سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل باسٹھ ون ایف کے تحت اراکینِ پارلیمنٹ کی تاحیات نااہلی ختم کر دی ہے۔ سپریم کورٹ نے اس حوالے سے 2018 میں سنایا گیا اپنا ہی فیصلہ واپس لے لیا ہے۔
سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں اس کیس کی سماعت کی تھی جس میں چھ، ایک کے تناسب سے فیصلہ آیا ہے۔
سپریم کورٹ کے سات رکنی لارجر بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔ جسٹس یحیٰی آفریدی نے اختلافی نوٹ لکھا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ آئین کا آرٹیکل 62 ون ایف کوئی ازخود لاگو ہونے والی شق نہیں ہے، یہ آرٹیکل نااہلی کے ڈیکلیریشن اور مدت کے تعین کا طریقہ نہیں بتاتا۔ ایسا کوئی قانون بھی نہیں ہے جو 62ون ایف کے تحت نااہلی کے ڈیکلیریشن کی مجاز عدالت کا تعین کرے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایسی تشریح آئین کے آرٹیکل 17 میں درج حقوق کے خلاف ہے۔ جب تک کوئی قانون 62 ون ایف کو قابلِ عمل بنانے نہیں آتا اس کی حیثیت باسٹھ ون ڈی، ای اور جی جیسی ہی ہے۔ لہذا سمیع اللہ بلوچ کیس میں تاحیات نااہلی کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔
تاحیات نااہلی والا فیصلہ جو آئین میں موجود ہی نہیں وہ پڑھنے جیسا تھا، الیکشن ایکٹ کی سیکشن 232 میں ترمیم کو جانچنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
اختلافی نوٹ
اس کیس میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے اکثریتی فیصلے سے متفق نہ ہوتے ہوئے اختلافی نوٹ دیا ہے۔ اپنے نوٹ میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ احترام کے ساتھ، میں اکثریتی فیصلے سے متفق نہیں ہوں۔ سمیع اللہ بلوچ کیس میں اخذ نتیجہ قانونی طور پر درست ہے، آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی نہ تاحیات ہے اور نہ ہی مستقل، لہذا عدالتی ڈیکلیریشن باقی رہنے تک نااہلی رہے گی۔
Facebook API failed to initialize.
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد سابق وزیرِ اعظم نواز شریف اور استحکام پاکستان پارٹی کے جہانگیر ترین کی نااہلی بھی ختم ہو گئی ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ نے نااہلی مدت پانچ سال کر دی ہے، لہذٰا عدالت پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اس اختیار کو اہمیت دیتی ہے۔
واضح رہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے 2018 میں آئین کے آرٹیکل 62-ون ایف کے تحت نااہل ہونے والے اراکینِِ پارلیمنٹ کی نا اہلی کو تاحیات قرار دیا تھا۔ متعدد درخواست گزاروں نے تاحیات نا اہلی کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
واضح رہے کہ پاکستان کے آئین کی شق 62-ون ایف کے تحت نا اہل قرار دیے گئے کسی بھی شخص کے لیے سزا کی مدت کا کوئی تعین نہیں کیا گیا تھا۔ اس لیے اس شق کے تحت بھی کسی شخص کو سزا سنائی گئی تو اس سے تعبیر کیا گیا کہ وہ کسی عوامی عہدے کے لیے تاحیات نا اہل ہے۔
ستمبر 2020 میں وجود میں آنے والے سیاسی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے اپریل 2022 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کا تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے خاتمہ کیا اور شہباز شریف کی قیادت میں حکومت قائم کی تو اس حکومت نے اپنے آخری دنوں میں جون 2023 الیکشن ایکٹ میں ترامیم منظور کیں۔
الیکشن اصلاحات بل 2017 میں ترمیم کی گئی اور الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا بل منظور کیا گیا۔ بل میں آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت الیکشن ایکٹ میں ترمیم تجویز کی گئی۔
الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نا اہلی کی سزا پانچ سال مقرر کی گئی۔
الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 232 میں تبدیلی کے بعد پانچ سال سے زیادہ نا اہلی کی سزا نہیں ہو گی اور متعلقہ شخص قومی یا صوبائی اسمبلی کا رکن بننے کا اہل ہو گا۔
اس بل کی سینیٹ اور قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد کہا جا رہا تھا کہ اس قانون کا سب سے زیادہ فائدہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور استحکام پاکستان پارٹی کے پیٹرن اِن چیف جہانگیر ترین کو ہو گا جن کی تاحیات نا اہلی ختم ہونے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔
نواز شریف اور جہانگیر ترین کو آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت صادق اور امین نہ ہونے کی بنا پر نا اہل کر دیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ نے اس معاملے پر مختلف بار کونسلز اور دیگر درخواست گزاروں کی اپیلیں یکجا کر کے کیس سماعت کے لیے مقرر کیا تھا۔