پاکستان میں مقیم غیر قانونی تارکینِ وطن کو یکم نومبر تک ملک چھوڑنے کی مہلت

پاکستان میں مقیم غیر قانونی تارکینِ وطن کو یکم نومبر تک ملک چھوڑنے کی مہلت

پاکستان کی حکومت نے ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم تارکینِ وطن کو یکم نومبر تک ملک چھوڑنے کی مہلت دے دی ہے۔

یہ اعلان نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ کی زیرِ صدارت منگل کو اپیکس کمیٹی کے اجلاس کے دوران کیا گیا۔ اجلاس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر سمیت اعلٰی حکام نے شرکت کی۔

اجلاس کے بعد نیوز کانفرنس کرتے ہوئے نگراں وزیرِ داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا کہ پاکستان میں مقیم تمام غیرقانونی تارکینِ وطن یکم نومبر تک اپنے وطن واپس چلے جائیں، یکم نومبر کے بعد قانون نافذ کرنے والے ادارے ان افراد کو ڈی پورٹ کریں گے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اسمگلنگ، منشیات کے کاروبار، حوالہ ہنڈی اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری رہے گا، کسی سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔

نگراں وزیرِ داخلہ کا مزید کہنا تھا کہ کوئی دو رائے نہیں کہ افغانستان سے پاکستان پر حملے ہوتے ہیں۔ اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ جنوری سے اب تک پاکستان میں 24 خود کش حملے ہو چکے ہیں جن میں سے 14 افغان شہریوں نے کیے۔

نگراں وزیرِ داخلہ کے بقول پاکستان سے افغانستان آنے والے تمام شہریوں کے لیے بھی دیگر ممالک کے شہریوں کی طرح ہی پالیسی اپنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

سرفراز بگٹی کے بقول پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔

وائس آف امریکہ کے ایاز گل کی رپورٹ کے مطابق اس سے قبل افغانستان سے آنے والے افراد کو خصوصی سفری اجازت نامے دیے جاتے تھے اور یہ روایت دہائیوں سے چلی آ رہی تھی۔ لیکن اب اس کی جگہ تاریخی ‘ون ڈاکیومنٹ رجیم’ پالیسی لے لے گی۔

تمام افغان سرحدی گزرگاہوں پر امیگریشن حکام کو بھیجے گئے اور وی او اے کی طرف سے دیکھے گئے ایک سرکاری وفاقی ہدایت نامے کے مطابق پاسپورٹ صرف واحد سفری دستاویز ہو گی اور اس کا اطلاق یکم نومبر 2023 سے ہونے جا رہا ہے۔

دستاویز میں کہا گیا ہے کہ افغانستان سے پاکستان آنے کے لیے کوئی اور دستاویز قبول نہیں کی جائے گی۔

اس کے علاوہ متعلقہ حکام کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ضروری انتظامات کریں اور سرحد پر تمام کراسنگ پوائنٹس پر نمایاں انداز میں اس فیصلے کی تشہیر کی جائے۔

ایک سینئر پاکستانی عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اسلام آباد کو امید ہے کہ افغانستان کے طالبان حکام عسکریت پسندوں اور اسمگلروں سمیت غیر قانونی سرحد کراس کرنے والوں کو روکنے میں مدد کرنے کے لیے ‘ون ڈاکیومنٹ رجیم’ فیصلے کو نافذ کرنے میں تعاون کریں گے۔

پاکستانی عہدے دار نے کہا کہ “چوں کہ طالبان ملک میں حالات معمول پر لائے ہیں اور اچھی حکمرانی کی ہے، اس لیے وہ بین الاقوامی اصولوں پر عمل کریں گے جس میں ‘ویزہ رجیم’ سمیت دو طرفہ تعلقات کو چلانا بھی شامل ہے۔”

طالبان کی جانب سے اس نئی سفری پالیسی پر فوری طور پر کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔