کی ٹرافی ہاتھوں میں تھی۔ اس بار 25 مارچ کو عمران خان کے ہاتھوں میں کیا آتا ہے یہ تو آنے والا 25 مارچ ہی بتائے گا۔
جیسا کہ ہم نے بلاگ کے آغاز میں تحریک عدم اعتماد کی ٹائمنگ پر بات کی تھی تو ذہن کے دریچے کھولنے کے لیے ہمیں تاریخ کے کچھ اوراق کھنگالنے پڑیں گے۔
قیام پاکستان کے تقریباً پونے دو سال بعد 8 جون 1949 کو ایران میں پاکستانی اور روسی سفارتکاروں کے ذریعے پاکستان کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کو روسی صدر جوزف اسٹالن کی جانب سے دورہ روس کی دعوت دی جاتی ہے جس کے بعد سفارتی ایوانوں میں جیسے بھونچال آجاتا ہے۔
اس حوالے سے عائشہ جلال اپنی کتاب ”پاکستان اسٹیٹ آف مارشل رول” میں لکھتی ہیں کہ امریکا کی حمایت یافتہ مضبوط لابی جس کی قیادت وزیر خزانہ غلام محمد کر رہے تھے وزیراعظم کو دورہ ماسکو سے پیچھے ہٹانے میں کامیاب ہو گئی۔ وزیر خزانہ نے وزیر اعظم کو یہ دھمکی بھی دی کہ حکومت کرو یا گھر جاؤ۔ اسی طرح ایک اور مصنف اختر بلوچ نے اس سلسلے میں ایک غیرمعمولی انکشاف کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ کراچی میں برطانوی ہائی کمشنر لارڈ گریفٹی سمتھ نے پاکستانی وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان کو دھمکی دی تھی کہ وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان اگر ماسکو گئے تو پاکستان برطانیہ اور امریکا سے دشمنی کے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔
اسی انداز فکر کی تائید ایک ممتاز اخبار ڈیلی ٹیلی گراف کی اس خبر سے بھی ہوتی ہے جس میں وزیراعظم پاکستان کے دورہ روس کی خبر شہ سرخی میں شائع ہوئی اور خبر میں بتایا گیا کہ پاکستانی وزیراعظم لیاقت علی خان دولت مشترکہ ممالک میں سے روس کا دورہ کرنے والے پہلے سربراہ مملکت ہوں گے لیکن فیوڈلز پہ مشتمل امریکی نواز وزرا ڈر گئے اور دورہ کینسل ہو گیا۔ دورے کی تنسیخ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں فیصلہ کن موڑ تھا۔
پاکستانی خارجہ پالیسی پر ابتدائی کتابوں میں سے ایک ’’پاکستانز فارن پالیسی‘‘ کے مصنف مشتاق احمد لکھتے ہیں وزیراعظم کا ماسکو نہ جانا ایک بھیانک غلطی تھی کیونکہ اس دورے کے ذریعے پاکستان کو نہ صرف ایک متوازن خارجہ پالیسی پر کاربند ہونے کا موقع ملتا بلکہ عالمی قوتوں کی طرف سے پذیرائی اور حمایت بھی ملتی۔
دونوں ادوار میں دورۂ روس کے اعلان کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال ہم نے قارئین کے سامنے رکھ دی ہے۔ آپ اس کا موازنہ کرتے ہوئے سوچیے کہ جو کچھ آج کل وطن عزیز پاکستان میں ہورہا ہے کہیں یہ سب کسی کے اشارے پر تو نہیں ہو رہا؟؟؟