اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کیخلاف جمع کرائی گئی عدم اعتماد کی قرارداد پر ووٹنگ آج ہوگئی جس میں یہ فیصلہ ہوجائے گا کہ عمران خان وزیراعظم کے عہدے پر رہیں گے یا فارغ ہوجائیں گے۔
قومی اسمبلی کا اجلاس آج صبح ساڑھے 11 بجے پارلیمنٹ ہاؤس میں ہو گا۔
قومی اسمبلی کے اجلاس کے ایجنڈے کے مطابق قائد حذب اختلاف شہباز شریف کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف پیش کی گئی عدم اعتماد کی قرارداد پرووٹنگ کی جائےگی۔
وزیر اعظم عمران خان کےخلاف عدم اعتماد کی قرارداد پرووٹنگ ایجنڈےمیں شامل ہے۔ اس قرار داد میں کہا گیا ہے کہ ایوان وزیراعظم عمران خان پرعدم اعتماد کرتا ہے، عمران خان ایوان کا اعتماد کھوچکے لہٰذا وزیراعظم کے عہدے پر برقرار نہیں رہ سکتے۔
اجلاس کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کی حکمت عملی
وزیراعظم عمران خان نے تحریک عدم اعتماد پر ہونے والی ووٹنگ کے حوالے سے اپنی حکمت عملی تبدیل کرلی ہے۔
وزیراعظم عمران خان اور پی ٹی آئی کے ارکان بھی قومی اسمبلی کے اس اجلاس میں شرکت کریں گے۔
ذرائع کا کہنا ہےکہ وزیراعظم عدم اعتمادکا ووٹ جیتنےکے لیے پر عزم ہیں، پی ٹی آئی ارکان آج اسمبلی اجلاس میں شرکت کریں گے۔
اس سے قبل وزیراعظم عمران خان نے بطور پارٹی چیئرمین پاکستان تحریک انصاف تمام اراکین قومی اسمبلی کو خط لکھ کر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے دوران اسمبلی نہ جانے کی ہدایت کی تھی تاہم اب تمام ارکان اسمبلی شرکت کریں گے۔
وزیراعظم نے اب تک ہار نہیں مانی ہے اور انہیں پورا یقین ہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد میں وہ سرخرو ہوکر نکلیں گے۔
وزیراعظم کا کہنا ہے کہ میں کبھی ہارنے کا نہیں سوچتا، سارا وقت پلان کرتا ہوں کیسے جیتنا ہے، اچھا کپتان کبھی ہارنے کا نہیں سوچتا، آج کی میری ساری حکمت عملی تیار ہے ۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ بہت کم لوگوں کو میری حکمت عملی پتہ ہے، بات باہر نکل جاتی ہے۔
اپوزیشن کی حکمت عملی
متحدہ اپوزیشن کا اجلاس صبح 10 بجے پارلیمنٹ ہاؤس میں طلب کرلیا گیا ہے۔اجلاس کی صدارت اپوزیشن لیڈر
شہبازشریف کریں گے۔
سابق صدر آصف زرادری، بلاول بھٹو، مولانا اسعد محمود شریک ہوں گے۔ اجلاس میں اخترمینگل،خالد مگسی،خالد مقبول، شاہ زین بگٹی بھی شریک ہوں گے۔ اجلاس میں متحدہ اپوزیشن کے تمام پارلیمانی ممبران بھی شریک ہوں گے۔
اجلاس میں قومی اسمبلی اجلاس کی حکمت عملی طےکی جائےگی، قومی اسمبلی اجلاس سےقبل اپوزیشن کے ممبران کی تعداد مکمل کی جائے گی، اجلاس میں آئندہ کی حکمت عملی، نئےوزیراعظم کےانتخاب پربھی مشاورت ہوگی۔
ہنگامہ آرائی کا خطرہ
جیو نیوز کے سینیئر اینکر پرسن حامد میر کے مطابق فیصلہ کیا گیا ہے کہ اپوزیشن ارکان کو پہلے پارلیمنٹ لاجز میں ہی روکا جائے گا تاکہ وہ قومی اسمبلی نہ پہنچ سکیں، جو ارکانِ قومی اسمبلی پہنچنے میں کامیاب ہوجائیں گے انہیں زد و کوب کیے جانے کا خدشہ ہے۔
حامد میر کے مطابق منصوبہ یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کے احتجاج کرنے والوں کو ڈی چوک سے آگے رسائی دے دی جائے۔ معلوم ہوا ہے کہ آج ووٹنگ کے عمل میں تاخیر کی تجویز کی اسپیکر نے مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ آج آخری دن ہے ، ووٹنگ کو مؤخر نہیں کرسکتے۔
سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے حکومت کو بتایا ہے کہ اس بات کے کوئی شواہد موجود نہیں ہیں کہ عدم اعتماد کی تحریک
کوئی بین الاقوامی سازش ہے، اگر حکومت کے پاس اس بارے میں شواہد ہیں تو مہربانی کر کے فراہم کر دے۔
ووٹنگ کا طریقہ
تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کا طریقہ یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں موجود وہ ارکان جو چاہتے ہیں کہ وزیراعظم کو عہدے سے ہٹا دیا جائے وہ اپنی نشستوں سے اٹھ کر ایک طرف ہوجاتے ہیں اور ان کی تعداد کو گِن لیا جاتا ہے۔
اسی طرح وہ ارکان اسمبلی جو چاہتے ہیں کہ وزیراعظم عہدے پر برقرار رہیں ان کے پاس یہ چوائس ہوتی ہے کہ وہ اپنی نشستوں پر براجمان رہیں۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ اگر حکومت کا کوئی رکن اٹھ کر اپوزیشن کی جانب چلا جائے تو اس کی نشاندہی بھی ہوجائے۔ایسے رکن اسمبلی پر فلور کراسنگ کی کارروائی بھی کی جاسکتی ہے اور بات نا اہلی تک جاسکتی ہے۔
تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے جادوئی نمبر ’172‘ ہے جو کہ موجودہ ایوان کی کل تعداد کی سادہ اکثریت ہے۔ چونکہ تحریک عدم اعتماد اپوزیشن نے جمع کرائی ہے لہٰذا یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ رائے شماری والے دن وزیراعظم کیخلاف 172 ارکان کو پیش کریں۔
اگر اپوزیشن 172 ارکان کی حمایت پیش کرنے میں ناکام رہی تو وزیر اعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوجائے گی اور وہ عہدے پر براجمان رہیں گے۔
تاہم اگر اپوزیشن 172 یا اس سے زائد ارکان کو سامنے لے آئی تو وزیراعظم کو عہدہ چھوڑنا پڑے گا ساتھ ہی ان کی پوری کابینہ بھی تحلیل ہوجائے گی۔