اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری کی گرفتاری پر وفاقی حکومت کو جوڈیشل انکوائری کرانے کا حکم دے دیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے شیریں مزاری کو ساڑھے 11 بجے عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
عدالتی حکم کے بعد شیریں مزاری کو اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچا دیا گیا ہے اور انہیں خاتون پولیس اہلکار لے کر عدالت پہنچیں۔
ڈاکٹر شیریں مزاری کمرہ عدالت میں ایمان مزاری کے ہمراہ موجود ہیں۔ اس موقع پر شیریں مزاری کا کہنا تھاکہ میرا فون ابھی تک واپس نہیں کیا گیا، میری گرفتاری کے پیچھے ن لیگ اور رانا ثنا اللہ ہیں۔
ان کا کہنا تھاکہ مجھے وارنٹ نہیں دکھایا گیا، خواتین پولیس اہلکاروں نے مجھے گاڑی سے گھسیٹ کر نکالا۔
شیریں مزاری کا کہنا تھاکہ ایک سادہ کپڑوں والے نے میراموبائل چھینا جو ابھی تک واپس نہیں ملا، میرے ناخن نوچے گئے، کریمنل رویے کا مظاہرہ کیا۔
ان کا کہنا تھاکہ موٹروے پر لے کر گئے اور چکری کے پاس گاڑی روک لی، میں نے کہا کہ 70 سال عمر ہے اور مریضہ ہوں، ایک ڈاکٹرآیاکہ آپ کامیڈیکل ٹیسٹ کرناہےکہ آپ سفرکےقابل ہیں یا نہیں۔
خیال رہے کہ اینٹی کرپشن پنجاب کی ٹیم نے سابق وفاقی وزیر کو اسلام آباد کے تھانہ کوہسار کی حدود سے گرفتار کیا تاہم وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے ان کی رہائی کا حکم دیا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے شیریں مزاری کو ساڑھے 11 بجے عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔