پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف متحدہ عرب امارات میں شدید بیمار ہیں جنہیں وطن واپس لانے کے لیے تیاریاں کی جا رہی ہیں۔اعلیٰ سرکاری ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے حکام پرویز مشرف کو ملک میں آنے کی اجازت کے لیے انتظامات کر رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق ایک ایئرایمبولینس پرویز مشرف کو ان کے اہل خانہ اور ڈاکٹرز کی رضامندی سے دبئی کے اسپتال سے پاکستان لائے گی۔ البتہ 79 سالہ پرویز مشرف کس تاریخ کو پاکستان پہنچیں گے اس بارے میں ابھی کچھ نہیں بتایا گیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ فوج اپنے سابق سربراہ کی وطن واپسی میں سہولت کاری کر رہی ہے اور وہ ان کے “وطن واپس لانے کے عمل کے پیچھے کھڑی ہے۔”
سابق صدر کے اہل خانہ نے 10 جون کو ایک ٹویٹ میں بتایا تھا کہ پرویز مشرف اپنی بیماری (ایمپلائڈوسس) میں پیچیدگی کی وجہ سے گزشتہ تین ہفتوں سے اسپتال میں زیر علاج ہیں اور وہ مشکل مرحلے سے گزر رہے ہیں جہاں صحت یابی ناممکن ہےاور اعضا خراب ہو رہے ہیں۔
‘امیلائڈوسس’ ایک دائمی میٹابولک بیماری ہے جس میں غیرمعمولی پروٹینز بنتے ہیں اور وہ انسانی جسم کے اعضاء جیسے دل، گردے اور جگر کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
Message from Family:He is not on the ventilator. Has been hospitalized for the last 3 weeks due to a complication of his ailment (Amyloidosis). Going through a difficult stage where recovery is not possible and organs are malfunctioning. Pray for ease in his daily living. pic.twitter.com/xuFIdhFOnc— Pervez Musharraf (@P_Musharraf) June 10, 2022
پرویز مشرف کے اہل خانہ نے ان کی زندگی میں آسانی کے لیے دعا کی اپیل کرتے ہوئے وینٹی لیٹر پر موجود ہونے کی میڈیا رپورٹس کی تردید کی۔
پرویز مشرف کے اہل خانہ کے بیان کے بعد پاکستان کے وزیر دفاع اور سابق صدر کے شدید ناقد خواجہ آصف نے کہا کہ خرابئ صحت کے پیشِ نظر پرویز مشرف کو وطن واپسی میں’کسی رکاوٹ’ کا سامنا نہیں کرنا چاہیے۔
خواجہ آصف نے ٹویٹ کیا کہ ماضی کے واقعات کو ان کی واپسی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دینا چاہیے۔ اللہ انہیں صحت دے تاکہ وہ اپنی باقی کی زندگی وقار کے ساتھ گزار سکیں۔
خیال رہے کہ سابق صدر پرویز مشرف 2016 سے متحدہ عرب امارات میں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے خلاف سنگین غداری کا ایک کیس زیرِ سماعت تھا اور انہیں علاج کے لیے ضمانت پر بیرونِ ملک جانے کی اجازت دی گئی تھی۔
سابق صدر پر سال 2007 میں ملک کا آئین معطل کرنے اور ایمرجنسی لگانے پر غداری کے الزامات لگائے گئے تھے۔ جس پر ان کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ چلایا گیا۔
پاکستان کی ایک خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو 2019 میں سنگین غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے موت کی سزا سنائی تھی لیکن 2020 میں لاہور ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کی سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف قانونی کارروائی کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔
سابق آرمی چیف اکتوبر 1999 میں فوجی بغاوت کرتے ہوئے اس وقت کے منتخب وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔
پرویز مشرف نے بعد ازاں خود کو ملک کا صدر قرار دیا تھا اور پاکستان پر سال 2008 تک حکمرانی کی تھی۔ بعد ازاں اسی سال کے عام انتخابات میں ان کے سیاسی اتحادیوں کی شکست نے انہیں عہدہ چھوڑنے پر مجبور کیا تاکہ نئی پارلیمنٹ کی جانب سے مواخذے سے بچا جا سکے۔بعدازاں وہ برطانیہ میں خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزارنے لگے تھے۔