نئے بجٹ میں تنخواہوں میں بڑا اضافہ، کوئی نیا ٹیکس نہیں لگا

نئے بجٹ میں تنخواہوں میں بڑا اضافہ، کوئی نیا ٹیکس نہیں لگا

پاکستان کی اتحادی حکومت نے اپنا دوسرا اور آخری بجٹ پیش کیا ہے جس میں حکومتی رہنماؤں کے مطابق عوام کو ریلیف دیا گیا ہے۔

پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار اپنی بجٹ تقریر کی تمہید میں کہا کہ مسلم لیگ ن کی اتحادی حکومت نے اپنی سیاسی ساکھ کی قربانی دے کر ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا ہے۔

انہوں نے ایوان میں بجٹ پیش کرتے ہوئے بدترین معاشی اعداد وشمار کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس کی ذمہ داری سابقہ دور پر عائد ہوتی ہے۔

ایوان میں پیش کیے جانے والے مالی سال 2024-2023 کے لیے بجٹ کا مجموعی حجم 14 ہزار 460 ارب روپے ہے، جس میں دفاع کے لیے 1804 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

تنخواہوں میں اضافہ بجٹ اجلاس میں تاخیر کی وجہ!

قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے لیے سہ پہر چار بجے کا وقت تھا تاہم اجلاس شروع ہونے میں تقریبا دو گھنٹے کی تاخیر ہوئی جس کی وجہ وفاقی کابینہ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کا معاملہ تھا۔

اطلاعات کے مطابق وزارت خزانہ نے تنخواہوں میں 20 یا 25 فیصد اضافے کی دو الگ الگ سمریاں پیش کیں لیکن پیپلز پارٹی اور دیگر اتحادی جماعتوں کا اصرار تھا کہ تنخواہوں میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ کیا جانا چاہئے۔

کابینہ اجلاس میں شریک وفاقی وزراء نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وزیر خزانہ کا موقف تھا کہ اگر تجویز کردہ دو سمریوں کے علاوہ تنخواہ میں اضافہ کیا جاتا ہے تو بجٹ کے خدوخال تبدیل کرنا ہوں گے۔

تاہم اتحادی جماعتوں کے اصرار اور بحث مباحثے میں طوالت کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے فیصلہ کیا کہ گریڈ 1 سے 16 کے ملازمین کی تنخواہوں میں 35 فیصد جب کہ گریڈ 17 سے 22 کے افسران کے لیے 30 فیصد اضافے کا فیصلہ کیا گیا۔ اسی طرح پینشن میں بھی 17 فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔

کابینہ اجلاس کے بعد وفاقی وزراء تنخواہوں میں اضافے کے فیصلے کو اہمیت بیان کرتے رہے اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی اپنی تقریر میں اس پہلو پر زور دے کر اضافے کا اعلان کیا۔

حکومت نے نئے مالی سال کے لیے 14 ہزار 6 ارب روپے مالیت کا بجٹ پارلیمنٹ میں پیش کیا ہے جس کی جس میں 6 ہزار ارب خسارہ ہے۔

اجلاس میں وفاقی کابینہ نے 1150 ارب روپے کے وفاقی ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی) کی منظوری دے دی جس

میں انفرا اسٹرکچر کے لیے 491.3 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

آئی ٹی اور خدمات کے شعبے کو ترقی دینے پر زور!

آئی ٹی کے شعبے کو درمیانے درجے کی صنعت کا درجہ دیتے ہوئے وفاق کی سطح پر آئی ٹی سروسز پر سیلز ٹیکس کی موجودہ شرح کو 15 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کی جا رہی ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بتایا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کے لیے 50 ہزار آئی ٹی گریجویٹس کو پروفیشنل ٹریننگ دی جائے گی۔ اس کے علاوہ کاروباری ماحول میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے 24 ہزار ڈالر تک سالانہ کی درآمدات پر فری لانسرز کو سیلز ٹیکس رجسٹریشن اور گوشواروں سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔

دفاعی بجٹ میں اضافہ!

حکومت نے دفاع کا بجٹ میں اضافہ کرتے ہوئے 1804 ارب روپے مختص کیا ہے جو کہ گزشتہ مالی سال میں 1510 ارب روپے رکھا گیا تھا۔ تاہم روپے کی قدر میں بہت زیادہ کمی کو دیکھتے ہوئے دفاعی بجٹ میں اس اضافے کو معمول سے کم اضافہ گردانا جا رہا ہے۔

دفاعی بجٹ تینوں مسلح افواج کے علاوہ وزارت دفاع، دفاعی پیداوار، ذیلی اداروں کے لیے مختص کیا گیا ہے۔

ملک کے معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے رواں مالی سال میں حکومت کے ساتھ ساتھ مسلح افواج نے قومی بچت مہم

میں حصہ لیتے ہوئے اپنے کئی اخراجات کم کردیے تھے

آئی ایم ایف پروگرام میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں!

بجٹ کی منظوری کے لیے وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے امید ظاہر کی کہ آئی ایم ایف کے ساتھ قرض کا معاہدہ ہوجائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی آئی ایم ایف کے مینجنگ ڈائریکٹر سے ایک گھنٹہ تک ٹیلی فون پر بات ہوئی اور پروگرام کی بحالی میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہ گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سیاسی بے یقینی کی وجہ سے معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ سیاسی استحکام کے بغیر اربوں، کھربوں ڈالرز بھی معیشت میں جھونک دیں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

اسحاق ڈار نے اپنی بجٹ تقریر میں کہا کہ اتحادی حکومت نے آئی ایم ایف کی نویں جائزے کی تمام شرائط کو پورا کرلیا ہے اور مشکل فیصلوں کی وجہ سے پاکستان ڈیفالٹ سے بچ گیا۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف حکومت کی اولین ترجیح ہے، حتی المقدر کوشش ہے کہ جلد سے جلد اسٹاف لیول معاہدہ

ہوجائے، کوشش ہے کہ عوام کو ریلیف دینے کے زیادہ سے زیادہ اقدامات کیے جائیں۔

گزشتہ روز پیش کیے جانے والے اقتصادی جائزے میں وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے رواں مالی سال کے اعداد و شمار پیش کیے تھے جس کے مطابق معاشی ترقی سمیت زرعی اور صنعتی ترقی کے اشاریے منفی رہے تھے۔

وزیرِ اعظم شہباز شریف کی اتحادی حکومت ایسے وقت میں سالانہ بجٹ پیش کیا ہے جب سیاسی اور معاشی بحران سے دوچار پاکستان عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے بیل آؤٹ کی تلاش میں ہے۔

آئی ایم ایف سے فنڈز حاصل کرنے میں مہینوں کی تاخیر کے ساتھ ساتھ ملک کو بدترین معاشی بحران کا بھی سامنا ہے۔