پاکستان کی سیاست میں آج کل ہیجان کی کیفیت ہے اور تیزی سے بدلتی صورت حال میں ایک طرف تو اگلے لمحے کا علم نہیں تو دوسری جانب یہ دیکھا جارہا ہے کہ کسی بڑے فیصلے کے نتیجے میں سب کچھ تبدیل ہوسکتا ہے۔
اس سیاسی بے یقینی کی وجہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا جلد عام انتخابات کے لیے حکومت پر دباؤ بڑھانا ہے۔ اس سلسلے میں عمران خان اسلام آباد کی جانب مارچ کا اعلان کیے ہوئے ہیں۔
اتحادی حکومت کے سربراہوں نے رواں ہفتے ہی یہ اعلان کیا تھا کہ موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی تاہم اس کے باوجود حکومتی رہنما ایسے اشارے بھی دیتے نظر آتے ہیں کہ انتخابات کا جلد انعقاد کیا جاسکتا ہے۔
جمعرات کو سرگودھا میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے مہنگائی کے حوالے سے مشکل فیصلے کرنے کا ذکر کرتے ہوئے جلسے کے شرکا سے پوچھا کہ آیا حکومت میں رہنا چاہیے یا چھوڑ دینی چاہیے؟
اسی طرح پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور وفاقی وزیر خورشید شاہ نے بھی کہا کہ اتحادی حکومت الیکشن میں جانےکے لیے تیارہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ خوشی سے اقتدار میں نہیں آئے بلکہ سب نے عمران سے جان چھڑانے کے لیے منت کی تھی جس کے بعد ہم نے آئینی طریقے سے عمران خان کو نکال کر ملکی مسائل کا پورا وزن اپنے اوپر لیا ہے۔
پاکستان کے ذرائع ابلاغ پر یہ تبصرے کیے جارہے ہیں کہ آئندہ چند روز میں اسمبلیاں تحلیل کردی جائیں گی۔
تاہم وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے اسمبلیاں تحلیل کرکے جلد انتخابات کی افواہوں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ عام انتخابات کا اعلان اتحادیوں کے اتفاق رائے سے کیا جائے گا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ عمران خان کے دباؤ کے بعد ملک انتخابات کی طرف بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے تاہم شہباز شریف کے لیے اتحادیوں کے اتفاق رائے کے بغیر یہ فیصلہ آسان نہیں ہوگا۔
تجزیہ نگار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ مخلوط حکومت پر یہ محاورہ درست ثابت ہوتا ہے کہ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی صورت حال اس حد تک پیچیدہ ہے کہ اسے سمجھنا اور تبصرہ کرنا آسان نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے گھر بھجوایا مگر اب نئی حکومت کے قیام کے بعد اسٹیبلشمنٹ پیچھے ہٹ گئی ہے۔
سلیم بخاری کہتے ہیں کہ صورت حال گھمبیر ہے کیونکہ سڑکوں پر اجتماعات اور جلسے جلوس پاکستان کی سیاست پر اثر انداز ہوتے ہیں اور اسی بنا پر حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے بھی عمران خان کے دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لیے جلسوں کا آغاز کردیا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کی حکومت کا خاتمہ کردیا گیا تھا جس کے بعد ان کی جماعت کے اراکین قومی اسمبلی مستعفی ہونے کے ساتھ عوامی اجتماعات کرکے حکومت پر عام انتخابات کے لیے دباؤ بڑھا رہے ہیں۔
سلیم بخاری نے کہا کہ عدلیہ کی جانب سے آنے والے حالیہ فیصلے بھی بظاہر حکومت کے حق میں نہیں اور یہ گھمبیر سے گھمبیر ہوتی صورت حال حکومت اور عمران خان کسی کے حق میں نہیں ہے۔
سلیم بخاری کہتے ہیں کہ ماضی میں ایسی صورت حال کا نتیجہ جمہوریت کے عدم استحکام کی صورت میں سامنے آتا
رہا ہے۔
تجزیہ نگار رضا رومی سمجھتے ہیں کہ سیاسی بے یقینی کی وجہ عمران خان کے جلسوں اور عوامی حمایت کے نتیجے میں اسٹیبلشمنٹ کا دباؤ میں آنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کے عوامی جلسوں کا دباؤ سیاسی جماعتوں سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ نے محسوس کیا ہے اور اسی بنا پر مقتدر قوتیں مشورہ دے رہی ہیں کہ انتخابات کروائے جائیں۔
رضا رومی کہتے ہیں کہ اس صورت حال میں ممکن ہے کہ حکومت اسمبلیاں تحلیل کرکے انتخابات کی طرف چلی جائے لیکن ان کے بقول اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ انتخابات نہیں بلکہ معیشت کا استحکام ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کے اتحادی بھی انتخابات پر تیار دکھائی نہیں دیتے لیکن اس فیصلے میں کلیدی کردار اسٹیبلشمنٹ کا ہی ہوگا۔
خیال رہے کہ پاکستان معاشی مشکلات کا شکار ہے اور نئی حکومت سیاسی صورت حال کے باعث غیر مقبول فیصلے لینے سے اجتناب کررہی ہے۔
عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے باوجود حکومت نے اسے عوام تک منتقل کرنے کے بجائے سبسڈی دے رکھی ہے جس کے سبب اسے ماہانہ سو ارب روپے سے زائد کا خسارہ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔
معاشی ماہرین حکومت پر زور دے رہے ہیں وہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو فوری بڑھائے تاکہ کمزور معاشی صورت حال میں حکومت کا بوجھ کچھ کم ہوسکے
سلیم بخاری کہتے ہیں کہ حکومت اگر انتخابات میں بھی جاتی ہے تو اسے خود کو عوام کے لیے قابل قبول بنانا اتنا آسان نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو پیٹرول کی مصنوعات کی قیمتوں سمیت سخت فیصلے لینا ہوں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر حکومت کو آئی ایم ایف سے مالی مدد مل جاتی ہے اور وہ انتظامی صورتِ حال میں بہتری لا کر مہنگائی پر کسی حد تک قابو پالیتی ہے تو پھر اسے اپنی مدت مکمل کرنے سے روکا نہیں جاسکتا۔
رضا رومی کا کہنا ہے کہ آصف علی زرداری تحریک عدم اعتماد کے روح رواں ہیں اور ان کی کوشش ہوگی کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کو بات چیت کے ذریعے حکومت کی مدت مکمل کرنے پر قائل کرسکیں۔
وہ کہتے ہیں کہ انہیں انتخابات کا فوری انعقاد اس وجہ سے بھی ہوتا دکھائی نہیں دیتا کیونکہ ملک کی معاشی صورت حال اس کی اجازت نہیں دیتی۔