اسلام آباد: سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل باقاعدہ قانون بن گیا ہے۔
قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے پرنٹنگ کارپوریشن کو گزٹ نوٹیفکیشن کا حکم دے دیا ہے۔
واضح رہےکہ صدر مملکت عارف علوی نے اس بل کو دوسری بار دستخط کے بغیر واپس بھجوا دیا تھا۔
ل منظوری کے تمام مراحل مکمل ہونے کے بعد قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔
قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کا کہنا ہےکہ سپریم کورٹ پریکٹس اور پروسیجر بل اب قانون کی شکل میں نافذ ہوچکا ہے۔
خیال رہےکہ سپریم کورٹ نے اس بل پر عمل درآمد روک دیا تھا۔
13 اپریل کو سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں کہا تھا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف 3 درخواستیں سماعت کیلئے مقرر کی گئیں، ایکٹ بادی النظر میں عدلیہ کی آزادی اور اندرونی معاملات میں مداخلت ہے، اس دوران عبوری حکم نامہ جاری کرنا ضروری ہے۔
حکم نامے کے مطابق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت 2 مئی کو ہوگی، حکم امتناعی کا اجرا نا قابل تلافی خطرے سے بچنے کے لیے ضروری ہے، صدر مملکت ایکٹ پر دستخط کریں یا نہ کریں، دونوں صورتوں میں یہ تا حکم ثانی نافذ العمل نہیں ہو گا۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیا ہے؟
اس بل کو قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کرائے جانے کے بعد دستخط کے لیے صدر کو بھیجا گیا تھا۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے تحت سو موٹو نوٹس لینےکا اختیار اب اعلیٰ عدلیہ کے 3 سینئر ترین ججز کے پاس ہوگا۔
بل کے تحت سپریم کورٹ کے سامنے ہر معاملے اور اپیل کو کمیٹی کا تشکیل کردہ بینچ سنے اور نمٹائےگا جب کہ کمیٹی میں چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز ہوں گے اور کمیٹی کا فیصلہ اکثریت رائے سے ہو گا۔
آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت معاملہ پہلے کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے گا، بنیادی حقوق سے متعلق عوامی اہمیت کے معاملے پر3 یا اس سے زائد ججزکا بینچ بنایا جائے گا، آئین اور قانون سے متعلق کیسز میں بینچ کم از کم 5 ججز پر مشتمل ہو گا جب کہ بینچ کے فیصلے کے 30 دن کے اندر اپیل دائر کی جاسکے، دائر اپیل 14 روز میں سماعت کے لیے مقرر ہوگی، زیر التوا کیسز میں بھی اپیل کا حق ہوگا، فریق اپیل کے لیے اپنی پسند کا وکیل رکھ سکتا ہے۔
اس کے علاوہ ہنگامی یا عبوری ریلیف کے لیے درخواست دینےکے 14 روزکے اندر کیس سماعت کے لیے مقرر ہوگا۔
نئی قانون سازی کے تحت نواز شریف کو از خود نوٹس پر ملی سزا پر اپیل کا حق مل گیا، یوسف رضا گیلانی، جہانگیر ترین اور دیگر فریق بھی فیصلوں کو چیلنج کرسکیں گے۔