پاکستان نے ایران میں جمعرات کو دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملوں کا دعویٰ کیا ہے جب کہ سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ ایران میں جن ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے وہ کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے زیرِ استعمال تھے۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ نے کہا ہے کہ جمعرات کی صبح ایران کے سرحدی صوبے سیستان بلوچستان میں دہشت گردوں کی مخصوص پناہ گاہوں کو نشانہ بنایا ہے۔
پاکستان نے اس کارروائی کو ’آپریشن مرگ بر سرمچار‘ کا نام دیا ہے جس کے نتیجے میں دفتر خارجہ کے مطابق متعدد دہشت گرد مارے گئے ہیں۔
ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے اسلام آباد میں میڈیا بریفنگ کے دوران کہا کہ پاکستان ایران کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتا ہے۔ لیکن آج کے حملے کا مقصد پاکستان کی اپنی سیکیورٹی اور قومی مفاد تھا جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔
ترجمان کے مطابق نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ اپنا دورۂ ڈیووس مختصر کر کے جمعرات کو ہی وطن واپس پہنچ رہے ہیں۔ وہ ورلڈ اکنامک فورم میں شرکت کے لیے سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں موجود ہیں۔
پاکستان فوج کے تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق ایران میں بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ٹھکانوں کو کامیابی سے نشانہ بنایا ہے اور تباہ ہونے والے ٹھکانے دہشت گرد دوستا عرف چیئرمین، بجار عرف سوغات، ساحل عرف شفق، اصغر عرف بشام، وزیر عرف وزی سمیت دیگر شامل ہیں۔
بیان کے مطابق ایران میں جن دہشت گردوں کو نشانہ بنایا وہ پاکستان میں حالیہ حملوں میں ملوث تھے جب کہ حملے کے لیے ڈرونز اور راکٹوں کا استعمال کیا گیا ہے۔
پاکستان نے ایران کے جس علاقے میں کارروائی کی، وہ بین الاقوامی سرحد سے لگ بھگ 50 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔
دوسری جانب ایران کے سرکاری ٹی وی نے رپورٹ کیا ہے کہ پاکستان کے میزائل حملے میں کم از کم تین خواتین اور چار بچے ہلاک ہوئے ہیں۔
ایرانی سرکاری میڈیا کے مطابق سیستان بلوچستان صوبے کے نائب گورنر علی رضا مرہماتی کا کہنا ہے کہ پاکستان نے سراوان شہر کے ایک گاؤں میں میزائل حملے کیے اور ان حملوں میں مارے جانے والے غیر ملکی ہیں۔
ایرانی خبر ایجنسی ‘مہر’ نے رپورٹ کیا ہے کہ علاقے میں ڈرون اور میزائل حملوں میں متعدد افراد زخمی ہوئے ہیں۔
ایرانی نیوز ایجنسی ‘تسنیم’ کے مطابق ایرانی وزارتِ خارجہ نے پاکستان کے ایلچی کو ‘وضاحت’ کے لیے طلب کر لیا ہے۔
پاکستان یہ دعویٰ کرتا رہا ہے کہ کالعدم علیحدگی پسند تنظیموں کے عسکریت پسندوں نے ایران کے سرحدی علاقوں میں پناہ لے رکھی ہے۔
پاکستان کے حملے سے متعلق ایران میں سوشل میڈیا پر متعدد تصاویر اور ویڈیوز بھی زیرِ گردش ہیں۔
پاکستان کی فوج نے ایران میں ایسے موقع پر کارروائی کی ہے جب ایران نے ایک روز قبل ہی پاکستانی صوبے بلوچستان کے علاقے پنجگور میں میزائل اور ڈرون حملے کیے تھے۔
ان حملوں کے حوالے سے تہران کا دعویٰ تھا کہ اس نے میزائل اور ڈرون حملوں میں ایران میں دہشت گردی میں ملوث ایک تنظیم ’جیش العدل‘ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تھا۔
پاکستان نے پنجگور میں ایرانی حملے میں دو بچوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا۔
اسلام آباد نے ایرانی حملوں کے بعد تہران سے اپنے سفیر کو بطور احتجاج واپس بلا لیا تھا جب کہ تہران میں موجود پاکستان کے لیے ایران کے سفیر کو اسلام آباد نہ آنے کی ہدایت کی تھی۔
چین کی جانب سے ثالثی کی پیش کش
چین نے پاکستان اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی کے خاتمے کے لیے ثالثی کی پیش کش کی ہے۔
چینی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ماؤ ننگ نے جمعرات کو پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ “چین امید کرتا ہے کہ دونوں فریق پُرسکون اور تحمل کا مظاہرہ کریں گے اور کشیدگی میں اضافے سے گریز کریں گے۔
ترجمان نے کہا کہ اگر فریقین چاہیں تو چین صورتِ حال بہتر کرنے میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کے لیے بھی تیار ہے۔
‘کارروائی مصدقہ معلومات کی روشنی میں کی’
جمعرات کی کارروائی کے بعد ترجمان دفترِِ خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان گزشتہ کئی برس سے ایران کے ساتھ ہونے والی بات چیت کے دوران سرحد پار موجود دہشت گردوں کی پناہ گاہوں پر تحفظات کا اظہار کرتا رہا ہے۔
ان کے بقول اسلام آباد نے تہران کے ساتھ دہشت گردوں کی موجودگی اور ان کی سرگرمیوں کے شواہد بھی پیش کیے ہیں۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ ایران نے پاکستان کے تحفظات پر کسی قسم کا ایکشن نہیں لیا جس کی وجہ سے دہشت گردوں کی جانب سے معصوم پاکستانیوں کے خون بہانے کا سلسلہ جاری تھا۔ ایران میں موجود دہشت گردوں کے خلاف کی جانے والی کارروائی مصدقہ خفیہ معلومات کی روشنی میں کی ہے۔
دفترِ خارجہ کے مطابق تارہ ترین کارروائی پاکستان کی قومی سلامتی کو لاحق خطرات اور تحفظ کا مظہر ہے۔
دفترِ خارجہ کا کہنا تھا کہ اس انتہائی پیچیدہ آپریشن کا کامیاب انعقاد پاکستان کی مسلح افواج کی پیشہ ورانہ مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان کی جوابی کارروائی سے قبل ایران نے رواں ہفتے پہلے عراق اور شام میں بیلسٹک میزائلوں سے حملے کیے تھے جس کے بعد تہران نے پاکستان کے اندر بھی کارروائی کی تھی۔
تہران نے دعویٰ کیا تھا کہ عراق کے علاقے کردستان کے شہر اربیل میں حملے میں اسرائیل کے لیے جاسوسی کرنے والے مرکز کو تباہ کیا گیا جب کہ شام میں میزائل حملے میں داعش کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔
دوسری جانب عراق کی حکومت کا کہنا تھا کہ اربیل میں ایران کے میزائل حملے میں ایک تاجر کے گھر کو نشانہ بنایا گیا۔ میزائل حملے میں کردستان کے امیر ترین کرد تاجر پیشرو مجید آقا دیزائی اور ان کے خاندان کے بعض افراد کی موت ہوئی تھی۔
عراق نے اس حملے کے بعد بطور احتجاج ایران سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔
امریکہ نے عراق اور پاکستان میں ایران کے حملوں کو بلا جواز اور غیر ذمہ دارانہ اقدام قرار دیا تھا۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نے پاکستان کی حدود میں ایران کی فضائی کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم ایران کے اس غیر ذمہ دارانہ حملے کی مذمت کرتے ہیں اور بے گناہ جانوں کے نقصان پر پاکستان کےدکھ میں شامل ہیں۔
بی ایل اے کیا ہے؟
پاکستان کے رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں کئی دہائیوں سے علیحدگی پسند تنظیمیں متحرک ہیں جن میں سے ایک بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے ) بھی ہے۔
بی ایل اے کو پاکستان سمیت امریکہ، چین اور یورپی یونین بھی دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔
بی ایل اے نے پاکستان کے سیکیورٹی اداروں، مختلف سرکاری تنصیبات اور چین کے پاکستان میں شہریوں اور املاک پر حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
پاکستان کی فوج بی ایل اے سمیت ان علیحدگی پسند گروپس کو دہشت گرد قرار دیتی ہے اور ان کے خلاف کارروائیاں جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کرتی رہی ہے۔
بلوچستان میں گوادر سمیت کئی مقامات پر چینی کمپنیاں معدنیات سمیت مختلف شعبوں میں کام کر رہی ہیں اور ان پر حملے کیے جاتے رہے ہیں۔
علیحدگی پسند گروپ ان چینی شہریوں، کمپنیوں اور پاکستان کی حکومت پر بلوچستان کے مقامی لوگوں کے حقوق غصب کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں جس کی چین اور پاکستان نے ہمیشہ تردید کی ہے۔