پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے 25 مئی کو اسلام آباد میں لانگ مارچ سے قبل ملک بھر میں پولیس کے کریک ڈاؤن میں درجنوں پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاری کی اطلاعات ہیں۔
ادھر پنجاب اور سندھ کی حکومتوں نے صوبوں میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے دفعہ 144 نافذ کر دی ہے۔
تحریکِ انصاف کے مطابق لاہور، کراچی، اسلام آباد، پشاور، ملتان، راولپنڈی سمیت ملک کے مختلف شہروں میں تحریکِ انصاف کا لانگ مارچ روکنے کے لیے پولیس نے کارروائیاں کی ہیں۔
تحریکِ انصاف نے الزام عائد کیا ہے کہ پولیس اہلکار وں نے چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے پیر اور منگل کی درمیانی شب کارروائیاں کیں اور کئی کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔
پی ٹی آئی کے کارکنوں کے گھروں پر چھاپوں کے دوران گزشتہ رات لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں پولیس کانسٹیبل پر فائرنگ کے الزام میں باپ بیٹے کو گرفتار کر لیا ہے۔
واقعے کی ایف آئی آر کے مطابق پولیس اہلکار نے کرایہ داری ایکٹ کے تحت گھر کے سرچ آپریشن کی اجازت طلب کی، لیکن کانسٹیبل پر فائرنگ کر دی گئی۔
لاہور میں وائس آف امریکہ کے نمائندے ضیا الرحمٰن کے مطابق شہر کے داخلی راستوں شاہدرہ، سگیاں اور فیروزپور روڈ پر کنٹینر اور رکاوٹیں کھڑی کر کے راستہ بند کر دیا گیا ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق جی ٹی روڈ پر مرید کے، کامونگی اور گوجرانوالہ تک مختلف جگہوں پر رکاوٹیں پہنچا دی گئیں ہیں۔
شاہدرہ میں دریائے راوی کے پل پر کنٹینر لگانے سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے اور لوگ پیدل راوی کا پل کراس کرنے پر مجبور ہیں۔
Ravi bridge Lahore#Lahore #AzadiMarch # pic.twitter.com/ROXGgunc6X— Toseef ur Rehman (@RehmanToseef) May 24, 2022
دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کی زیر صدارت صوبے میں امن وامان کی صورتِ حال پر اجلاس ہوا ہے جس میں امن و امان کی صورتِ حال کا جائزہ لیا گیا۔
رات گئے پولیس نے پنجاب میں 1100 سے زیادہ گھروں پر چھاپے مارے، 400 سے زائد تحریک انصاف کے کارکنان کو پولیس نے حراست میں لے لیاان میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیںایک مجرم جو قتلوں میں ملوث ہے، منشیات فروش ہے اس کو پاکستان کے امن و امان کا انچارج بنا دیا گیا#حقیقی_آزادی_مارچ pic.twitter.com/NlKbWhzwh0— Fawad Chaudhry (Updates) (@FawadPTIUpdates) May 24, 2022
گرفتاریوں پر ردِعمل دیتے ہوئے سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) جب بھی اقتدار میں آتی ہے تو فسطائیت پر اتر آتی ہے، وہ اپنی جماعت کے کارکنوں اور رہنماؤں کے خلاف پولیس چھاپوں سے واقف ہیں۔
عمران خان نے لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں پیر کی شب تحریکِ انصاف کے رہنماؤں کے گھروں پر مبینہ پولیس چھاپوں کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ خبردار کرنا چاہتے ہیں کہ غیر جمہوری اور سفاکانہ اقدامات ملک کی معاشی صورتِ حال میں مزید ابتری کا مؤجب بنیں گے اور ملک کو انتشار کی جانب دھکیلیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پرامن احتجاج ہمارےشہریوں کاحق ہے، پنجاب میں تحریکِ انصاف کے رہنماؤں کے خلاف چھاپوں نے ایک مرتبہ پھرہمیں وہی کچھ دکھایاہےجس سےہم واقف ہیں۔
عمران خان کے بقول، “یہ کریک ڈاؤن کٹھ پتلیوں کی ڈوریاں تھامنے والوں پربھی سنجیدہ سوالات اٹھا رہاہے۔”
یاد رہے کہ تحریکِ انصاف کے رہنماؤں کے اہلِ خانہ اور ہمدردوں کی کئی ایسی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہیں جن میں وہ مبینہ پولیس چھاپوں کا ذکر کر رہے ہیں جب کہ بعض ویڈیوز میں پولیس اہلکاروں کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
پرامن احتجاج ہمارےشہریوں کاحق ہے۔ پنجاب+ اسلام آباد میںPTI کارکنان+رہنماؤں کیخلاف ظالمانہ چھاپوں نے ایک مرتبہ پھرہمیں وہی کچھ دکھایاہےجس سےہم واقف ہیں کہ جب بھی اقتدار ہاتھ لگتاہے نون لیگ فسطائیت پراترتی ہے۔یہ کریک ڈاؤن(کٹھ پتلیوں کی) ڈوریاں تھامنے والوں پربھی سنجیدہ— Imran Khan (@ImranKhanPTI) May 23, 2022
پولیس چھاپوں کی ویڈیوز ایسے موقع پر سامنے آئی ہیں جب تحریکِ انصاف 25 مئی کو اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کی تیاریوں میں مصروف ہے۔
ہائی کورٹ کی سابق جج اور مفکرِ پاکستان علامہ اقبال کی بہو جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ اقبال نے بھی ایک ویڈیو میں پولیس چھاپے کا الزام عائد کیا ہے۔
رات کے 2 بجے علامہ اقبال کی بہو اور ہائی کورٹ کی سابقہ جج جسٹس ناصرہ اقبال کے گھر کے گیٹ توڑ کر پولیس کا دھاوہ pic.twitter.com/v4tIbvv1r4— Siasat.pk (@siasatpk) May 24, 2022
پاکستان تحریکِ انصاف پنجاب کے رہنما سینیٹر اعجاز چوہدری کے مطابق لاہور، ملتان، ساہیوال، پاکپتن راولپنڈی، سیالکوٹ، بہاولپور، اوکاڑہ، قصور، جہلم، فیصل آباد اور منڈی بہاوالدین سمیت دیگر شہروں میں پولیس نے تحریک انصاف کے درجنوں کارکنوں کو حراست میں لے لیا ہے۔
وائس آف امریکہ نے اِس سلسلے میں ڈی آئی جی آپریشنز لاہور سہیل چوہدری سے رابطہ کیا تو اُنہوں نے لانگ مارچ سے متعلق بات کرنے سے انکار کر دیا۔
کن کن رہنماؤں کے گھر چھاپے مارے گئے؟
پولیس نے گارڈن ٹاؤن لاہور میں پی ٹی آئی رہنما حماد اظہر کے گھر پر بھی چھاپہ مارا، اس وقت وہاں یاسمین راشد سمیت دیگر پارٹی رہنما بھی موجود تھے۔ یاسمین راشد نے پولیس کی کارروائی کے خلاف حماد اظہر کے گھر کے صحن میں ہی دھرنا بھی دیا۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق کراچی میں پولیس نے تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی ارسلان تاج، بلال غفار، سعید آفریدی اور شاہ نواز جدون کے گھروں پر چھاپے مارے جب کہ سہراب گوٹھ کے علاقے سے رکنِ قومی اسمبلی سیف الرحمان محسود کو بھی حراست میں لے لیا۔
کراچی میں وائس آف امریکہ کے نمائندے محمد ثاقب کے مطابق تحریک انصاف سندھ نے 25 مئی کو کراچی کے علاقے نمائش چورنگی سمیت صوبے کے نو مختلف شہروں میں احتجاج کا پروگرام ترتیب دیا ہے۔ جن میں سکھر، حیدرآباد، لاڑکانہ، نواب شاہ، میرپورخاص، عمر کوٹ، شکار پور، اور جیکب آباد شامل ہیں۔ صوبائی قیادت کے بعض اراکین اسلام آباد جانے کی بھی تیاری کررہے ہیں۔
سابق وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری اور سابق وزیرِ داخلہ شیخ رشید کی رہائش گاہوں پر بھی پولیس چھاپوں کی اطلاعات ہیں۔
پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ صرف لاہور سے اب تک 73 کارکنان کو حراست میں لے لیا جا چکاہے۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے سربراہ اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے تحریکِ انصاف کے لانگ مارچ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ “عوام کو ان فتنہ پرور شرپسند جتھوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا جو پہلے ہی ان پر غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کے پہاڑ گرا چکے ہیں۔”
ان کے بقول تخریب کاروں کا قلع قمع کیے بغیر پاکستان اپنی حقیقی منزل نہیں پا سکتا۔ ہمیں بحیثیت قوم ان شرپسندوں کا راستہ روکنا ہو گا۔
عوام کو ان فتنہ پرور شرپسند جتھوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا جو پہلے ہی ان پر غربت، مہنگائی اور بیروزگاری کے پہاڑ گرا چکے ہیں۔ ایسے تخریب کاروں کا قلع قمع کئے بغیر پاکستان اپنی حقیقی منزل نہیں پا سکتا۔ ہمیں بحثیت قوم ان شرپسندوں کا راستہ روکنا ہو گا۔— Nawaz Sharif (@NawazSharifMNS) May 23, 2022
ادھر وزیرِ اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت مسلم لیگ (ن) کا اجلاس آج ہو گا جس میں ملک کی موجودہ سیاسی صورتِ حال پر ارکان کو اعتماد میں لیا جائے گا۔
اجلاس کے دوران تحریکِ انصاف کے لانگ مارچ پر بھی بات چیت ہو گی۔
وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کہتے ہیں کہ خونی مارچ ہو گا کے اعلانات کرنے والوں سے حساب لیں گے۔ پولیس پر فائرنگ سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ یہ سیاسی سرگرمی نہیں۔ فائرنگ ثبوت ہے کہ یہ پرامن مارچ چاہتے ہی نہیں تھے۔